دادی شکراں کے صندوق میں جانے کون سا قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے کہ کسی کے اس کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتیں۔ بچے تو خیر بچے ہیں بڑوں کو بھی صندوق کھولنے کی اجازت نہیں۔ وہ کھول بھی کیسے سکتے ہیں اس پر تو کندیاں کے فتح محمد لوہار کا بنا ہوا موٹا سا تالا لٹک رہا ہے جس کے بنے ہوئے تالوں کو دور سے دیکھ کر ہی چور بھاگ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب انگریز خوشاب کے مقام پر دریائے جہلم کا پل بنا رہا تھا تواس نے اس کی تعمیر کے دوران فتح محمد کے کاریگری کی شہرت سن کر اس کو اچھے خاصے پروٹوکول کے ساتھ پل کی تعمیر میں معاونت کے لیئے طلب کیا تھا۔ اس دور میں ویلڈنگ کے جوڑ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور اس کی جگہ رپٹ وغیرہ کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جہلم برج کی تعمیر میں یہ کام فتح محمد کی کاریگری کا ایک یادگار نمونہ ہے۔ جہلم برج کی تکمیل کو سو سال سے زیادہ ہو گئے لیکن کندیاں کے لوہار کی لگائی گئی رپٹیں آج بھی اسی مضبوطی سے موجود ہیں۔
ایک دن چاچی مہراں کو کسی طرح اس صندوق کی چابی ہاتھ لگ گئی۔ اس وقت دادی شکراں باہر چھپرے کے نیچے تخت پوش پہ ظہر ادا کر رہی تھیں۔ دادی دو رکعت نماز نفل کی نیت باندھ ہی رہی تھیں کہ چھٹی حس نے ان کو سب کچھ بتا دیا۔ وہ چھپرے سے نکل کر لاٹھی ٹیکتی جب کمرے کی طرف بڑھیں تو چاچی چابی تالے میں ڈال چکی تھیں۔ لاٹھی کی آواز سن کر انہوں نے جلدی سے چابی نکالنے کی کوشش کی تو چابی تالے میں پھنس گئی۔ چاچی سے کچھ بن نہ پایا تو وہ باہر بھاگیں۔ دروازے پر ہی دادی اور چاچی کا آمنا سامنا ہو گیا۔دادی نے اس وقت تو کچھ نہ کہا لیکن جب کمرے کے اندر آ کر چابی کو تالے میں لگا دیکھا تو بجلی کی پھرتی سے لاٹھی ٹیکتی ہوئی باہر صحن کی طرف لپکیں۔اس دن چاچی کے ساتھ جوحشر نشر دادی شکراں نے صلواتیں سنا کر، لاٹھی لہرا کر اور غصے سے بھرپور بددعاؤں کے ساتھ تالیاں بجا کرکیا اس کے اثرات یوں دکھائی دیے کہ پھر کبھی کسی نے دادی شکراں کا صندوق کھولنے کا خواب دیکھنے کی بھی جرات نہیں کی۔
اکثر اوقات دیکھا گیا کہ دادی چپکے چپکے صندوق کھولتیں اور مبہوت نگاہوں سے صندوق کے اندر دیرتک تکتی رہتی ۔ اکثر ان کی خشمگیں آنکھیں پرنم دیکھی گئیں۔جب وہ صندوق کو بند کرتیں تو تالے کو اچھی طرح چیک کر لیتیں۔ صندوق کے بارے چہ میگوئیاں عرصے سے جاری تھیں۔ کوئی کہتا کہ دادی کے پاس سونے کی اینٹ پڑی ہوئی ہے جو انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد موجودہ مکان کے فرش کی کھدائی کر کے حاصل کی تھی جس کا مالک تقسیم سے پہلے ایک ادھ لکھا کراڑ منگل سنگھ ہوا کرتا تھا۔ کوئی کہتا کہ اس صندوق میں دادی کے جوانی کے زیور اور کپڑے پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کی شادی کا لباس بھی شامل ہے۔ کوئی الہڑ دوشیزہ تو یہ تک کہہ دیتی کہ اس میں محبت کی کوئی
