قیام پاکستان کے بعد اس نوازئیدہ ملک میں روشن خیالی، ترقی پسندی، جمہوری اور انسانی حقوق کی بازیابی، معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور سماج کے پسماندہ طبقات کے حقوق پر قابض حکمران طبقات کے خلاف پیہم اور مسلسل جدوجہد ان کی سیاست کے اہم اجزا تھے۔ مسلم لیگ کی یک جماعتی آمرانہ طرز سیاست کو ناکام بنانے اور ملک میں وسیع البنیاد سیاسی اور سماجی کلچر کو متعارف کرانے اور اسے مظبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں کی جدوجہد میں کمیونسٹ سیاسی کارکنوں نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ وفاق میں شامل چھوٹے صوبوں
اور چھوٹی قومیتوں کے حقوق ہوں یا علاقائی زبانوں کا تحفظ، ان کی حفاظت اور ترقی کے لئے انھوں ثابت قدمی اور پامردی سے جدوجہد کی اور اس ضمن میں حکرانوں کے منفی اور عوام پالسیوں کو ناکام بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ حکومتی جبر و تشدد کا ہر ہتھکنڈا جیل اور شاہی قلعہ لاہور کا عقوبت خانے بھی انھیں ان کی چنیدہ راہ سے ہٹانے میں ناکام رہے تھے۔
’جو آنکھ سے نہ ٹپکا‘ ایک ایسے ہی کمیونسٹ کارکن کی داستان حیات ہے جسے ان کے نظریاتی اور جدوجہد کے ساتھی احمد سلیم نے لکھا ہے۔ترقی پسند سیاست و فکر سے وابستہ وہ نسل جس نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا سیف خالد کے سیاسی کام و نام سے بخوبی واقف ہے۔ وہ انتھک اور پرعزم سیاسی کارکن تھے جنھیں اپنے نظریات کی صداقت پر یقین کامل تھا۔ وہ سیاسی کارکنوں کی ایک ایسی بریڈ سے تعلق رکھتے تھے جو سنگل ٹریک تھی جنھوں نے مشکل ترین حالات میں بھی سمجھوتہ بازی کرنا اور مایوسی کا شکار ہونا نہیں سیکھا تھا۔ وہ اپنی جدوجہد اور اپنی نظریاتی وابستگی میں یکسو تھے۔
سیف خالد کی فیملی کا تعلق مشرقی پنجاب کی ریاست جیند سے تھا۔ سیف خالد 7۔ جولائی 1929کو جیند میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد اور دیگر رشتہ دار ریاستی سرکار کے اہم ریاستی عہدوں پر فائز تھے۔ اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر سیف خالد نے اپنی ابتدائی تعلم جیند ہی میں حاصل کی تھی اور بعد میں ریاست کے دارالحکومت سنگرور کے کالج میں داخلہ لے لیا۔ سیف ابھی سکول ہی میں تھے تو آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی اور سیف اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اپنی سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر ایک دفعہ سکول نکالے بھی گئے تھے۔ اپنے سکول کے سالوں ہی میں ان کا رابطہ بائیں بازو کے تنظیموں سے ہوگیا تھا اور اوائل عمری قایم ہونے والا یہ تعلق آنے والے وقت میں مضبوط سے مضبو ط ہوتا چلا گیا۔
سیف خالد کے اہل خانہ قیام پاکستان سے ایک سال قبل ہی جیند سے نقل مکانی کرکے لائل پور آگئے تھے۔ لائل پور میں سیف خالد کا رابطہ ایک دفعہ پھر ترقی پسند سیاست سے رابطہ قائم ہوا اور انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر منظم طلبا تنظیم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرنا شروع کردیا۔وہ طلبا سیاست کے ساتھ ساتھ مزدور کسان تنظیوں کے تنظیمی کام میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ یہ سیف خالد ہی تھے جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد لائل پور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھنے اور اسے وسعت دینے میں اہم رول ادا کیا تھا۔
سیف خالد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان(سی۔پی۔پی) اور اس کی اتحادی تنظیموں اور اتحادوں میں ساری زندگی متحرک رہے۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی (پنجاب)کے جنرل سیکرٹری بنے اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہر طرف بھٹو کی مقبولیت کے پرچم لہرارہے تھے۔ بھٹو نے انھیں پیپلزپارٹی میں شمولیت اور لائل پور سے اپنی پسند کے حلقے سے پارٹی ٹکٹ دینے کی پیش کش کی لیکن سیف خالد اس پر راضی نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ بھٹو کی سیاست و فکر سے متفق نہیں تھے۔
سیف خالد نے افراسیاب خٹک کے ساتھ مل کر نیشنل پروگریسو پارٹی بنائی اور اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔لیکن جلد ہی انھوں نے یہ پارٹی معروف مزدور لیڈر ڈاکٹر اعزاز نذیر کے حوالے کرکے خود کو اس سے علیحدہ کرلیا تھا۔سیف خالد اپنی وفات (1988) تک پوری استقامت کے ساتھ بائیں بازو کے نظریات اور سیاست سے وابستہ رہے اور کبھی بھی نظریاتی کمٹمنٹ سے منہ نہ موڑا۔
’جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘ ایک ایسے شخص کی داستان حیات ہے جسے دریائے سندھ کی پلہ مچھلی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو ہمشیہ دریا کے بہاو کی مخالف سمت میں تیرتی ہے۔ وہ سماج میں موجود ظلم و ناانصانی سے مطابقت کرنے کی بجائے اس نابرابری اور ظلم کے خلاف لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
سیف خالد کی زندگی کی کہانی اور اس کی جدوجہد پاکستان کے عوام کی تاریخ کا ایک بیش قیمت حصہ ہے۔یہ عوام کی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کا سمبل ہے۔
احمد سلیم کو ترقی پسند موضوعات اور شخصیات پر سنجیدہ علمی و ادبی کام کرنے کا طویل اور قابل رشک تجربہ ہے۔احمد سلیم کو اپنے اس کام کی بدولت متعدد بار مصائب اور مشکلا ت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لئے احمد سلیم کے لئے یہ قطعا مشکل نہیں تھا کہ وہ سیف خالد کی انتخاب کردہ راہ کے پس پشت محرکات،اس کی راہ میں حائل سیاسی اور سماجی مشکلات اور رکاوٹوں کو سمجھ پاتے اور ان کی ایسی تصویر کشی کرتے جس کی بدولت سیف خالد کی سیاسی اور ذاتی زندگی کے خدو خال بہت واضح نظر آتے ہیں ٭٭
پبلشر:مکتبہ دانیال عبداللہ ہارون روڈ کراچی
ملنے کا پتہ: سانجھ پبلیکیشنز مزنگ روڈ لاہور
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...