’ہم یوں دلگیر تھےجیسےکسی اپنےرشتےدار کی موت ہوئی ہو۔ ایک بہت ذاتی نقصان جو آپ کو اندر سے بہت خالی، بیک وقت بہت غصیلا اوربہت دُکھی کردے۔‘
29 مارچ 1971 کو 26 ایف ایف مشرقی پاکستان میں اپنےاولین شہداکوسپردِخاک کررہی تھی۔
لیفٹیننٹ کرنل حکیم ارشدقریشی کےبقول اس دن یہ یونٹ کےہر جوان کےتاثرات تھے۔ کرنل صاحب کا کہنا ہےکہ اس دن یونٹ واسی ایک دوسرے کےسامنےکھُل کرروئےتھےاور اس رونے میں آنےوالے دنوں کے خدشے کی جھلک تھی۔
اکہتر کے مارچ میں 26 ایف ایف رنگ پور، سیدپور اور دیناج پور کے علاقوں میں تعینات تھی۔
ہماری پہلی ٹوئیٹ کےساتھ لف تصویر سید پور کے قبرستان میں دفن یونٹ کے شہیدوں کی ہے۔ عزیز قارئین، اس تصویرکوذرانظربھردیکھ لیجیے کہ ایک اجنبی سرزمین کی خاک اوڑھ کر لیٹےہمارے فوجیوں کےگمشدہ مدفن کی بہت تصویریں ہمارےپاس نہیں ہیں۔
لیکن 29 مارچ کوہوئی اس علاقےکی یہ پہلی شہادت نہیں تھی۔
23 مارچ 1971 کو رنگ پور چھاؤنی سے 29 کیولری ’ٹائیگرز‘ کے سیکنڈ لیفٹیننٹ عباس علی خان بنگالی سپاہیوں کے حفاظتی دستے کے ساتھ دال روٹی سے تنگ آئے جوانوں کے لیے تازہ سبزی کا انتظام کرنے نکلے۔ بنگالی عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر افسر کو شہید کردیا اور ہتھیار قبضے میں کرلیے۔
ہمارےلیفٹیننٹ کی بنگالی گارڈاپنےافسرکوگنواکرصحیح سلامت واپس آگئی تھی۔ یہاں کرنل قریشی کہتےہیں کہ ’ہاتھ بندھےہونے‘ کےسبب اس قتل پرکوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی۔
اسی کہانی کادوسرارخ اس حملےکوبنگلہ دیش کی آزادی کےسلسلے کی پہلی گوریلاطرزکی کارروائی قراردیتےہوئےہمیں شاہدعلی سےملاتا ہے رنگ پورکے نواحی گاؤں کا شاہدعلی جس نے23 مارچ 1971 کوچند ساتھیوں کےساتھ ملکرلیفٹیننٹ عباس کی جیپ پرلاٹھیوں اور برچھیوں سےحملہ کردیا۔ جیپ کےبنگالی ڈرائیورکو چھوڑکرافسر اور جوانوں کو اپنی دانست میں قتل کردینےکے بعد جیپ رنگ پور سے تھوڑی دور ڈنگیرپور پر چھوڑ یہ گوریلے ہوا ہوگئے۔
29 کیولری کا بھیجا فائٹنگ پیٹرول 25 مارچ کو جیپ کا سراغ لایا تو زخموں سے چور لیفٹیننٹ عباس میں ابھی زندگی کی رمق تھی۔ انہیں ملٹری اسپتال لایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔
شاہد علی اگلےچند دنوں میں آپریشن سرچ لائٹ کی گرماگرمی میں ایک مخبری کےسبب 7 اپریل کوپاک فوج کےہاتھوں مارا گیا۔
رنگ پور چھاؤنی سے باہر نکلیں تو پاس ہی کے گاؤں کی ہریاول میں آزاد بنگلہ دیش کےاولین گوریلوں میں سے ایک شاہد علی کی قبر ہے۔
23 مارچ ہی کے دن رنگ پور سے تھوڑا دور دیناج پور کے سرحدی شہر میں ایک اور ڈرامہ کھیلا جارہا تھا۔
یہاں ایسٹ پاکستان رائفلز کے سیکٹر کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل طارق رسول قریشی نے یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے بڑا کھانا رکھا۔ اس کھانے میں دیناج پور میں تعینات 26 فرنٹیئر فورس کی کمپنی بھی مدعو تھی۔ یہ کرنل صاحب کا چالاکی سے بنگالی سینا سے ہتھیار رکھوانے کا منصوبہ تھا۔
