"صاحب، ملازم اور طوائف"
صاب جب فون پر بات کرتے ہیں تو سامنے والے کےکان جل جاتےہیں۔مگر رُوبرو بات کرکے ہمارے کان کے "ک" پر "گ" لگا دیں۔ وہیں تک تپش پہنچ جاتی ہے۔
میں جب بھی سوچتا ہوں۔کہ کاش کوئی ایسا دن ہوگا،کہ بیوی کا مُنہ نہ دیکھنا پڑے۔تو للہ جس دن صاب کا منہ دیکھ لیتا ہوں۔تو بیگم بھی اچھی لگنے لگتی ہے۔
میرے ہمزاد خٹک صاب کہتے ہیں۔ کہ جناب جب پیدا ہوئے ہونگے،تو نرس کو بھی لعنتیں دی ہوں گی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ اللہ نہ کرےاگر اس وقت نرس نہیں ہو گی،تو پھر کس کو دی ہونگی؟ ہمارا تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔
ہمارے دفتر کا چپراسی س ل میم کہتا ہے۔کہ صاب کو اس نے ایک بار غلطی سے مسکراتے دیکھا تھا۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب دیا یہی تو مجھ سے غلطی ہوئی۔ورنہ وہ اس وقت حالت کشف میں کوئی بہترین سی دیسی گالی ایجاد کررہا تھا،جو ان پر آزمائی گئی۔
میں نے عامر صاب سے پوچھا۔کہ آپ صاب کا کیسے سامنا کرلیتے ہیں؟جواب دیا۔ملنے سے پانچ منٹ پہلے موٹیوال کی گولی لے لیتا ہوں ۔تاکہ ڈانٹ ڈپٹ کا اتنا احساس نہ ہو۔ پانچ منٹ کے بعد واپس آکر دو موٹیوال اور گولیاں لے لیتا ہوں۔
مجھ سے پوچھا۔کہ آپ کیسے سامنا کرلیتے ہیں؟
جواب دیا،کہ اب ایک شادی شدہ بندہ کیسے آپ کو بتائے،کہ خطرناک چیزوں کا سامنا اکیلے کیسے اور کس طرح سے کیا جاتا ہے!
آصف صاب کہتے ہیں۔ کہ خیر ہے،کیونکہ وہ باس ہے۔اس لئے وہ کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔مگر م ن ی ر کہتے ہیں،کہ ایسا حق تو شوہر کو شرعی طور دیا گیا ہے،مگر آج تک اسے خود بھی نہیں معلوم کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟
پنجابی میں کہتے ہیں۔ کہ غریب کی 21 عزتیں ہوتی ہیں۔ جو تقسیم در تقسیم ہوکر اس کے حصے میں جو آ جاتی ہیں۔ اسے اکاونٹ کی زبان میں صفر کہا جاتا ہے۔ یہی حالت ہم ملازمت پیشہ افسروں یا کلرکوں کی بھی ہوتی ہے۔
پورا سال گدھے کی طرح جوت کر محنت کرلو۔ بلکہ بیگم کہتی ہے کہ مرد کو گدھا بننے میں ویسے بھی کون سی دقت ہوتی ہے۔مگر المیہ تو اس وقت جنم لیتا ہے۔جب یہی گدھا اسمارٹ ورکر بھی بن کر دیکھاتا ہے۔ تاکہ سال کے آخر میں اتنا انکریمنٹ تو بڑھ جائے۔جس سے ایک بچے کے ماہانہ ڈائیپرز کا خرچہ پورا نکل آئے۔ مگر جب سال کے آخر میں آپ کا اپریزل اس وجہ سے رُک جائے۔کہ صاب کو آپ کی مونچھیں منحوس لگتی ہیں۔لہذا پھر کھوتااور اسماٹ ورکر بن کر اگلے سال کیلئے ٹرائی ٹرائی اگین کا سبق دہراتے رہنا۔کیونکہ عظیم لوگوں کا شیوہ ہے،کہ وہ بار بار کوشش کرتے ہیں۔اور کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر جدید تاریخ میں ان کی کامیابیاں مشکوک ہیں۔
ہم سے کہا جاتا ہے کہ آپ کو نکال دیا جائیگا۔ اگر اس بار ٹارگٹ پورا نہیں ہوسکا۔ دس سالوں میں اتنا ڈرایا گیا ہے۔ کہ دھمکی جس دن نہیں ملتی پورا دن ڈرے ڈرے سے رہتے ہیں۔
میرا دوست ع ط آ ء کہتا ہے کہ دو بندے نوکری کرسکتے ہیں۔ایک وہ جن کے آباؤاجداد نائی ہوں،اور دوسرا وہ جن کے باپ دادا فوجی رہ چُکے ہوں۔ اب بندہ دوست کو کیا بتائے،کہ بندے کے آباؤاجداد فوجی تھے۔ کابل سے تلواریں سونت کر جب ہندوستان آن وارد ہوئے۔تو بقول یوسفی کہ تلوار کثرت استعمال سے گھستے گھستے اُسترا بن گئی۔ شاید ہمارے بڑے صاب نے بھی یوسفی کی یہ کتاب پڑھی ہو۔
میرا دوست ع ا م ر کہتا ہے کہ پاک پیغمبر صلعم نے غلامی کو بُرا سمجھا ہے۔اور نوکری غلامی کی جدید شکل ہے۔ میں اس وقت چرس، افیون، گھانجےاور عابد آفریدی کا سوچ سوچ کر ایک پلان بنا لیتا ہوں۔ کہ اگر میں کاروبار کروں۔تو سال بھر بعد بغیر گرفتار ہوئےکتنی زکوٰۃ جامعہ بنوریہ میں دے سکتا ہوں۔ یا گرفتار ہوکر دعوت اسلامی والے کتنے میں مدنی دعا مانگ کر دے سکتے ہیں۔ کہ عین اسی وقت عامر بھائی کہہ اٹھتے ہیں،کہ کوئی اچھی سی نوکری نظر میں ہو تو بتادینا۔
قصہ المختصر جب بیگم سہیلیوں کے بیچ بیٹھ کر اپنے شوہر کی تنخواہ اور کمپنی کار کےگُن گاتی رہتی ہے۔تو ہمیں بنوں کا وہ لختئی یاد آجاتا ہے۔ جب وہ ماں کی ہتھیلی پر رقم رکھ کر یہ کہتا ہے۔اماں احتیاط سے خرچ کرنا، بڑی مشکل سے کمائی ہے۔
قصہ کوتاہ، صاب کو آپ نے دیکھا،اور ملازم کو بھی دیکھا،مگر سوچ رہے ہوں گے۔کہ مضمون میں طوائف کدھر ہے۔ تو جناب والا میں اپنی عزت افزائی کےلئے آپ کا بےحد مشکور ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