ساحر لدھیانوی :کچھ ادبی،کچھ ذاتی تاثر
ادبی دنیا میں داخل ہونے سے تھوڑا عرصہ قبل مجھے جن شاعروں نے غیر معمولی طور پر اپنی طرف متوجہ کیا،ان میں ترقی پسندوں میں فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی جبکہ جدید نظم نگاروں میں میرا جی اور ن م راشد سرِ فہرست تھے۔مذہب کے روایتی شکنجہ کے خلاف شاعری پڑھ کراُس عمر اور زمانہ میں اچھا لگتا تھا۔اب بھی ایسا برا نہیں لگتا۔اقبال کے’’ شکوہ‘‘ سے لے کر بعض ترقی پسندوں کے ہاں مذہب کی ظاہر پرستی کے ’’مذہبی شکنجے‘‘کی مذمت تک ساری شاعری اچھی لگتی رہی ہے۔لیکن ہستیٔ باری تعالیٰ کا اقراراور اس کی جستجوکا سفرہمیشہ سے میری سوچ کا محور رہا ہے۔چنانچہ جب ن۔م راشد کے ہاں’’ اسرافیل کی موت‘‘ پڑھنے کاموقعہ ملا تو میں نے اس کی معنوی توجیہہ کرکے خود کوراشد کے قریب رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن جب راشد کے ہاں’’خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے‘‘(پہلی کرن) پڑھنے کا موقعہ ملا تو راشد کی نسبت طبیعت میں ایک تکدر پیدا ہو گیا۔انہوں نے یہ کوئی نئی بات نہیں کہی تھی۔نیطشے اپنی مشہور تمثیل میں ’’خدا کی موت‘‘کا اعلان کر چکا تھا اور راشد نے اسی بات کو دہرایا تھا،سو راشد کے معاملہ میں ایک فاصلہ سا پیدا ہوا۔اس فاصلے کے احساس کو میرا جی کی قربت کے احساس نے کسی حد تک سنبھالا دیا۔میرا جی کے ہاں شروع سے ہی جو حیران کر دینے والی بات ملی تھی،وہ ان کی نظم ’’سلسلۂ روز و شب‘‘کی ابتدا تھی۔
’’خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے‘‘
دکھائی دینے اور دکھائی نہ دینے کا میرا جی کا تصور ان کی نظم’’جُزو اور کُل‘‘سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔تاہم ’’سلسلۂ روزو شب‘‘ کی آخری لائن تک خلا کا جو ذکر ملتا ہے،وہ تدریجاََ ہستیٔ باری تعالیٰ کی تفہیم میں میرے کام آتا رہا۔خلا کے توسط سے خدا کو سمجھنے میں میری یادوں کے باب’’رہے نام اللہ کا‘‘میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ سولہ سال کی عمر کی سوچ سے ساٹھ سال کی عمر تک کی سوچ کا سفر قرار دیا جا سکتا ہے۔میں ایسا ہی سمجھتا ہوں۔
ساحر لدھیانوی کے حوالے سے بات ترقی پسند شاعروں کی ہونا چاہیے تھی، میں جدید نظم گو شعراء کا ذکر لے بیٹھا،لیکن ترقی پسند شعراء کی طرف آنے سے پہلے یہ تمہیدضروری تھی۔اگرچہ یہ قدرے طویل ہو گئی ہے۔جدید نظم کے میرا جی اور راشد کی طرح ترقی پسند شاعروں میں سے مجھے فیض اور ساحر لدھیانوی زیادہ پسند رہے ہیں۔ فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کو پسند کرنے میں پلڑا اوپر نیچے ہوتا رہتا ۔فیض رسمِ دعا یاد نہ ہونے کے باوجوددعا کے قائل تھے۔میں رسمِ دنیاکو ایک حد تک نبھانا ضروری(مجبوری)سمجھتا ہوں لیکن رسمی دعا کا نہیں بلکہ قلبی دعا کا قائل ہوں۔سو خود کو کسی حد تک فیض کے قریب محسوس کیا۔فیض کی بعض نظمیں ترقی پسندانہ مزاج کے مطابق ہیں تو بعض نظمیں ایسی بھی ہیں جو جدید نظم اور ترقی پسند نظم کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں اور انہیں نظموں سے فیض کی نظم نگاری میں ادبی شان نمایاں ہوتی دکھائی دیتی ہے۔پھر رومانٹک مزاج کی ریشمی شاعری جو انقلابی شاعری کے دو ش بدوش چلتی رہی۔
ساحر لدھیانوی کے ہاں اس نوعیت کے اشعار نے کچی عمر ہی میں چونکا دیا تھا۔
عقائد وہم ہیں،مذہب خیالِ خام ہے ساقی