ایسٹ پاکستان رائفلز کے جوانوں کو کھانےپر آنے سے پہلے ہتھیار یونٹ کوت میں جمع کروانے کا حکم تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ ہتھیار جمع ہونا شروع ہوتے، 26 ایف ایف کے جوان ہتھیار بند بڑے کھانے کے لیے پہنچ گئے اور بنگالی سپاہ نے بھانپ لیا کہ بڑے کھانے کی دال میں کچھ کالا ہے۔
28 مارچ کی صبح ایسٹ پاکستان رائفلز کا نمبر آٹھ ونگ دیناج پور میں بغاوت میں کھڑا ہوگیا۔ رنگ پور سے نکلے 9 ونگ کی کمک اور مقامی پولیس کی مدد سے یہ فوج دیناج پور پر قابض ہوگئی۔ 26 ایف ایف کی کمپنی دیناج پور کے سرکٹ ہاؤس میں محصور ہوگئی۔
ایسٹ پاکستان رائفلز کے مغربی پاکستانی بنگالی غیض وغضب کے ہتھے چڑھ گئے۔ چند جان بچا پانے والے افسر اور جوانوں کو سرکٹ ہاؤس کے بالکل ساتھ ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں پناہ ملی، مگریہ امان عارضی ثابت ہونے والی تھی۔
ویڈیو لِنک
31 مارچ کی صبح دیناج پور میں پھنسےمغربی پاکستانیوں کی مدد کو 26 ایف ایف کےدلیرکیپٹن فداحسین شاہ مشین گن بردارجیپوں کو لےکر دیناج پورکی رکاوٹیں گراتےسرکٹ ہاؤس تک پہنچ گئےاور 26 ایف ایف کےمحصورین کو دیناج پور سےنکال لائے۔ مگربالکل ساتھ ڈپٹی کمشنرہاؤس کےپناہ گزینوں تک نہ پہنچ پائے۔
ڈپٹی کمشنر دیناج پور بنگالی سینا کے دباؤ کےہاتھوں مجبور ہو کر اپنی جان تو بچالیں گے مگر اپنے ہاں پناہ لینے والوں کو گوریلوں کے حوالے کردیں گے۔ دیناج پور کے دروبام جن مغربی پاکستانیوں کے خون سے نہائے ان میں سے 17 سگنلز کے میجر محمد امین طارق کا ذکر بریگیڈیئر کرار علی آغا کرتےہیں۔
بھوری آنکھوں والے میجر امین اور ان کے بیوی بچوں کو ڈی سی ہاؤس سے باہر نکال سرِ عام ان کے بنگالی بیٹ مین نے بے دردی سے سنگین کے وار کرکے قتل کردیا تھا۔ چند ہفتوں بعد جب چھبیس ایف ایف کے جوان دیناج پورکو واگزار کروائیں گے تو دریائےپنربھاب کے کنارے کٹی پھٹی لاشوں سے اٹے ہوں گے۔
29 کیولری ’ٹائیگرز‘ کے قیدی
___
دیناج پور ہاتھ سے نکلنے کے بعد رنگ پور پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا وقت تھا۔ یہاں مشرقی پاکستان کی واحد رسالے کی یونٹ 29 کیولری ’ٹائیگرز‘ تعینات تھے۔ یونٹ کا اصل مسئلہ بنگالی افسر اور جوانوں کو غیر مسلح کرنا تھا۔
یہاں کمانڈنگ افسر کی چال کامیاب رہی جب 28 مارچ کو بنگالی نفری کو چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹ کر رنگ پور کی سڑکوں پر گشت کرنے کا جھانسہ دے کر غیر مسلح کرلیا گیا۔ رنگ پور میں گرفتار 29 کیولری اور 23 فیلڈ رجمنٹ کے بنگالی افسروں اور جوانوں کو آنے والے دنوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا جرمن اصطلاح ‘kaput’ کے انداز میں۔ یہ اصطلاح 29 کیولری کے کمانڈنٹ لیفٹیننٹ کرنل صغیر حسین سید کی پسندیدہ تھی۔ بعد کے دنوں میں جب کرنل صغیر بریگیڈیئر کرارعلی آغا سے ڈھاکہ میں ملیں گے تو ثانی الذکر کے الفاظ میں ایک لطف لینے کے انداز میں ان ‘kaput’ ہلاکتوں کا ذکر کریں گے۔
