صاحبزادہ شوکت علی خان کا انتقال فارسی وعربی زبان وادب کے لئے ایک عظیم خسارہ: پروفیسر عمر کمال الدین
شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی میں صاحبزادہ شوکت علی خان کے انتقال پر تعزیتی جلسہ
شعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی میں آج عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ راجستھان ٹونک کے بانی ڈائریکٹر صاحبزادہ شوکت علی خان کے انتقال پر تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا ، جس کی صدارت صدر شعبہ ٔ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی ڈاکٹر سید غلام نبی ایسوشیٹ پروفیسرشعبۂ فارسی ، لکھنؤیونیورسٹی نے کی، جس میں صدر محترم نے مرحوم کو جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج جہان عربی وفارسی ایک عربی وفارسی کے مخلص خادم سے محروم ہوگیا ہے وہ ایک علم دوست اور ادب نواز شخصیت تھے انھوں نے اپنی پوری زندگی عربی وفارسی زبان وادب کی خدمت میں صرف کردی، انھوں نے متعدد فارسی وعربی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہزاروں مخطوطات کو اپنی جہد مسلسل اور سعی پیہم سے ضائع وبرباد ہونے سے بچالیا، ان کے قائم کردہ انسٹی ٹیوٹ میں مخطوطات کا عظیم ذخیرہ ان کی علم دوستی کے عملی اظہار کا پیکر ہے۔یقینا ان جیسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جن کے انتقال پر جس قدر بھی غم کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے ،اس تعزیتی نشست میں پروفسیر عمر کمال الدین، پروفیسر شعبۂ فارسی، لکھنؤیونیورسٹی نے مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے جو خلا ہوا ہے اسے پر ہونا ناممکن ہے وہ عربی ، فارسی،انگریزی ، علوم اسلامیہ اور مخطوطہ شناسی کا اعلی ذوق رکھتے تھے ،خطہ راجستھان میں عربی وفارسی مخطوطات کی جمع آوری اور ان کے تحفظ کے لئے انھوں نے دن رات ایک کردیے ، مولانا آزاد عربی وفارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک کے وہ بانی ڈائریکٹر تھے اور اس کی ترقی میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ، سیمینار ، سمپوزیم ، ورکشاپ اور نمائش کے توسط سے انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی بے جان عمارت میں روح پھونک دی ، کثیر تعداد میں مخطوطات کا تنقیدی متن اشاعت پذیر ہوا ، مختلف میدان کے دانشوروں کو ان کی مجموعی خدمات کے اعتراف کے طورپر انعامات سے نوازا گیا ، خود ان کو متعدد گراں قدر انعامات تفویض ہوئے جن میں صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے سند امتیاز برائے زبان فارسی اور دیگر اہم اعزاز شامل ہیں اللہ پاک ان کے صاحبزادگان پروفیسر صولت علی خان، ڈاکٹر ثروت علی خان، ڈاکٹر راحت علی خان اور دیگر لواحقین کو اس سانحہ جانکاہ کو برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔ ا س موقع پر ڈاکٹر شبیب انور علوی اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صاحبزادہ شوکت علی خان جیسی عبقری شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے ، ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ جبل علم ہونے کے باوجود نہایت متواضع تھے ، ان سے واقف ہر شخص اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے سے نہایت ادب اور تو اضع سے ملتے تھے ان کی گفتار ورفتار سے ان کی شرافت ہویدا ہوتی تھی۔وہ ہم سب کے لئے مشعل راہ تھے اور اب ان کو سچی خراج عقیدت یہی ہے کہ ان کی زندگی کا جو مشن تھا کہ فارسی اور عربی کے عظیم ذخیرہ کا تحفظ ان کے اس مشن کو پورا کرنے میں ہم سب حتی المقدور کوشش کریں ۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد خبیب ،ڈاکٹر محمد الیاس،ڈاکٹر ناظرحسین،ڈاکٹر علی عباس جعفری ،ڈاکٹر عاطفہ جمال ،،ڈاکٹر ثناء اظہر،ڈاکٹر عرشی بانو،ڈاکٹر صدف ،جناب صفی ابن صفی، مرزا حیدر ، محمد ارشد، محمد حبیب ، امرین فاطمہ اور دیگر ریسرچ اسکالرس و طلباء وطالبات نے شرکت کی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...