ازل سے ذہنِ انساں بستۂ اوہام ہے ساقی
حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے
عروسِ آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی
بعد میں علم ہوا کہ ترقی پسند شعراء کو مذہب کے خلاف لکھنے کی خصوصی تلقین تھی،چنانچہ ہر ممتاز ترقی پسند شاعر نے اپنی اپنی ہمت اور بساط کے مطابق اس موضوع کو نبھایا۔ساحر لدھیانوی نے بھی اس موضوع کو احکامات کی تعمیل کے طور پر خوب خوب نبھایا،عمومی طور پر ان کے مذہب مخالف اشعارنظریاتی تعصب کو ظاہر کرتے ہیں لیکن جہاں کہیں وہ مذہب کی ظاہری صورت کے منفی رُخ کو ہدف بناتے ہوئے طنز سے زیادہ شوخی سے کام لیتے ہیں وہاں ان کی ایسی شاعری بھی دلچسپ ہو جاتی ہے۔لیکن جہاں شوخی کم ہوتی ہے وہاں مذہب پر حملہ آورہونے کا تاثرنمایاں ہونے لگتا ہے۔’’طرحِ نَو‘‘مذہب کی شدید مذمت سے بھری ہوئی نظم ہے۔یہاں تک تو بات گوارا رہتی ہے کہ مذہب کے نام پر لوگوں کی جیبیں کاٹنے والوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
بیزار ہے کنشت و کلیسا سے اک جہاں
سوداگرانِ دین کی سوداگری کی خیر
لیکن جب ساحر لدھیانوی یہاں تک پہنچتے ہیں۔
ابلیس خندہ زن ہے مذاہب کی لاش پر
پیغمبرانِ دہر کی پیغمبری کی خیر
تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ بھی نیطشے کے ’’اعلان‘‘کے زیر اثر آرہے ہیں،لیکن براہِ راست خدا کو انہوں نے یہاں بھی زد پر رکھنے کی جسارت نہیں کی۔ایک احتیاط کر گئے یا ان سے از خود احتیاط ہو گئی۔
ساحر کے ہاں اس نوعیت کے مزید چند اشعار بھی دیکھتے چلیں۔ یہ کچھ محتاط اور کچھ بے باک قسم کے اشعار ہیں،ان اشعار کی تمام تر بے باکی بھی ساحرلدھیانوی کو ن م راشدکی ’’خدا کا جنازہ‘‘جیسی پستی میں گرنے سے بچائے رکھتی ہے۔
مِر ا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اب تک
مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں پہ کیا گزری
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آگئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری
۔۔۔۔
سرِ مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سرِ منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے
کون جانے یہ ترا شاعرِ آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے
۔۔۔۔
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
۔۔۔۔
فیض اور میرا جی کے بر عکس ساحر لدھیانوی کے افکا رزیادہ واضح اور دو ٹوک تھے لیکن ساحر لدھیانوی نے ن۔م۔راشد کی طرح ہستیٔ باری تعالیٰ کو براہِ راست ہدف نہیں بنایا۔اس کے برعکس تمام تر دہریت کے باوجودایک انجانی جستجو کا سفر بھی ان کے ہاں ملتا ہے اور اس جستجو کے ساتھ ’’اپنے ذوقِ طلب‘‘کے خام ہونے کا احساس و اعتراف بھی اس رنگ میں ملتا ہے۔
ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے
مرا ذوقِ طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی
فلم ’’ہم دونوں ‘‘کا بھجن’’اللہ تیرو نام،ایشور تیرو نام ۔ ‘‘کو اگر حمدیہ بھجن یا دعائیہ بھجن کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔یہ صرف فلمی ضرورت نہیں بلکہ ایک ’’مسلمان دہریے‘‘کے دل کی آواز بھی ہے۔