کا کھانا انفرادی طور پر کھایا جاتا ت� شروع ہو جاتے۔ سردیاں شاید اسی وجہ سے جلد گزر جاتی ہیں کہ زیادہ وقت تو ہم سو کر گزار دیتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ اچھے دن پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں جبکہ برے دن موسمِ گرما کی طرح گزارے نہیں گزرتے۔ یہ 31 دسمبر کی رات تھی جب رات کے کھانے کے دوران ہی دادی اماں نے اپنے ایامِ ماضی کی بوسیدہ کتاب کی ورک گردانی شروع کر دی۔ ارے یہ کیا؟ بوسیدگی میں کیسی رنگینی پوشیدہ تھی اس کا اندازہ تو ہمیں اُس رات ہوا۔ دادی شکراں نے اپنی بہنوں فاطمہ، سیداں بی بی، امیراں بی بی اور صاحب خاتوں کے ساتھ گزرے دنوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ سال کی آخری رات ابر آلود اور انتہائی سرد تھی۔برفیلی ہوائیں عجیب ہیبت ناک آوازیں پیدا کر رہی تھیں۔ کھانے کے بعد دادی اماں نے اپنی چارپائی پر لیٹتے ہی اپنی ایامِ گزشتہ کی داستاں شروع کر دی۔ تمام اہلِ خانہ اپنی جگہ پر موجود رہے۔ سبھی یہی سوچے ہوئے تھے کہ ابھی کہانی ختم ہو گی اور اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو جائیں گے۔
'' صاحب خاتوں ہم بہنوں میں سب سے خوبصورت اور سب سے چھوٹی بہن تھیں۔ اس وقت ہم لوگ کندیاں میں رہا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی نوجوان آٹھ جماعتیں پڑھ جاتا تو اس کو اسی دن جے ٹی استاد بھرتی کر دیا جاتا تھا۔ دسویں جماعت پاس کو ہیڈ ماسٹر مقرر کر دیا جاتا تھا۔ ناخواندگی کے ایسے زمانے میں بھی صاحباں پانچ جماعتیں پڑھی ہوئی تھی۔ ''یاد رہے کہ ہمارے علاقے میں صاحب خاتوں نامی ہر عورت کا مختصر نام صاحباں ہوتا ہے''۔صاحباں زمیندار اخبار کی خبریں پڑھ کر ہمیں سناتی اور اسلامی کتابیں پڑھ کر ہمیں مسئلے سمجھایا کرتی تھی۔ ہمارے محلے کی عورتیں اس کو کشمیری سیب کہہ کر پکارا کرتیں۔ ایک دفعہ ہم ریل میں بھکر جا رہی تھیں جس میں ایک انگریز خاندان بھی سوار تھا۔ ان میں ایک بوڑھے انگریز نے صاحباں کو دیکھ اس سے انگریزی میں گفتگو شروع کر دی۔ میری بہن جو بہت شرمیلی اور مردوں سے دور دور رہنے والی لڑکی تھی کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ ہمیں اور اس کو اس بڈھے انگریز کی اس بدتمیزی پر بڑا غصہ آیا۔لیکن تھوڑی دیر بعد اس انگریز کی بیٹی جو اردو بھی جانتی تھی نے ہمیں یہ کہہ کر ٹھنڈا کر دیا کہ ابو آپ کی بہن کی سفید رنگت اور پر کشش رخنوں کی وجہ سے اس کو انگریز سمجھ بیٹھا ہے۔ اس کی بات یاد کر کے کتنے ہی دن ہم ہنستے رہے تھے۔صاحباں کی رنگت اتنی شفاف تھی کہ جب وہ پانی پیتی تو سچ مچ پانی اس کی گردن سے نیچے جاتا نظر آتا۔ اس کے بال سنہری اور گھنگریالے تھے۔ میں اور صاحباں ایک دوسرے کو کنگھی کیا کرتی تھیں۔ میں جب اس کے بال سنوار رہی ہوتی تو اس کی لٹوں میں سے ایک عجیب قسم کی خوشبو محسوس ہوتی۔ بہن کے بپرانی نشانیاں موجود ہیں جو دادی کو اس کے نامعلوم محبوب نے ایامِ جوانی میں تحفے کے طور پر دی تھیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اصل مسئلہ کبھی حل نہ ہو پایا۔کتنی مرتبہ دادی سے پوچھنے کی کوشش کی گئی لیکن دادی نے کوئی جواب نہ دیااور الٹا غصیلی نگاہوں سے سوال کرنے والے کو تکنا شروع کر دیتیں۔
