صاحباں کے مرنے پر کُل خدائی آ گئی
ایک مرتبہ پھر ماڈل ٹاؤن کے ایک گھر ’’داستان سرائے‘‘ کی جانب جتنی بھی گلیاں جاتی تھیں، جتنی سڑکیں اُس سرائے کی طرف اترتی تھیں وہ سب کی سب لوگوں کے ہجوم سے اَٹی پڑی تھیں، لوگ بے شمار کہ وہ حرکت نہ کرتے تھے، ہولے ہولے سرکتے تھے، نوجوان عورتیں اور بوڑھیاں جیسے گھر سے کسی ماتم کدہ کی جانب رواں ہوں، اُن کے چہرے الم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، صرف اُن کی آنکھیں تھیں جو آنسوؤں سے روشن ہوتی تھیں۔۔۔ وہاں معاشرے کے ہر طبقے کے افراد چلے آتے تھے، غریب اور مسکین بھی، ثروت مند اور حکمران بھی، کئی سفید ڈاڑھیوں والے نامعلوم درویش بھی۔۔۔ اور یہ سب سر جھکائے آنے والے لوگ حیرت انگیز طور پر آپس میں گفتگو نہ کرتے تھے، صرف اُن کی قدموں کی سرسراہٹ کی آواز آتی تھی جیسے کسی درگاہ پر حاضری دینے والے معتقدین کے قدموں سے آتی ہے۔۔۔ کبھی کبھار کسی پولیس کے ہوٹر کی آواز ماحول کی خاموشی پر ایک الم ناک چیخ کی مانند اتر کر اُس کو کرچی کرچی کر دیتی ہے۔۔۔
آخر یہ کون سا میلہ تھا جہاں لوگ کشاں کشاں چلے آ رہے ہیں، کیا یہ اس جگ والا وہی میلہ تھا جو تھوڑی دیر کا ہوتا ہے، ہنستے ہوئے رات گزر جاتی ہے اور کچھ پتا نہیں سویر کب ہو جائے، وہی موت کا میلہ تھا۔اور آخر یہ کون سا ’’کھیل تماشا‘‘ ہے کہ اسے دیکھنے کی خاطر ایک دنیا اُمڈ اُمڈ آتی ہے۔
’’زبیر۔۔۔ یہ جان لو کہ یہ جنازہ اشفاق احمد کی بیوی کا نہیں، یہ بانو قدسیہ کا جنازہ ہے‘‘۔
اور آج بانو قدسیہ ہار گئی تھی۔۔۔ جب اشفاق احمد نے اُس کے لئے اپنا خاندان، اپنا حسب نسب، اپنی جائیداد اور سب سگے چھوڑ دیئے، اشفاق کو اس لئے عاق کر دیا گیا کہ اُس نے اُن سب کی مخالفت کے باوجود چپکے سے چند دوستوں کے ساتھ قدسیہ بانو چٹھہ سے نکاح کر لیا تھا اور اُسے بانو قدسیہ کا نام دیا تھا تو اُس لمحے اُس چٹھہ جاٹ لڑکی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے پٹھان محبوب کے لئے اپنا سب کچھ تیاگ دے گی۔۔۔ ساری عمر اُس کی باندی بنی رہے گی، اُس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے چلے گی، اپنی باگیں کھینچ کر اپنی انا اور تخلیق کے گھوڑے کو کبھی اس کرشن کی سرکشی کے گھوڑے سے آگے نہیں لے جائے گی۔۔۔ وہ اپنے آپ کو وقف نہیں تلف کر دے گی۔۔۔ وہ ایک میرا بائی ہو گئی جو کرشن سے بیاہی گئی اور ساری عمر اُس کے گیت گاتی رہی۔
ہے آنکھ وہ جو شام کا درشن کیا کرے
ہے ہاتھ وہ جو بھگوان کا پوجن کیا کرے
یعنی۔۔۔ رانجھا رانجھا کر دی میں آپ ہی رانجھا ہوئی۔۔۔
اُس نے اشفاق احمد کو اپنا شام، اپنا کرشن، اپنا رانجھا اور مہینوال کر لیا۔۔۔ یہ لاہور کا ’’جادو گھر‘‘ فری میسن ہال تھا، کوئی ادبی تقریب اختتام پذیر ہوئی اور میں بانو آپا سے گفتگو کرتا باہر آنے لگا تو وہ صدر دروازے پر رُک گئیں ۔ ’’آئیں بانو آپا‘‘۔۔۔ وہ رُکی رہیں، دہلیز کے پار قدم نہ رکھا اورپھر کہنے لگیں ’’خان صاحب اپنے دوستوں اور مداحوں میں گھرے ہوئے ہیں، جب وہ آئیں گے اور باہر جائیں گے تو میں اُن کے پیچھے جاؤں گی، اُن سے پہلے نہیں‘‘۔مجھے یہ شوہر نامدار کی اطاعت کا رویہ اچھا نہ لگا تو میں نے شاید کہا کہ بانو آپا پلیز۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ’’مستنصر، پہلے انجن آگے جائے گا اور پھر اُس کے پیچھے ہی گاڑی جائے گی‘‘۔۔۔ اس اطاعت گزاری کے باوجود اشفاق صاحب کے خاندان نے کبھی اُنہیں مکمل طور پر قبول نہ کیا یہاں تک کہ اشفاق صاحب کے جنازے پر اُن کا ایک بھائی ایک سفید پیراہن میں تھا جس پر لکھا تھا ’’بانو قدسیہ میرے بھائی کی قاتل ہے‘‘۔۔۔ اُن کا کمالِ نَے نوازی اُن کے کچھ کام نہ آیا۔ میں یہاں وہ لفظ نہیں لکھ سکتا جو اُن کے کچھ اہل خاندان اُن کے لئے استعمال کرتے تھے۔۔۔ اُدھر اشفاق احمد بھی ایک بلند سنگھاسن پر براجمان ایک ایسے دیوتا تھے جن کے چرنوں میں اگر عقیدت کے پھول کم نچھاور کئے جاتے تھے تو وہ اسے پسند نہ کرتے تھے۔ پٹھان اشفاق احمد اکثر بابا اشفاق احمد پر حاوی ہو جاتا تھا۔۔۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ میں اُس روز ماڈل ٹاؤن پارک کے دوستوں کے ہمراہ عادل کے ترتیب شدہ سفر کے نتیجے میں لاہور سے باہر۔۔۔ بھائی پھیرو اور جڑانوالا کی جانب پنجاب کی ایک عظیم رومانوی داستان کی کھوج میں مرزا صاحباں کی نسبت سے مشہور گاؤں داناباد گیا تھا۔۔۔ صاحباں اور مرزا کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ رہا تھا، اور بارش بہت شدید تھی جب ایک ہم سفر نے مجھے بتایا کہ بانو قدسیہ مر گئی ہے۔۔۔
میں اُس شب برستی بارش میں ’’داستان سرائے‘‘ پہنچا تو وہاں اتنا ہجوم تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔ نورالحسن روتا چلا جاتا تھا۔۔۔ اُن کا بیٹا اسیر میرے گلے لگ کر رو دیا۔۔۔
’’آپ اندر جا کر بانو آپا کو دیکھ لیں‘‘۔۔۔
’’نہیں، میں نے نہیں دیکھنا‘‘۔۔۔
تو یہ اگلا دن ہے جب ’’داستان سرائے‘‘ کی جانب جاتے سب راستے ہجوم سے بھرے پڑے تھے اور آج بانو قدسیہ اپنے کرشن سے اس لئے ہار گئی تھیں کہ اُن کا جنازہ اُن سے بہت بڑا تھا۔۔۔
صاحباں ہار گئی تھی۔۔۔
مرزا کے جنازے پر کم لوگ آئے تھے۔۔۔
صاحباں کے مرنے پر پوری خدائی آ گئی تھی۔
https://www.facebook.com/khalidqayyum.tanoli/posts/281907188894023
“