فیض صاحب کی ’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘اور ساحر لدھیانوی کی’’تاج محل‘‘دونوں اتنی شاندار ترقی پسند نظمیں ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کسے دوسری نظم پر ترجیح دی جائے۔ذاتی طور پر میں دو وجوہات کی بنا پر ساحر لدھیانوی کی نظم کو ترجیح دیتا ہوں۔پہلی وجہ یہ کہ’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘کو ملکۂ ترنم نورجہاں نے ایسے خوبصورت انداز سے گایا ہے کہ گویا اس نظم کو امر کر دیا ہے۔نورجہاں کے گائے جانے کے بعد جب کبھی فیض سے یہ نظم سنانے کی فرمائش کی جاتی تو وہ خود کہتے بھئی یہ نظم تو اب نورجہاں کی ہو چکی۔اس کے برعکس نظم’’تاج محل‘‘ کو نہ تو ایسے انداز میں گایا گیا اور نہ ہی کسی گائیکی کی بنیاد پر اس کی کوئی شناخت قائم ہوئی،اس کی ساری اہمیت اور قدروقیمت اس کی اپنی شعری لفظیات اور اپنی ادبی شان سے ہی ظاہر ہوئی۔ دوسری وجہ یہ کہ دونوں نظمیں اشتراکی نظریات کی حامل ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور خصوصاََ سوویت یونین کے انہدام کے بعد فیض کی نظم بھی جیسے اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے۔صرف ایک مشہور گیت بن کر رہ گئی ہے۔جبکہ وقت بدلنے کے باوجود ساحر لدھیانوی کی نظم ’’تاج محل‘‘نئے تناظر میں زیادہ اہم بن کر سامنے آرہی ہے۔یہ نظم اس احساس کو اجاگر کرتی ہے کہ جس وقت مغربی دنیا جدیدعلوم اور نئی ایجادات کے جدید سفرپر گامزن ہورہی تھی،ہمارے ہند کے بادشاہ شاہی قلعے،شاہی مقبرے اور دوسری شاہی عمارات بنانے میں ہی مگن تھے۔نہ انہیں بدلتے ہوئے زمانے کی رفتار کا کوئی ادراک تھا،نہ اپنی مملکت کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی تصور ان کے پیش نظر تھا۔
’’تاج محل‘‘کے بعد ساحر لدھیانوی کی نظم’’مادام‘‘نے مجھے بے حد متاثر کیا۔پھر’’کبھی کبھی’’،’’فن کار‘‘،’’فرار‘‘جیسی نظموں سے ساحر نے اپنے سحر میں گرفتار کیے رکھا۔’’نذرِکالج‘‘ بنیادی طور پر لدھیانہ کالج سے خارج کیے جانے والے ساحرکی اپنی روداد ہے۔لیکن یہ کیسی نظم ہے کہ مجھے ابتدائی عمر میں بھی پسند تھی اور اب بھی جیسے مجھے یہ ساحر سے زیادہ اپنی کہانی لگنے لگتی ہے۔اس نظم کے چند اشعاریہاں پیش کرنا چاہوں گا۔
اے سر زمین پاک کے یارانِ نیک نام
باصد خلوص شاعر ِ آوارہ کا سلام
تُو آج بھی ہے میرے لیے جنتِ خیال
ہیں تجھ میں دفن میری جوانی کے چار سال
ہم ایک خار تھے جو چمن سے نکل گئے
ننگِ وطن تھے، حدِ وطن سے نکل گئے
اس سر زمیں پہ آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا ہمارے نام سے بیزار ہی سہی
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گر یاں نہیں پہ یاں سے نکالے ہوئے تو ہیں
مجھے اس ا عتراف سے کوئی عار نہیں کہ متعدد دوسرے اچھے شاعروں کے اثرات کی طرح میرے ہاں ساحر کی فلمی و غیر فلمی شاعری کا غیر ارادی اثر آتا رہا ہے۔جس سے شعوری سطح پرکوئی متاثر ہو وہ لاشعوری طور پرکسی نہ کسی رنگ میں اپنا اثر ضرور ڈالتا ہے۔اب غور کرتا ہوں تو بعض اشعار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
دیکھا تو تھا یوں ہی کسی غفلت شعار نے
دیوانہ کر دیا دلِ بے اختیار نے
(ساحر لدھیانوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔
یونہی دیکھا تھا جسے چشمِ تماشائی سے
اب نکلتا ہی نہیں روح کی گہرائی سے
(حیدرقریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
گریز کا نہیں قائل حیات سے لیکن
جو سچ کہوں کہ مجھے موت ناگوار نہیں
(ساحر لدھیانوی)