دادی کو سردیوں کا موسم بہت بھلا لگتا تھا۔ وہ سردیوں میں دوپہر اور سہ پہر کے وقت دھوپ میں بیٹھ کر ہم سب سے خوب گپیں لگاتیں۔ دادی اماں کے کمرے کے ساتھ باورچی خانہ تھا جس میں گھر کے تمام افراد ایک ساتھ صبح چائے پیتے اور رات کو کھانا کھاتے۔ کا کھانا انفرادی طور پر کھایا جاتا تھا۔ سردیوں میں اس باورچی خانے کا اپنا ایک چارم ہوا کرتا تھا۔ یہ پورے کمرے پر مشتمل ایک کچی عمارت تھی۔ جس کو دھنویں نے سیاہ کر دیا تھا۔ فرش بھی مٹی کا لیپ دے کر بنایا گیا تھا۔ اس کمرے کی چاروں دیواروں کے ساتھ چارپائیاں پڑی رہتی تھیں۔ جب آگ بجھ جاتی تو تمام لوگ چارپائیوں پر چڑھ جاتے اور رضائیاں اور کمبل اوڑھ لیتے۔ رات دیر گئے تک ادھر اُدھر کی گپیں ہانکی جاتیں، کہانیاں سنائی جاتیں،رشتے بنائے اور توڑے جاتے۔تمام کنبے کے بیچ دادی اماں بہت فخر اور خوشی محسوس کرتیں۔ گھر والوں میں سے دادی سب سے زیادہ مجھ سے انس رکھتی تھیں۔ شاید اس وجہ سے کہ میں ہمیشہ سے ان کی چھوٹی موٹی ضروریات کا خیال رکھا کرتا تھا۔ جب سے میں پڑھنے کے لیئے لاہور گیا تھا دادی کی محبت مجھ سے کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی۔
اس مرتبہ جب میں سردیوں کی چھٹی آیا تو گلابی جاڑا اپنے عروج پر تھا۔ دوپہر تک صبح کا عالم رہتا اور سہ پہر سے ہی شام کے سرد سائے پڑنا شروع ہو جاتے۔ سردیاں شاید اسی وجہ سے جلد گزر جاتی ہیں کہ زیادہ وقت تو ہم سو کر گزار دیتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ اچھے دن پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں جبکہ برے دن موسمِ گرما کی طرح گزارے نہیں گزرتے۔ یہ 31 دسمبر کی رات تھی جب رات کے کھانے کے دوران ہی دادی اماں نے اپنے ایامِ ماضی کی بوسیدہ کتاب کی ورک گردانی شروع کر دی۔ ارے یہ کیا؟ بوسیدگی میں کیسی رنگینی پوشیدہ تھی اس کا اندازہ تو ہمیں اُس رات ہوا۔ دادی شکراں نے اپنی بہنوں فاطمہ، سیداں بی بی، امیراں بی بی اور صاحب خاتوں کے ساتھ گزرے دنوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ سال کی آخری رات ابر آلود اور انتہائی سرد تھی۔برفیلی ہوائیں عجیب ہیبت ناک آوازیں پیدا کر رہی تھیں۔ کھانے کے بعد دادی اماں نے اپنی چارپائی پر لیٹتے ہی اپنی ایامِ گزشتہ کی داستاں شروع کر دی۔ تمام اہلِ خانہ اپنی جگہ پر موجود رہے۔ سبھی یہی سوچے ہوئے تھے کہ ابھی کہانی ختم ہو گی اور اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو جائیں گے۔
'' صاحب خاتوں ہم بہنوں میں سب سے خوبصورت اور سب سے چھوٹی بہن تھیں۔ اس وقت ہم لوگ کندیاں میں رہا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی نوجوان آٹھ جماعتیں پڑھ جاتا تو اس کو اسی دن جے ٹی استاد بھرتی کر دیا جاتا تھا۔ دسویں جماعت پاس کو ہیڈ ماسٹر مقرر کر دیا جاتا تھا۔ ناخواندگی کے ایسے زمانے میں بھی صاحباں پانچ جماعتیں پڑھی ہوئی تھی۔ ''یاد رہے کہ ہمارے علاقے میں صاحب خاتوں نامی ہر عورت کا مختصر نام صاحباں ہوتا ہے''۔صاحباں زمیندار اخبار کی خبریں پڑھ کر ہمیں سناتی اور اسلامی کتابیں پڑھ کر ہمیں مسئلے سمجھایا کرتی تھی۔ ہمارے محلے کی عورتیں اس کو کشمیری سیب کہہ کر پکارا کرتیں۔ ایک دفعہ ہم ریل میں بھکر جا رہی تھیں جس میں ایک انگریز خاندان بھی سوار تھا۔ ان میں ایک بوڑھے انگریز نے صاحباں کو دیکھ اس سے انگریزی میں گفتگو شروع کر دی۔ میری بہن جو بہت شرمیلی اور مردوں سے دور دور رہنے والی لڑکی تھی کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ ہمیں اور اس کو اس بڈھے انگریز کی اس بدتمیزی پر بڑا غصہ آیا۔لیکن تھوڑی دیر بعد اس انگریز کی بیٹی جو اردو بھی جانتی تھی نے ہمیں یہ کہہ کر ٹھنڈا کر دیا کہ ابو آپ کی بہن کی سفید رنگت اور پر کشش رخنوں کی وجہ سے اس کو انگریز سمجھ بیٹھا ہے۔ اس کی بات یاد کر کے کتنے ہی دن ہم ہنستے رہے تھے۔صاحباں کی رنگت اتنی شفاف تھی کہ جب وہ پانی پیتی تو سچ مچ پانی اس کی گردن سے نیچے جاتا نظر آتا۔ اس کے بال سنہری اور گھنگریالے تھے۔ میں اور صاحباں ایک دوسرے کو کنگھی کیا کرتی تھیں۔ میں جب اس کے بال سنوار رہی ہوتی تو اس کی لٹوں میں سے ایک عجیب قسم کی خوشبو محسوس ہوتی۔ بہن کے بال سنوارتے ہوئے مجھے محسوس ہوتادنتھا کہ میں صندل کے جنگلوں میں بھٹک گئی ہوں جہاں سنہری روشنی اور عجیب خوشبوئیں مجھے باہر نہیں نکلنے دے رہیں۔ کنگھی کرنے کے بعد میں مبہوت ہو کر اس کے بائیں رخسار پر ہلکے بھورے رنگ کے تل کو کتنی ہی دیر تکتے ہوئے سوچتی رہتی کہ میری بہن کے بھاگ جانے کس بھاگ بھرے کے ہاتھ پر لکھے ہوئے ہوں گے۔ صاحباں کی نیلی آنکھوں میں کندیاں کے قریب بہتے ہوئے سندھو کے پانیوں جیسی اتھاہ گہرائیوں کا گماں ہوتا۔صاحباں ہم تمام بہنوں کی طرح کبھی بھی کھلکھلا کر نہیں ہنستی تھی۔ اگر کوئی زیادہ خوشی یا دلجوئی کی بات ہوتی تو وہ محض ایک زیرِلب مسکراہٹ پر ہی اکتفا کرتی۔اس کی زباں کبھی بلند نہیں ہوئی تھی اور صرف انتہائی ضرورت کے وقت ہی بولا کرتی تھی لیکن اس کے آنکھیں ہر وقت محوِ گفتگو رہتیں۔اس کے آنکھیں، ابرو اور ہونٹ زباندانی کا کام کیا کرتے۔وہ سلائی کڑھائی کی ماہر تھی۔میز پوشوں اور پوشاکوں کے ایسے ایسے نمونے کشید کرتی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ صبح تڑ کے یا شام ڈھلے جب ہم محلے کی لڑکیاں سندھو کے پانیوں سے گھڑے اور گاگریں بھرنے جایا کرتیں توراہ گیر رک رک کر فطرت کے اس شاہکار کو دیکھا کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بابا نے صاحباں کے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی تھی۔ وہ چپکے سے گھر بیٹھ گئی۔ صاحباں کا سگھڑاپے کے سب معترف تھے۔وہ صبح سے شام تک ہر قسم کے گھریلو کام میں مصروف رہ کر خوشی محسوس کیا کرتی تھی۔ ہمارا صحن کچا تھا جہاں مٹی کے لیپ کا فرش بنایا گیا تھا۔ صاحباں جب صحن میں جھاڑو لگایا کرتی تو اس کے چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ رقصاں رہتی۔ موسم چاہے جیسا ہی کیوں نہ ہو وہ ہر وقت اپنے جسم کو باریک دوپٹے کی بجائے ایک سبز موٹے کپڑے کی چادر سے ڈھانپے رکھتی تھی۔ کبھی کبھار انجانے میں اس کے سنہرے گھنگھریالے بالوں کی ایک لٹ جھاڑو لگاتے ہوئے روشن پیشانی پررقص کناں ہو جاتی۔ لیکن وہ حسنِ لاپرواہ اپنے کام میں ایسا مگن ہوتا کہ اس کو اپنی تو درکنار اپنے ارد گرد کی بھی کچھ خبر نہ ہوتی''۔
تمام لوگ مبہوت ہو کر دادی جان کی داستاں سن رہے تھے۔ باہر سرد جھکڑ آہستہ آہستی تیز ہو کر پراسرار ماحول تخلیق کر رہا تھا۔ کچھ لوگ دیواروں کے پاس بچھائی گئی چارپائیوں کے گرم لحافوں میں بیٹھے یا لیٹے تھے اور کچھ ابھی تک دہکتی ہوئی آگ کو سینکتے ہوئے دادی اماں کی داستاں سن رہے تھے۔
