آج 25 اکتوبر اقتدار، آئین،سماج اور سیاست سے سوال کرنے والے شاعر ساحر لدھیانوی کا یوم وفات ہے۔
ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ 1938ء میں میٹرک کرنے کے بعد اُنہوں نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لے لیا۔ اُسی زمانے میں اُنہوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ دور پورے برصغیر پر انگریزی سامراج کے تسلط کا دور تھا۔ ساحر اُن نوجوانوں میں سے ایک تھے، جن کے دلوں میں وطن کی آزادی کی تڑپ موجود تھی۔ میرٹھ کے ایک ہفتے وار اخبار ’گرتی لہر‘ میں شائع ہونے والی اُن کی ایک نظم ’قسم اُن تنگ گلیوں کی، جہاں مزدور رہتے ہیں‘ ساحر کی پہلی نظموں میں سے ایک تھی۔
آغاز ہی سے ساحر کے فن میں سماج کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کا عنصر موجود تھا۔ وہ اپنی شاعری میں سماجی کی تلخ حقیقتوں کو نئے نئے زاویوں سے پیش کرتے تھے۔ مثلاً اپنے زمانہٴ طالب علمی ہی میں اُنہوں نے نظم ’تاج محل‘ لکھ کر بزرگوں کی پوری نسل کو چونکا دیا تھا۔ اِس نظم میں ساحر نے شاہ جہاں کی عظمت کے گیت گانے کی بجائے اُن سینکڑوں گمنام کاریگروں اور مزدوروں کے حق میں بات کی تھی، جنہوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے اپنے شہنشاہ کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا تھا۔
تقسیم ہند سے پہلے کے برسوں میں اپنی انگریز دشمنی کی بناء پر ساحر کو لدھیانہ چھوڑ کر لاہور جانا پڑا، جہاں اُنہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ لاہور میں رہتے ہوئے اُن کے فن کو اور جلا ملی، وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے اور اُن کا نام فیض، علی سردار جعفری، کیفی اور مجاز جیسے نامور شعراء کے ساتھ لیا جانے لگا۔
ترقی پسند تحریک کے علمبرداروں میں سے ایک علی سردار جعفری ساحر کو فیض کے پائے کا کوئی بڑا شاعر تو نہیں مانتے تھے تاہم وہ اُن کی نظم کی خوبصورتی کے قائل تھے، حتیٰ کہ عالمی امن کے حوالے سے ساحر کی طویل نظم ’پرچھائیاں‘ کا دیباچہ بھی اُنہوں نے ہی لکھا تھا۔ اس نظم کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے تھے۔
تقسیمِ ہند کے زمانے میں ساحر بمبئی میں ایک زیرِ تکمیل فلم ’آزادی کی راہ پر‘ کے لیے گیت لکھ رہے تھے، جس میں پرتھوی راج ہیرو تھے۔ جب مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور مسلمان آبادی کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوا تو ساحر کی والدہ لدھیانہ ہی میں تھیں۔ مسلمان مہاجرین کے ساتھ وہ بھی لاہور پہنچ گئیں۔ ساحر بھی بمبئی سے فوراً لاہور پہنچے۔ یہاں وہ مہاجرین کی حالتِ زار اور اُن کی بے سر و سامانی دیکھ کر لرز گئے اور کہہ اٹھے:
یہ منظر کون سا منظر ہے، پہچانا نہیں جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری
اور ساحر والدہ کو لے کر واپس بمبئی چلے گئے، جہاں نغمہ نگار کی حیثیت سے ایک بے مثال کیریئر اُن کا منتظر تھا۔ اُنہوں نے جن بے شمار فلموں کے لیے گیت تحریر کیے، اُن میں جال، پیاسا، نیا دور، برسات کی رات، دل ہی تو ہے، وقت، آ گلے لگ جا، داغ، گمراہ، ہمراز، سزا، کاجل اور کبھی کبھی بھی شامل ہیں۔
’تلخیاں‘ کے نام سے ساحر کا پہلا شعری مجموعہ 1943ء ہی میں شائع ہو چکا تھا۔ ’گاتا جائے بنجارہ‘ گیتوں کا انتخاب تھا۔ ’آؤ کہ کوئی خواب بُنیں‘ اُن کا دوسرا مجموعہٴ کلام تھا، جو 1971ء میں شائع ہوا۔ اُنہیں اُن کی ادبی خدمات کے بدلے میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں حکومتِ بھارت کی جانب سے 1971ء میں دیا جانے والی پدم شری کا اعلیٰ اعزاز بھی شامل تھا۔
ساحر کو اپنی والدہ سردار بیگم سے بہت محبت تھی۔ 31جولائی1976ءکواپنی والدہ کے انتقال کے بعد وہ ٹوٹ پھوٹ گئے اور عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد بہت بدل گئے تھے اور آخر کار 25 اکتوبر 1980ءکو ممبئی میں59سال 7ماہ 17دن زندہ رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ ساحر اپنے بارے میں کہا کرتے تھے کہ :
میں ہر اک پل کا شاعر ہوں
ہراک پل مری جوانی ہے
ہر اک پل میری ہستی ہے
ہر اک پل مری کہانی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب کلام
برباد محبت کی دعا ساتھ لیے جا
ٹوٹا ہوا اقرار وفا ساتھ لیے جا
اک دل تھا جو پہلے ہی تجھے سونپ دیا تھا
یہ جان بھی اے جان ادا ساتھ لیے جا
تپتی ہوئی راہوں سے تجھے آنچ نہ پہنچے
دیوانوں کے اشکوں کی گھٹا ساتھ لیے جا
شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں
یہ کم ہو تو اب خون وفا ساتھ لیے جا
ہم جرم محبت کی سزا پائیں گے تنہا
جو تجھ سے ہوئی ہو وہ خطا ساتھ لیے جا