زندگی اور موت کے بارے میں نے بہت سارے شعر کہے ہیں لیکن یہاں ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔
اور تھے حیدر ؔ جو اس کی چاہ میں مرتے رہے
ہم نے اُلٹے ہاتھ سے جھٹکی ہوئی ہے زندگی
اچھے اچھے معروف شاعروں کے ہاں بھی ساحرلدھیانوی کی شاعری کی گونج سنائی دیتی ہے۔ساحر کی ایک نظم جس کے کچھ حصے گائے بھی گئے ہیں۔بڑا مشہور گیت ہے۔
’’پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی،تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں‘‘
ساحرلدھیانوی کا یہ مردانہ اندازپروین شاکر کے ہاں نسائی روپ کے ساتھ یوں ظاہر ہوتا ہے۔
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
ساحر لدھیانوی جب روایتی ترقی پسندوں کی’’تعمیلِ ارشاد‘‘پروگرام کی طرح شاعری کرتے ہیں تو وہی موضوعات ان کے ہاں گھسے پٹے انداز میں آتے ہیں جیسے دوسرے ترقی پسند شاعروں کے ہاں ملتے ہیں۔گھن گرج،نعرہ بازی،انقلاب سے دنیا بدل دینے کے دعوے،ایسے ایسے دعوے جن کاخود اپنی ذاتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا(کسی بھی نظریاتی شاعر اور ادیب کے قول و فعل میں کچھ نہ کچھ ہم آہنگی تو دکھائی دینی چاہئے۔) لیکن جب جب وہ اپنے مخصوص موضوعات کو تخلیقی سطح پر مس کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہیں ان کے اشعارمیں جیسے عصر کو عبورکر لینے کی قوت دکھائی دینے لگتی ہے۔
دہر کے حالات کی باتیں کریں
اس مسلسل رات کی باتیں کریں
فلم ’’نوجوان‘‘کے گیت’’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں‘‘سے بطور شاعر اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنے والے ساحر لدھیانوی نے’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘تک فلمی شاعری کو اعلیٰ ادبی معیار تک پہنچا دیا۔ ’’پھر صبح ہو گی‘‘ ،’’ہم دونوں‘‘ ،’’وقت‘‘،’’ہمراز ‘‘اور’’ گمراہ‘‘ جیسی کتنی ہی فلموں کے کیسے کیسے گانے جیسے ہماری زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔جنسی جذبات کو کسی حد تک کھل کراور پھر لطافت کو ملحوظ رکھ کر بیان کرنا ساحر لدھیانوی کی شاعری کا کمال ہے۔ان سے پہلے جنسی جذبات یا تو بہت زیادہ ملفوف انداز میں بیان کیے جاتے یا پھر فحاشیت کا تاثر پیدا کرتے ہوئے پھوہڑ پن سے بیان کیے جاتے تھے۔اس سے ہٹ کر زندگی کے دوسرے معاملات و مسائل سے متعلق انسانی نفسیاتی و جذباتی اتار چڑھاؤکی کتنی کیفیات کی ترجمانی ان کے گیتوں میں موجود ہے۔
فلم ’’دھند‘‘کے ایک گیت میں تو فلسفیانہ سطح پر زندگی کے بھید کو بھی ساحر لدحیانوی نے کتنے سہل اور آسان پیرائے میں بیان کر دیا ہے۔
سنسار کی ہر شئے کا اتنا ہی فسانہ ہے
اک دھند سے آنا ہے،اک دھند میں جانا ہے
اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا
اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے
فلم کاجل کا بھجن ’’تورا من درپن کہلائے‘‘اتنا پُر تاثیر ہے کہ سنتے ہی بندہ سوچتا ہے کہ سادھو بن کر کسی جنگل کی راہ لی جائے۔اور فلم’’چترلیکھا‘‘کا گیت ’’سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤگے‘‘سُن کر ساری تپسیا ترک کرکے دنیا کی گہما گہمی میں شامل ہو کر زندگی سے لطف کشید کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔دونوں گیتوں کے اشعارایک ساتھ پیش کر رہاہوں۔
فلم کاجل کا بھجن
پرانی اپنے پربھو سے پوچھے،کس ودھی پاؤں توہے