'' ریل کا پہیہ ہمارے علاقے میں نیا نیا چلا تھا۔ کندیاں میں لوکو شیڈ بنا تو دور دور سے ماہر کاریگر یہاں بھرتی ہوئے۔ ان میں واں کیلے کا ایک ادھیڑ عمر غلام محمد بھی تھا۔ وہ ایک جفاکش اور مزدور گھرانے کا انتہائی ایماندار اور محنتی فرد تھا۔ اس کے ذہن پر ایک خبط سوار تھاکہ کسی طرح اپنے جواں سال بیٹے غلام رسول کی شادی کا بندوبست ہو جائے۔ عبدالرحمان روزانہ کتنے ہی لوگوں سے اس بابت بات چیت کرتا ۔ایک روز اس کے ساتھی فتح محمدلوہار نے ہمارے والد کا تذکرہ کیا ۔ اگلے دن ہی وہ دونوں ہمارے دروازے پر کھڑے تھے۔ غلام محمد کو صرف دو چکر اور لگانے پڑے ۔ بابا نے اماں سے تذکرہ اور مشورہ کر کے صاحباں کے رشتے کی ہاں کر دی۔ ان کی سادگی دیکھیں کہ نہ گھر دیکھا اور نہ ہونے والا داماد۔ اللہ کے توکل پر رشہ منظور کر لیا اور اگلے ماہ بیٹی کو سادگی کے ساتھ بیاہ دیا۔
واں کیلا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جو کندیاں سے مشرق کے طرف کوئی تیس میل کے فاصلے پر تھا۔صاحباں کا نیا گھر بھی سادگی کا مرقع تھا لیکن انتہائی خوبصورتی سے بنایا گیا تھا۔ صاحباں کو شمالی کمروں کے اوپر بنی ماڑی بہت پسند تھی۔ برسات کے دنوں میں وہ اس ماڑی میں بیٹھ
کر رم جھم رت کے مزے لیتی۔ غلام رسول کو تو شادی کے بعد چپ سی لگ گئی تھی۔اس کو تو شادی کی بھی امید نہ تھی اور اس کو حور مل گئی تھی۔ اس کے شب و روز عجیب سرمستی کے عالم میں گزر رہے تھے۔ چند ہی دنوں میں پورے قصبے میں خبر پھیل گئی کہ غلام رسول کی بیوی پانچ جماعتیں پڑھی ہوئی ہے اور کتابیں بھی پڑھ لیتی ہے۔ کسی نے چٹھی پڑھوانی ہوتی یا لکھوانی ہوتی ادھر ہی کا رخ کرتے تھے۔ دھاری رام سنگھ جو اس علاقے کا واحد پڑھا لکھا آدمی تھا اور اس کا گزر بسر چٹھیاں لکھنے لکھانے پر ہی تھا کا روزگار محدود ہو گیا اور بیچارے کو بڑھاپے میں بڑھئی کا کام دوبارہ شروع کرنا پڑا تھا۔
صاحباں سلائی کڑھائی میں بھی ماہر تھی۔چند ہی دنوں میں اس کی کڑھائی کے نمونے اکثر گھروں میں پہنچ گئے۔ رنگوں کا چناؤ اور بنت کی صفائی انتہائی دیدہ زیب ہوا کرتی تھی۔ ہر پھول کاڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس میں اس گل رخ لڑکی کی خوشبو اور خوبصورتی بھی ڈلتی جا رہی ہو''۔
داستاں جاری تھی۔ رات کا پہلا پہر گزرنے والا تھا۔ بادلوں نے گرجنا شروع کر دیا تھا۔ کمرہ ہر طرف سے بند کر دیا گیا تھا تاکہ ہوا کا معمولی سا جھونکا بھی اندر داخل نہ ہو سکے۔اس احتیاط کے باوجود کمرے میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ پاؤں برف کے ہو گئے تھے لیکن کہانی میں دلچسپی سے تمام لوگ سانس روکے دادی اماں کی محبتوں سے بُنی مالا کی کھنک سن رہے تھے۔
