پچاس ایکڑ پر بنی ہوئی کوٹھی کے گیٹ پر پولیس کا پہرا ہے۔ گیٹ سے اندر داخل ہوں تو وسیع و عریض لان پر مخمل جیسی گھاس بچھی ہے۔ اردگرد پھولوں بھری کیاریوں حاشیہ ہے۔ کیاریوں سے ہٹ کر‘ آسمان کو چھولینے والے درخت ہیں۔ فضا حکمرانی کی ہے۔ ایسی حکمرانی جس میں آسودگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لان میں پندرہ بیس موٹے اور لمبے اشخاص کھڑے آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ انہوں نے اچکنیں پہنی ہوئی ہیں اور کلف لگی سفید دستاریں سروں پر رکھی ہوئی ہیں۔ دستاروں پر طرے ہیں۔ سفید‘ اکڑے ہوئے طرے‘ یوں اوپر اٹھے ہوئے جیسے ابھی آسمان کی طرف اڈاری ماریں گے۔ انہیں کھڑے ہوئے تین چار گھنٹے ہو گئے ہیں۔ بیٹھنے کیلئے کرسیاں ندارد‘ اتنے میں اندر کا دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار باہر نکلتا ہے۔ اس نے بھی اچکن پہنی ہوئی ہے اور اتنا ہی اونچا طرہ پگڑی میں سے آسمان کی طرف نکالا ہوا ہے۔ یہ چوبدار لان میں کھڑے معززین کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ صاحب نے آپ حضرات کی طرف سے عید مبارک قبول کر لی ہے۔ یہ سننا تھا کہ تمام افراد ایک دوسرے سے گلے ملنا شروع کر دیتے ہیں اور مبارک دینے لگتے ہیں
یہ واقعہ اشوک کے زمانے کا ہے نہ خلجیوں کے عہد کا۔ یہ ایک سو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ بہت سی کتابوں میں اس کے سچا ہونے کی گواہی موجود ہے۔ طروں والے یہ افراد جاگیردار ہیں اور اندر ہی سے عید مبارک باد قبول کرکے باہر نہ آنے والا ’’صاحب‘‘ انگریز ڈپٹی کمشنر ہے!
تاریخ ایک اور واقعہ بھی بیان کرتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اردگرد‘ حالات ایسا رخ اختیار کرتے ہیں کہ انگریزوں کا برصغیر سے چل چلاؤ نظر آنے لگتا ہے۔ ایسے میں جنوبی پنجاب کے جاگیردار ملکہ برطانیہ کے نام ایک متفقہ عرضداشت لکھتے ہیں جس میں انتہائی ادب‘ لجاجت عاجزی اور جی حضوری کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ انگریزی حکومت ازراہ کرم برصغیر سے کبھی نہ جائے اور ملکہ کا سایہ ان کے سروں پر قائم و دائم رہے۔ یہ عرضداشت بھی کسی ناول یا داستان کی پیداوار نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ کتابوں میں اسی درخواست کا متن موجود ہے اور دستخط کرنے والے زمینداروں کے نام درج ہیں۔
یہ سب کچھ لکھنے کا خیال یوں آیا کہ تین چار دن ہوئے‘ پنجاب کے ایک جاگیردار ایک صحافی پر غضب ناک ہوئے ہیں۔ مزاج کی برہمی کا سبب صحافی کی یہ ’’گستاخی‘‘ ہے کہ اس نے مخاطب ہوتے وقت نام کے بعد ’’صاحب‘‘ تو لگایا لیکن نام سے پہلے ’’سردار‘‘ نہیں لگایا! اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ واقعہ نہیں لطیفہ ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ یہ 2010ء سہی لیکن یہ واقعہ اسی 2010ء میں پیش آیا ہے! اور سردار صاحب نے بقائمی ہوش و حواس صحافی سے غصے میں پوچھا ہے کہ آپ کو ’’سردار‘‘ کہنے میں کیا تکلیف ہے؟ اس واقعے پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں اس سے آپ مستقبل کی روشنی صاف دیکھ سکتے ہیں اور یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 1951ء میں جب بھارت نے زرعی اصلاحات نافذ کرکے سرداریاں جاگیرداریاں اور نوابیاں ختم کر دی تھیں تو کون سی ’’مصلحت‘‘ تھی جس کے پیش نظر پاکستان میں ایسا نہ ہو سکا۔ اس سے آپ یہ اندازہ بھی بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ہماری سیاسی پارٹیوں پر کس ذہن (MIND SET) کے رہنما مسلط ہیں۔ آپ کو اس سوال کا جواب بھی‘ اس واقعے سے مل جائے گا کہ یہ جو خاندانی وراثتیں نام نہاد سیاسی پارٹیوں پر قابض ہیں تو اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ جو لوگ اپنی سرداری کو ایک لمحہ کیلئے بھی فراموش نہیں کر سکتے انہیں پارٹی پر کسی خاندان کی سرداری قبول کرنے میں کیا ہچکچاہٹ ہو سکتی ہے! ظاہر ہے جس دن پارٹیوں کے اندر حقیقی جمہوریت آگئی تو جنوبی پنجاب ہو یا سندھ یا بلوچستان‘ سرداریاں بھی انٹا غفیل ہو جائیں گی!