پربھو کہے تو من کو پالے،پاجائے گا موہے
۔۔۔۔۔
تورا من درپن کہلائے
بھلے بُرے سارے کرموں کو دیکھے اور دکھائے
من ہی دیوتا،من ہی ایشور،من سے بڑا نہ کوئے
من اجیارا جب جب پھیلے جگ اجیارا ہوئے
اس اُجلے درپن پر پرانی دھول نہ جمنے پائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکھ کی کلیاں،دُکھ کے کانٹے،من سب کا آدھار
من سے کوئی بات چھپے نہ من کے نین ہزار
جگ سے چاہے بھاگ لے کوئی،من سے بھاگ نہ پائے۔۔۔۔
تن کی دولت ڈھلتی چھایا، من کا دھن ان مول
تن کے کارن ،من کے دھن کو مت ماٹی میں رول
من کی قدر بھلانے والا ہیراجنم گنوائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
فلم چترلیکھا کا گیت
سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤگے
اس لوک کو بھی اپنا نہ سکے، اُس لوک میں بھی پچھتاؤگے
یہ پاپ ہے کیا اور پُن ہے کیا،رِیتوں پر دھرم کی مہریں ہیں
ہر یُگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤگے۔۔۔۔
یہ بھوگ بھی ایک تپسیا ہے،تم تیاگ کے مارے کیا جانو
اپمان رچیتا کا ہوگا، رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے۔۔۔۔۔۔۔
ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے،تم کہتے ہو جھوٹا سپنا ہے
ہم جنم بِتا کر جائیں گے، تم جنم گنوا کر جاؤگے۔۔۔۔۔
ساحر لدھیانوی خوش قسمت تھے کہ انہیں ایس ڈی برمن کے ذریعے پہلا گیت لکھنے کا چانس ملا تو آگے چل کر انہیں خیام جیسے موسیقار کی قربت ملی۔خیام نے ساحر سے مقررہ موسیقی پر گیت لکھوانے کی بجائے ان کی لکھی ہوئی شاعری کی بنیاد پر دھنیں ترتیب دیں اور انہیں مقبول عام گیت بنا دیا۔امرتا پریتم نے ساحرلدھیانوی سے جس محبت اور وابستگی کو بیان کیا ہے وہ سب سچ ہوگا لیکن مجھے یہ سوال ہمیشہ الجھن میں مبتلا کرتا ہے کہ امرتا پریتم نے یہ سارا انکشاف اس وقت کیوں کیا جب ساحر لدھیانوی اپنی شہرت کے عروج پر تھے۔
ادبی دنیا کے بعض لکھنے والوں نے ساحر لدھیانوی کی فلمی شاعری کو کمتر گردانا ہے۔مجھے اس موقف سے اتفاق نہیں ہے۔ساحر لدھیانوی کی فلمی شاعری روایتی فلمی گیتوں سے الگ اپنی پہچان کراتی ہے۔ہر چند ان کے زمانے کے بیشتر فلمی شاعر بذاتِ خود عمدہ ادبی شاعر تھے،تاہم ساحر لدھیانوی کی ادبی آن بان باقی سب سے الگ دکھائی دیتی ہے۔ان کی عام شاعری اور ان کے فلمی گیت سب عوام کے دلوں کی دھڑکن تھے اور ان کی ادبی حیثیت بھی مستحکم ہے۔ان پر اعتراض کرنے والوں کی اپنی شاعری کو سامنے لا کر ساحر لدھیانوی کے گیتوں سے اور عام شاعری سے ان کا موازنہ کیا جائے تو نام نہاد معترضین کے اعتراض کا سارا بھرم کھل جائے۔
ساحر لدھیانوی کو قریب سے دیکھنے اور قریب سے جاننے والوں نے ان کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے جس سے ساحر کی خوبیوں اور کمزوریوں کا تھوڑا بہت اندازہ کیا جا سکتا ہے۔یہاں مجھے اپنے پسندیدہ شاعرکی ایک دو کم زوریوں اور کوتاہیوں کا بھی تھوڑا سا ذکر کرنا ہے ۔مظہر امام نے اپنے خاکوں کے مجموعہ’’اکثر یاد آتے ہیں‘‘میں ساحر لدھیانوی کا جو ذکر کیا ہے،اس کا ایک اقتباس یہاں پیش کر رہا ہوں۔اس میں ساحر کی ادبی اور شخصی دو کمزوریوں کا ہلکے سے اشارے میں مناسب ذکر آگیا ہے،اور میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