'' صاحباں کے چرچے تیزی سے پھیل رہے تھے۔ واں کیلے میں موضوعِ گفتگو ہر جا غلام رسول اور اس کی بیگم صاحباں بن چکے تھے۔وہ غلام رسول جس کو چار آدمی اپنی محفل میں بٹھانے سے گریزاں ہوا کرتے تھے اب علاقے بھر میں ایک ہیرو بن چکا تھا۔ صاحباں پہلی عورت تھی جس سے عورتوں نے حسد کی بجائے پیار کیا۔ سسر کی وہ آنکھوں کا تارہ بن چکی تھی۔ سسر کے بھائی اور ان کے اہلِ خانہ بھی صاحباں کے گرویدہ تھے۔ یہ سارے لوگ چاہتے تھے کہ وہ کوئی کام نہ کرے اور وہ چاہتی تھی کہ وہ سارے کام خود سے کرے۔شادی کے بیسویں دن وہ اپنی نندوں کے ساتھ قصبے سے کچھ فاصلے پر موجود کھُوسے پانی لانے کے لیئے تیار ہو گئی۔ گھر کے تمام لوگوں نے اس کو منع کیا لیکن وہ کہاں رہنے والی تھی۔ اس کو پانی نکالنے اور گھر لانے کا کام بہت پسند آیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کھُو گھر سے کافی فاصلے پر تھا اور راستے میں اس کو بیسیوں عجیب و غریب نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا۔
صاحباں کو اس صورتِ حال نے فکر مند کر دیا۔ پانی گھر کے لیئے ضروری تھا اور ہوست پرست نگاہیں ایک رکاوٹ بن چکی تھیں۔ اس نے سسر غلام محمد سے اشاروں میں گھر کھوئی یا چھوٹا کنواں کھدوانے کی بات بھی کی لیکن ایسے ہی اشاروں میں اس کو جواب بھی مل گیا۔ وہ سمجھ گئی کہ گھر کی محدود آمدن میں یہ ممکن نہیں۔اگلے دن صاحباں نے کندیاں کا رختِ سفر باندھا اور دو دنوں بعد واپس آکر چاندی کے سکوں کی چھوٹی سی گٹھڑی سسر کے قدموں میں رکھ دی۔ غلام محمد حیران ہوا کہ اتنے سارے پیسے وہ کہاں سے لے آئی۔ صاحباں نے بتایا کہ میری بڑی بہن نے بڑی محنت سے میرے لیئے کندیاں میں ایک مکان بنوایا تھا۔ بہن فاطمہ کا خیال تھا کہ میں اپنے گھر سے کوسوں دور زیادہ دیر نہیں رہ سکوں گی۔ اس لیئے میرا کندیاں میں ٹھکانا ہونا چاہئے لیکن میں شادی کے بعد اب واں کیلے کو ہی اپنا گھر سمجھ بیٹھی ہوں اور وہ کندیاں والا گھر میرے لیئے فضول تھا ۔ چنانچہ اس کو بیچ کر یہ پیسے لے آئی ہوں تاکہ آپ اپنے گھر میں کنواں کھدوا لیں۔ اگر گھر والوں کے دل میں صاحباں کے لیئے محبت کی کوئی جگہ مزید باقی ہوتی تو ضرور آج بھر جاتی لیکن افسوس کہ یہ پیمانہ پہلے ہی چھلک رہا تھا۔ تین ہفتوں کی مشقت کے بعد کھوئی تیار ہو گئی۔ وہ دن نہ صرف غلام محمد کے گھرانے کے لیئے بلکہ پورے محلے کے لیئے خوشی سے لبریز تھا جب کنویں کی گہرائیوں میں سے پانی رسنا شروع ہو گیا اور شام تک کنویں کا پیٹ صاف شفاف اور ٹھنڈے پانی سے بھر گیا۔ تمام عورتیں اس بات پر خوش تھیں کہ اب ان کو بہت دور ارائیوں کے کھُو پر نہیں جانا پڑے گا۔ دیورانی نور بھری نے تو سرمستی کے عالم میں صاحباں کا منہ چوم لیا۔ ''
باہر بارش برسنا شروع ہو گئی تھی۔ تیز ہوا اور بارش کا زور گلی کے درختوں میں سائیں سائیں کی آوازیں پیدا کر رہا تھا۔ ہمارے گھر میں موجود درخت کا ایک کمزور سا ٹہنا ابھی ابھی دھڑام سے گرا تھا۔ لیکن مجال کہ کسی نے باہر کان بھی دھرا ہو۔ توجہ کا محور دادی اماں ہی تھیں۔
'' دو ہفتوں بعد اچانک صاحباں کی کمر میں ہلکا ہلکا درد شروع ہو گیا۔ دیسی ٹونے ٹوٹکے استعمال کیئے گئے لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ غلام رسول اپنی دلہن کو حکیم کو دکھوانے میانوالی لے آیا۔ دوا لینے کے بعد دونوں شام کو کندیاں آگئے ۔رات کو صاحباں کی کمر میں شدید درد ہونے لگا۔ مقامی حکیم چاچا انصاری کو بلایا گیا جس نے اس کا علاج خراب خون کے اخراج میں سمجھا۔ صاحباں کے پاؤں کے اوپر چاقو سے کٹ لگایا گیا۔ لال لال خون کی ایک تیز دھار بہہ نکلی۔ حکیم سے مہلک غلطی سرزد ہو چکی تھی۔ اُن دنوں پڑیوں کی بیماری پھیل رہی تھی۔ جسم کو زخم لگانا جراثیم کو اپنی طرف کھینچنے کے مترادف تھا۔ شہر سے باہر ریلوے لائن سے متصل ریت کے ٹیلوں کے قریب چند کوٹھڑیاں بنائی گئی تھیں جن میں پڑیوں کے مریضوں کو آبادی سے دور رکھنے کے لیئے قید کر دیا جاتا تھا۔ ان کوٹھڑی کا دروازہ باہر سے بند کر دیا جاتا تھا۔ کھڑکی کی جگہ ایک چھوٹا سا سوراخ موجود تھا جس میں اس بد قسمت مریض کا کوئی عزیز صبح شام کسی پرانے برتن میں کھانا لپیٹ کر پھینک جایا کرتا تھا۔ وہ برتن واپس نہیں لیا جاتا تھا۔ اس مریض کے لیئے تادمِ مرگ وہ کوٹھڑی زندگی کے تمام لوازمات پورے کرنے کا واحد کمرہ ہوا کرتی تھی۔ اکثر مریض رو ر و کر موت کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔
تیسرے دن صاحباں جب سویرے اٹھی تو اس کو بغل کے نیچے جلن محسوس ہوئی۔ ہاتھ لگایا تو گلٹی محسوس ہوئی۔ شام تک ایک اور کوٹھڑی ریلوے لائن کے قریب ریت کے ٹیلوں کے پاس بن چکی تھی۔ ایک حسین عورت کو مردوں والی کوٹھڑی میں قید کرنا خلافِ شریعت اور خلافِ معاشرت تھا۔دوپہر کے وقت وہ دوسری مرتبہ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہو رہی تھی۔ پہلی رخصت کو آج پورا سال ہو چکا تھا جب وہ لال پیلے جوڑے میں دلہن بن کر پیلے ہاتھوں پیا دیس سدھاری تھی۔ آج صاحباں کے ملگجے کپڑے اور ہی منظر پیش کر رہے تھے۔ ایک سیاہ رنگ کی چادر سے اس نے اپنے جسم کو ڈھانپ رکھا تھا۔گھر سے نکلنے کے بعد وہ سرخ اینٹوں والے گھر کے قریب سے گزری جس کو بیچ کر اس نے چند دن پہلے ہی واں کیلا میں کنواں کھدوایا تھا۔ریت کے سنسان ٹیلوں میں گھری ہوئی ویران کوٹھڑی میں صاحباں نے خاموشی سے ڈیرے لگا دیئے۔ شاید اس کو پتہ تھا کہ یہ چند روزہ قیام ہے۔ ''
رات ڈھلنے لگی تھی۔ بارش ہنوز جاری تھی۔ گلی میں بارش کا پانی پہاڑی ندی کی سی آواز پیدا کرتا گزر رہا تھا۔ کمرہ نئے سال کی ٹھنڈک سے لبریز ہو چکا تھا۔ چولھا کب کا خشک اور ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ لیکن تمام سامعین کا خون جوش کھا رہا تھا۔ کہانی کی جذباتی شدت نے میرےماتھے پر تو پسینے کے ننھے ننھے قطروں کی چمک پیدا کر دی تھی۔
''شام کا اندھیرا چھا چکا تھا اور صاحباں اپنی موت کی جلد آمد کی دعا مانگ رہی تھی۔ وہ خوفناک تاریکی، تنہائی اور خاموشی سے خوفزدہ ہو رہی تھی کہ اچانک کوٹھڑی کے باہرکسی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ وہ حیران بھی تھی اورخوش بھی تھی کہ عزرائیل ؐ نے دیر نہیں کی اور مجھے تنہائی کی اذیت سے بہت جلد نجات مل گئی۔ لیکن یہ موت نہیں تھی بلکہ غلام رسول تھا جو اس کے لیئے رات کا کھانا لایا تھا۔ روشندان نما کھڑکی سے کھانا پرانے برتنوں میں اندر پھینک دیا گیا۔ دو چمکدار آنکھیں دیر تک اندر گھورتی رہیں۔ صاحباں نے برتنوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور پوری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔
تیسرے دن صبح سے ہی بادل چھائے ہوئے تھے۔ غلام رسول جب ناشتہ لے کر پہنچا تو کن من شروع ہو چکی تھی۔ یہ موسم صاحباں کو بہت پسند ہوا کرتا تھا۔اس کو امید تھی کہ وہ ضرور سوراخ نما کھڑکی سے باہر جھانک کر بادلوں اور ہواؤں کی آنکھ مچولی دیکھ رہی ہو گی۔ بارش کی پھوہار اس کے نقرئی چہرے کو غسل دے رہی ہو گی۔چیچک کے لیئے بنائی گئی دو مردانہ کوٹھڑیاں وہ جلدی سے عبور کر گیا۔ تیسری کوٹھڑی میں اس کی محبت قید تھی۔ آج غلام رسول اپنی بیوی کے لیئے دودھی والا حلوہ لایا تھا جو اس کو بہت پسند ہوا کرتا تھا۔ اس کو امید تھی کہ حلوے کی خوشبو صاحباں کی بھوک ہڑتال ختم کر دے گی۔ غلام رسول کوٹھڑی کے قریب پہنچا تو حسبِ معمول کوٹھڑی کے اندر باہر خاموشی طاری تھی۔ لگتا تھا کہ چیچک زدہ کوٹھڑی کی سانسیں تھم گئی ہوں۔ اس نے ناشتے والے برتن اندر پھینکنے سے پہلے سوراخ میں سے جھانکا تو صاحباں ایک کونے میں مٹی میں لت پت لیٹی دکھائی دی۔اس نے پھرتی سے تالا کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔ سانسوں کا دھاگہ ٹوٹ چکا تھا۔ صاحباں اوندھی لیٹی پڑی تھی۔ اس کے چہرے کے نیچے زمین گیلی ہو چکی تھی۔ شاید مرنے سے پہلے وہ کافی دیر روتی رہی تھی۔
ماڑی انڈس نامی ٹرین نے مغرب کے وقت روانہ ہونا تھا۔ لیکن ابھی صبح ہو رہی تھی۔ میت کو شہر کے اندر لے جانا منع تھا۔ گھر سے چارپائی منگوا کر پیدل ہی جنازہ واں کیلا روانہ کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ راستے میں جہاں سے بھی جنازہ گزرتا لوگ دور تک اس کو کندھا دیتے۔ سہ پہر ڈھلے جنازہ واں کیلا پہنچا۔ چیچک زدہ میت کو شہر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ ماتمی قافلے کو رچھیاں کے قریب ہی رکنا پڑا۔خانہ بدوش جو امیر والہ کے باہر جھگیاں اور کچیروں میں رہائش پزیر تھے نے کفن دفن میں مدد کی۔ ایک کچیرے کے اندر میت کو غسل دیا گیا اور کفنایا گیا اور شام ہونے سے پہلے رچھیاں کے قبرستان کی خاموش سی مسجد کے باہر بوڑھے شیشم کے درختوں کے قریب جنازہ ادا کرکے بابا موسٰی مزارکے مغرب میں دفنا دیا گیا۔''
دادی خاموش ہو گئی تھیں۔ دور کسی مسجد سے اذانِ فجر کی سحر زدہ آواز گونج رہی تھی۔ بارش تھم چکی تھی لیکن ندی نما گلی میں پانی کا شور ابھی باقی تھا۔ تمام لوگ کھلی آنکھوں چھت کی کڑیوں کو گنتے محسوس ہو رہے تھے۔ ہر فرد چپ تھا جیسے وہ اس سحر زدہ داستاں کے طلسم کو جزوِ جاں بنانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اچانک دادی اٹھیں اور لاٹھی ٹیکتی ٹیکتی اپنے صندوق کے قریب پہنچ کر اس کا تالا کھولنے لگیں۔ اندر سے ایک پرانا تھیلا اٹھایا اور اس میں سے دھیرے دھیرے ایک سفید میز پوش باہر نکالا جس پر سبز، سرخ اور پیلے رنگوں سے انتہائی دیدہ زیب نکاشی کی گئی تھی۔لگتا تھا کہ چند دن پہلے ہی کسی انتہائی ماہر کاریگر نے اس کو کاڑھا ہے۔ کپڑے کو ہوا میں لہراتے ہوئے دادی تمام لوگوں سے مخاطب ہوئیں
'' یہ واحد نشانی ہے میری بہن صاحباں کی جو اس کی موت کے بعد میں واں کیلا میں اس کے گھر سے اٹھا کرلائی تھی۔ ذرا دیکھو تو کیسے اس کپڑے سے میری بہن کے ہاتھوں کی خوشبو آ رہی ہے۔ اس کے فن، کاریگری اور نفاست کی یہ آخری اور واحد نشانی میری زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ ''
صندوق کا راز عیاں ہو چکا تھا۔