29 کیولری کے بنگالی سپاہیوں کے قتلِ عام میں 23 پی ایم اے وار کورس کے لیفٹیننٹ ہاشم بھی تھے، جن کے مدفن کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ لیکن ایک دوسرے لیفٹیننٹ ابنِ فضل بدیع الزماں رنگ پور کی قید سے نکل بھاگیں گے۔
بعد کے دنوں میں مکتی باہنی کے ساتھ ملکر پاک فوج سے لڑتے ہوئے وطن پر نثار ہوئے لیفٹیننٹ بدیع الزماں کو بنگلہ دیش بہادری کے اعزاز بیر پروتک سے نوازے گا۔
سید پور کا قتلِ عام
ــــ
رنگ پور کے نواح میں 3 ایسٹ بنگال رجمنٹ کی کمپنیاں بغاوت کرچکی تھیں۔ اس یونٹ کا ہیڈکوارٹر اور بچی کھچی نفری رنگ پور کے پڑوس سید پور میں 26 ایف ایف کے رحم و کرم پر تھی۔ 29 مارچ کو اپنے پہلے شہید سپردِ خاک کرکے ان پر رولینے والی یونٹ نے اب اپنےہتھیار 3 ایسٹ بنگال کے پیٹی بند بھائیوں پر سیدھے کرلیے جنہوں نےگرفتاری دینےپر یونٹ لائنوں میں مورچہ بندہونےکو ترجیح دی۔
یہاں کہانی کابنگلہ دیشی رُخ ہمیں بتاتاہےکہ سید پور سےایسٹ پاکستان رائفلز کےاسسٹننٹ ونگ کمانڈرکیپٹن نوازش الدین موقع پاتےہی 26 مارچ کوسیدپورسےنکل گئےتھے
آپ آس پاس کے دستوں کو اکٹھا کرکے دریائے ٹیسٹا پر ایک مضبوط بلاک لگائیں گے۔ مگر بریگیڈیئر کرار ہمیں بتاتے ہیں کہ نوازش الدین ٹھاکرگاؤں میں ونگ نمبر 9 کے اسسٹنٹ کمانڈر تھے جب 28 مارچ کو اپنے ونگ کمانڈر میجر محمد حسین کو گولی مارکر انہوں نے اعلانِ بغاوت کیا تھا۔
یہاں سے ہم واپس سید پور کو پلٹتے ہیں جہاں یونٹ لائنز میں 3 ایسٹ بنگال کے بچے کھچے مورچہ بند سپاہی 26 ایف ایف کے رحم وکرم پر ہیں۔ فرنٹیئر فورس کی برستی گولیوں اور 23 فیلڈرجمنٹ کے توپ کے گولوں سے بھاری جانی نقصان اٹھاتے ایسٹ بنگال کے افسر اور جوان سید پور سے نکل بھاگیں گے۔
پیچھے رہ جانے والے زخمی اور بیگمات 26 ایف ایف کے فتح میں بدمست دستوں کو اپنی جان اور آبرو کا خراج ادا کریں گے۔
اس لڑائی میں جان ہارنے والے 3 ایسٹ بنگال رجمنٹ کے 23 پی ایم اے وار کورس کے لیفٹیننٹ سراج الاسلام بھی تھے۔ سید پور کے 26 ایف ایف کے قبرستان میں شاید ایک بے نامی قبر بنگال کے اس شہید کی بھی ہو مگر ان کے کورس میٹوں کو اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
سید پور میں بولے گئے اس دھاوے میں ہمارے دیناج پور کے ہیرو کیپٹن فداحسین شاہ بھی کام آگئے۔ وہ ہراول دستے میں آگے آگے تھے جب 3 ایسٹ بنگال کی یونٹ لائن سے فائر ہوئے پہلے برسٹ کی کچھ گولیوں نے ان کے دل اور پھیپھڑوں میں سوراخ کرڈالے اور سر پر لگنے والی ایک گولی کاری وار ثابت ہوئی۔
کیپٹن فدا حسین شاہ کو یکم اپریل کو سید پور کے اسی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا جہاں 29 مارچ کو اپنے پہلے شہید دفناتی 26 ایف ایف اکٹھی ہوئی تھی۔
یہ وہی تصویر ہے عزیز قارئین جس سے ہماری اس کہانی کا آغاز ہوا تھا۔
سید پور کے قبرستان میں کیپٹن مجاہد کے پہلو سے لگی یہ قبر کیپٹن فدا حسین شاہ کی ہے ۔۔۔
اے ارضِ وطن، اے ارضِ وطن!
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دیئے
ان آنکھوں نے اپنے نیلم
ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں
ان ہاتھوں کی بے کل چاندی
کس کام آئی کس ہاتھ لگی ۔۔۔