’’ساحر لدھیانوی جنہیں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا بمبئی سے آئے تھے ۔ ہم لوگ پاس کے ایک چائے خانے میں بیٹھے ۔ ذکرفلمی دنیا کا آیا تو وہ اس زمانے کی بعض بڑی ہیروئنوں کا مذاق اڑانے لگے کہ ان سے ٹافی کے علاوہ او رکسی موضوع پر بات نہیں کی جا سکتی۔پھر پرکاش پنڈت سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: بھئی مجاز کو انجکشن و کشن دلوا کر اس کی شادی کرادو۔‘‘(آج میں سوچتا ہوں کہ ساحر نے خود انجکشن و کشن لے کر شادی کیوں نہ کی)۔کانفرنس میں نیا مینی فیسٹو پیش ہونا تھا۔ساحر کہنے لگے، بھئی بحث ہو گی۔ڈرافٹ مینی فیسٹوپڑھ کر تیاری کرنی چاہیے۔ساحر نے بحث میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ حصہ کیا لیتے، وہ بحث کے دوران موجود ہی نہیں تھے۔ (شاید انہیں بھی اب ’ٹافی‘ کے علاوہ کسی موضوع سے دلچسپی نہیں تھی)‘‘
ایک اور غلطی یا کوتاہی جو ساحر لدھیانوی سے سرزد ہوئی،انہوں نے بمبئی میں جو جائیداد بنائی،اسے لاوارث چھوڑ گئے۔ان جیسے انقلابی اور غریبوں کے ہمدرد کو اپنی زندگی میں ہی اس کا کوئی بہتر بندوبست کرلینا چاہیے تھا۔اگر وہ بمبئی کے غریبوں ،بے کس لوگوں کی امداد کے لیے کوئی صدقۂ جاریہ قسم کاانتظام کر جاتے تو آج کتنے مستحق لوگ وہاں سے فیض یاب ہو کر، ساحر لدھیانوی کے انسانیت کی خدمت والے خوابوں کی تعبیر پارہے ہوتے اور ساحرلدھیانوی کی روح کے لیے سکون موجب بن رہے ہوتے۔لیکن ان کی وفات کے بعد کروڑوں کی جائیداد(جو شاید اب اربوں روپے مالیت تک پہنچ چکی ہو)ان لوگوں نے ہتھیا لی جن کا ساحر لدھیانوی کے خوابوں سے شاید کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔وہ صرف قبضہ گروپ کے لوگ تھے۔
ایسی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود ساحر لدھیانوی ترقی پسند تحریک کے ایسے بڑے شاعر ہیں جنہیں فیض احمد فیض کے برابرشمار کیا جانا چاہیے۔ابھی تک ایسا نہیں ہو اتو اس کی وجہ ساحر لدھیانوی کی اپنی بے نیازی رہی ہے۔انہوں نے اپنے ڈھب کی بہت خوبصورت شاعری کی۔بمبئی کی فلمی گیتوں کی انڈسٹری پر چھائے رہے لیکن انہوں نے نہ تواردو دنیا کی سطح پر اپنی ادبی حیثیت کی طرف کوئی خاص توجہ کی اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر کسی طرح کی لابنگ کا سوچا۔فیض احمد فیض نہ صرف اردو کی قومی سطح پر مسلسل نمایاں ہوتے رہے بلکہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی اچھی لابنگ کی اور اس کے ثمرات بھی حاصل کیے۔
اگر اب اردو دنیا ساحر لدھیانوی کے خاص نمبرز اسی طرح جاری کرنے لگی جیسے وسیم فرحت صاحب شائع کرنے جا رہے ہیں تو مجھے امید ہے کہ ساحر شناسی کا عمل آہستہ آہستہ آگے بڑھے گا۔اردو دنیا سے آگے جا کر بین الاقوامی سطح پر ان کے فن کی طرف توجہ کی جانے لگے گی اور پھر ادبی دنیا ساحر لدھیانوی کے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکے گی کہ وہ کتنے بڑے ترقی پسند شاعر تھے۔فیض جتنے بڑے یا ان سے کم بڑے۔
وسیم فرحت صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے رسالہ سہ ماہی’’اردو‘‘کے ساحر لدھیانوی نمبر کے لیے مجھے کچھ لکھنے کی تحریک کی اور یوں ساحر لدھیانوی سے ادبی محبت کا ایک پرانا قرض اس مضمون کی صورت میں کچھ ادا کرنے کی کوشش کر سکا ہوں۔مضمون شاید کچھ زیادہ مربوط نہیں ہے لیکن اس بکھراؤ کی حالت میں بھی میرے احساسات کی سچائی میرے لیے کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