سیف الدین سیف کی برسی
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
یہ ضرب المثل شعر سیف الدین سیف کا ہے۔ جن کی آج پچیسویں برسی ہے۔
سیف الدین سیف 20 مارچ، 1922ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ جہاں ان کے آباء و اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے آباد ہوئے تھے۔ والد کا نام خواجہ معراج دین تھا . سیف ڈھائی برس کےہوئے تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ سیف نے ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی لیکن میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار پاس کیا۔ پھر ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نے علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔
خاکسار تحریک میں شامل ہوجانے کی وجہ سے سیف کی تعلیم نامکمل رہی ۔ کچھہ روابط فلمی دنیا کی طرف لے گئے اور سیف فلمی کہانیاں لکھنے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آکر پھر فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ 1954ء میں اپنا ذاتی ادارہ راہ نما فلمز قائم کیا۔
نہوں نے جن فلموں کے لئے نغمات تحریر کیے ان میں ہچکولے، امانت، نویلی دلہن، غلام، محبوبہ، آغوش، آنکھہ کا نشہ، سات لاکھہ، کرتار سنگھہ، طوفان، قاتل، انتقام، لخت جگر، امراؤ جان ادا، ثریا بھوپالی، عذرا، تہذیب، نارکلی، انجمن، شمع پروانہ سرِ فہرست ہیں۔ انہوں نے خود بھی فلمیں بنائیں جن میں سات لاکھہ اور کرتار سنگھہ شامل ہیں
ان کے کچھہ مشہور نغمات یہ ہیں
جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے (انارکلی)
وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے (لخت جگر)
چل ہٹ ری ہوا گھونگھٹ نہ اٹھا (مادر وطن)
جس طرف آنکھہ اٹھائوں تیری تصویراں ہیں (ثریا بھوپالی)
میں تیرا شہر چھوڑ جائوں گا (شمع اور پروانہ)
اظہار بھی مشکل ہے کچھہ کہہ بھی نہیں سکتے (انجمن)
جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں (امراؤ جان ادا)
آئے موسم رنگیلے سہانے تو چھٹی لے کے آجا بالما (سات لاکھہ)
سیف الدین سیف نے فلم کے ساتھہ ادب سے بھی رابطہ برقرار رکھا اور گیتوں کے ساتھہ ساتھہ نظمیں اور غزلیں بھی تخلیق کرتے رہے۔ سیف الدین سیف کی شاعری سماج کے مسائل اور زندگی کے حقائق کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کرتی ہے۔ ان کی شاعری کے تین مجموعےخمِ کاکل ، دوردراز اورکفِ گل فروش شائع ہوئے ۔
سیف الدین سیف کا 12 جولائی، 1993ء کو لاہور میں انتقال ہوااور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے
سیف الدین سیف کے کچھہ اشعار
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آساں ہو گئی ہوگی
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اسے سنا کے روئوں وہ مجھے سنا کے روئے
بڑے خطرے میں ہے حسنِ گلستاں ہم نہ کہتے تھے
چمن تک آگئی دیوارِ زنداں ہم نہ کہتے تھے
کیا قیامت ہے کہ ہجر کے دن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں
دشمن گئے تو کشمکشِ دوستی گئی
دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے
تمہارے بعد خدا جانے کیا ہوا دل کو
کسی سے رابطہ بڑھانے کا حوصلہ نہ ہوا
شور دن کو نہیں سونے دیتا
شب کو سناٹا جگا دیتا ہے
اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے
سنگِ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے
عمر کیسے کٹے گی سیف یہاں
رات کٹتی نظر نہیں آتی
ایسے لمحے بھی گزارے ہیں تیری فرقت میں
جب تری یاد بھی اس دل پہ گراں گزری ہے
دن گزرتا ہے تو لگتا ہے بڑا کام ہوا
رات کٹتی ہے تو اک معرکہ سر ہوتا ہے
سیف مری کم علمی میرے کام آئی
بستی کے سب دانشور نیلام ہوئے
بدلا ہے مگر بھیس غم عشق کا تو نے
بس اے غم دوراں تجھے پہچان گئے ہم
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
جانے اس شہر کا معیار صداقت کیا ہے
بت بھی ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں قران یہاں
کسی کی یاد سیف اور دل کی حالت
گھنا جنگل اکیلی جھونپڑی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“