جاگیرداری کی نفسیات میں دو باتیں اہم ہیں ایک یہ کہ جب دو فریقوں میں جھگڑا ہو تو جاگیردار یہ نہیں دیکھتا کہ غلطی کس کی ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کس کی حمایت کرنی ہے۔ اگر اس نے اس فریق کی حمایت کا فیصلہ کر لیا جو غلطی پر ہے تو کوئی دلیل اسے اس فیصلے سے نہیں ہٹا سکتی دوسری یہ کہ جیسے ہی ہوا کا رخ تبدیل ہوتا ہے‘ جاگیردار بھی اپنا رخ بدل لیتا ہے۔ رنجیت سنگھ کا دور آیا تو جاگیردار اس کے ہم رکاب ہو گئے۔ پھر برطانوی حکمران آئے تو انہیں وفاداریاں بدلنے میں دیر نہ لگی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہے تو تقسیم سے پہلے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ پھر ری پبلکن پارٹی میں چلے گئے۔ ایوب خان بادشاہ بنا تو اس کی بنائی ہوئی کونسل لیگ میں جوق در جوق گئے۔ جنرل مشرف نے قاف لیگ کا ڈول ڈالا تو لغاری تھے یا جمالی‘ سب کوچہ رقیب میں سر کے بل گئے!
تو پھر کیا ہماری امیدوں کا مرکز مڈل کلاس کو ہونا چاہئے؟ اگر جاگیردار اور سردار مرغان باد نما ہیں تو کیا مڈل کلاس میرٹ پر فیصلے کرتی ہے؟ اور کیا استقامت مڈل کلاس کا طرہ امتیاز ہے؟ افسوس صد افسوس! ایسا نہیں۔ مڈل کلاس پر نوحہ خوانی کرنے کیلئے کئی نام لئے جا سکتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو مڈل کلاس کے ساتھ ساتھ ’’دانش ور‘‘ کلاس کا بھی پول کھول دیا ہے۔ اب یہ کوئی نہیں کہے گا دانش ور اور لکھاری ہوا کا رخ دیکھ کر وفاداریاں نہیں تبدیل کرتے۔ جنرل مشرف تخت نشین ہوئے تو بہت سے دوسرے مہاجر پر ندوں کی طرح مڈل کلاس کے بہت سے نمائندوں نے بھی نون لیگ کو خیرباد کہا اور مشرف کی کشتی میں سوار ہو گئے اور اب جب جنرل مشرف امتداد زمانہ کی نذر ہو گئے ہیں تو ان حضرات نے بھی تخت و تاج سے محروم بادشاہ کو خدا حافظ کہے بغیر چھوڑ دیا ہے! لیکن ایک شخص ایسا بھی ہے جو زبان حال سے کہہ رہا ہے…؎
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں‘ گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں
جوقافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گردسفر گیاوہ
ڈاکٹر شیر افگن ان سب سیاسی مسافروں سے مختلف ثابت ہوئے وہ آج بھی جنرل مشرف کے ہم نوا ہیں‘ کھل کر اس کا ذکر کرتے ہیں‘ برملا اس کا نام لیتے ہیں اور کسی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر کسی ندامت‘ شرمندگی یا پشیمانی کو نزدیک لائے بغیر آج بھی اس کا دم بھرتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن کی اس استقامت کی تعریف کی جائے۔ وہ چاہتے تو قاف لیگ کے دوسرے رہنماؤں کی طرح جنرل مشرف کے احسانات بھول جاتے۔ لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ انکی استقامت کا تازہ واقعہ یہ ہے کہ قاف لیگ کے اجلاس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ جنرل مشرف سے فائدہ اٹھانے والے آج اس کا نام کیوں نہیں لے رہے؟ شاید مشاہد حسین صاحب نے انہیں ٹوکا ہو‘ اسی لئے ڈاکٹر شیر افگن نے (مبینہ طور پر) کہا ہے کہ شاہ صاحب نے انہیں دھکے دلوائے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سید مشاہد حسین مشرف کے جوتے سیدھے کیا کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن اور مشاہد حسین کی یہ باہمی ’’محبت‘‘ قدیم زمانوں سے ہے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں سینٹ کے اجلاس میں بھی یہ ’’محبت‘‘ گاہے گاہے ظاہر ہو جایا کرتی تھی…ع
پا بدست دگری‘ دست بدست دگری
ایک بار جب مشاہد حسین نے دعویٰ کیا کہ نیب کے پاس ان کیخلاف کچھ نہیں تو ڈاکٹر شیر افگن خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے تھے اور جوابی دعویٰ کیا تھا کہ مشاہد حسین کیخلاف نیب کی باقاعدہ تحقیقات موجود ہیں۔ اس پر کچھ دیگر اصحاب نے ڈاکٹر شیر افگن سے اختلاف کیا تھا اور ان اختلافات کرنے والوں میں اسفند یار ولی اور رضا ربانی بھی تھے۔ پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز جب میانوالی میں ایک آبی منصوبے کا افتتاح کرنے گئے تو شیر افگن نے جو شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر تھے۔ وزیراعظم کی تقریب کا ڈنکے کی چوٹ پر بائیکاٹ کیا۔ پلاسٹک کے وزیراعظم اس ’’عزت افزائی‘‘ کو پی گئے۔ سمجھ دار آدمی تھے۔ جانتے تھے کہ نوکری لگی ہوئی ہے۔ اور یہ کہ ڈاکٹر شیر افگن جنرل کے بہت قریب ہیں۔ شور مچانے سے یا ناراض ہونے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ پلاسٹک کے وزیراعظم کتنے عظیم مدبر اور جہاں بانی کے اصولوں میں رچے بسے تھے‘ اس کا اندازہ اس شرمناک حقیقت سے لگائیے کہ ان کے وزیر قانون کے صاحبزادے نے والد کی موجودگی میں کراچی ائر پورٹ پر ایک معزز مسافر کو بغیر کسی قصور کے مار مار کر لہولہان کر دیا تو وزیراعظم کے ماتھے پر شکن آئی نہ کان پر جوں رینگی۔ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو کروڑوں روپے کے سرکاری تحائف جہاز میں لادے اور اپنے اصل وطن کو لوٹ گئے۔ واہ رے مڈل کلاس کی اصول پسندی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی دیانت داری! جاگیرداروں سے کیا شکوہ کیا جائے اور اعلیٰ طبقات کی کس منہ سے مذمت کی جائے!
بلوچ سردار نے کہا تھا کہ جب ہتھیلی پر بال اگ آئیں گے اور جب کوا انڈوں کے بجائے براہ راست بچے دینے لگے گا تو میں بھی انتقام لینا چھوڑ دوں گا۔ جنرل مشرف کا دوبارہ برسراقتدار آنا ایسا ہی ہے جیسے ہتھیلی پر بال اگ آئیں یا کوے بچے جننے لگیں‘ اس کے باوجود ڈاکٹر شیر افگن کا مشرف کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط وفادار رہنا قابل تحسین ہے۔ لگتا ہے کہ ظفر اقبال نے یہ شعر ڈاکٹر شیر افگن ہی کیلئے کہا ہے…؎
جھوٹ بولا ہے ظفر تو اس پہ قائم بھی رہو
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے