حافظ آباد میں وہی کچھ ہوا جو قصور میں ہوا! چھ ماہ گزر گئے۔ اگر وزیر اعلیٰ کسی سسٹم کو رائج کرتے یا رائج ہونے دیتے، تو حافظ آباد میں وہ کچھ نہ ہوتا جو قصور میں ہوا تھا۔
قصور میں کیا ہوا تھا؟ یہ گزشتہ اکتوبر کی بات ہے۔ وزیر اعلیٰ ’’اچانک‘‘ قصور پہنچے۔ انہوں نے قصور کے سرکاری ہسپتال کا دورہ کیا۔ صفائی کا حال برا تھا۔ بیت الخلا غلاظت سے بھرے تھے۔ پانی میسر تھا نہ روشنی کا انتظام تھا۔ بستروں کی چادریں گندی تھیں۔ ادویات عدم دستیاب تھیں۔ وزیر اعلیٰ نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی اور پھر اپنے مخصوص خطیبانہ انداز میں میڈیا سے کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت نہ کرنے والوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
چھ ماہ گزر گئے۔ ہسپتالوں میں صورتِ حال کس درجہ بہتر ہوئی؟ ایک فی صد بھی نہیں۔ اس لیے کہ وزیر اعلیٰ کسی سسٹم کسی نظام پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کی کتاب میں کسی وزیر صحت اور کسی سیکرٹری صحت کے لیے کوئی صفحہ، کوئی پیراگراف نہیں۔ آپ یقینا ہر روز اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کیا آپ کو رانا ثناء اللہ کے علاوہ دوسرے صوبائی وزیروں کے نام یا ان کی وزارتوں کا علم ہے؟ صوبائی وزیر صحت کون ہے؟ کوئی ہے بھی یا نہیں؟
پرسوں وزیر اعلیٰ نے ڈسٹرکٹ ہسپتال حافظ آباد کا دورہ کیا۔ جو فلم قصور میں چلی تھی منظر بہ منظر، لفظ بہ لفظ دوبارہ چلی۔ ہسپتال کی وہی حالتِ زار۔ محکمے کی وہی نا اہلی! وزیر اعلیٰ کے وہی عزائم! وہی خطابت اور سسٹم کا وہی عدم وجود!
٭…مریضوں کی جانب سے مفت ادویات نہ ملنے کا وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا! اور ہدایت کی کہ مفت ادویات ہر صورت مریضوں تک پہنچنی چاہئیں۔
٭…پانی کی عدم دستیابی کا ’’سخت‘‘ نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ پانی کی فی الفور دستیابی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
٭…سٹاک رجسٹر مرتب نہ کرنے پر وزیر اعلیٰ نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ ڈی سی او گوجرانوالہ اپنی نگرانی میں ادویات کے سٹاک کو چیک کر کے مکمل رپورٹ پیش کریں۔
٭… ہسپتال کے بیت الخلا میں گندگی اور پانی اور روشنیوں کی عدم دستیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی۔
٭… بستروں کی چادریں خراب تھیں۔ اس پر بھی وزیر اعلیٰ نے برہمی کا اظہار کیا۔
برہمی! نوٹس! ہدایات! دکھی انسانیت کی خدمت! کام نہ کرنے والوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
چار یا چھ ماہ بعد وزیر اعلیٰ پھر کسی ہسپتال کا ’’اچانک‘‘ دورہ کریں گے۔ جس خبر کو خوب خوب اچھالا جائے گا وہ وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول کو خاطر میں نہ لانا اور عام وین میں سفر کرنا ہو گا۔ پھر وہی فلم چلے گی۔ بستروں کی گندگی چادریں۔ غلاظت بھرے بیت الخلا۔ لائٹس(روشنیاں) خراب! پانی کی عدم دستیابی! سٹاک رجسٹر نا مکمل! مفت دوائوں سے مریضوں کی محرومی! ڈی سی او کو ہدایت کہ ادویات کے سٹاک کو چیک کرے۔ ڈی سی او میں ہمت ہی نہیں کہ بتائے کہ جہاں پناہ! ہسپتال میں ادویات کے سٹاک کو چیک کرنا اس کی ذمہ داری ہی نہیں۔ اس کے لیے ایک اور چڑیا ہے جسے محکمۂ صحت کہا جاتا ہے۔
ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے یہ ہسپتال نجی ہیں۔ جناب شہباز شریف اِن نجی ہسپتالوں کے واحد مالک ہیں۔ انہوں نے ایک وزیر صحت رکھا ہوا ہے جسے تنخواہ دیتے ہیں۔ گاڑی اور کوٹھی بھی دی ہوئی ہے۔ سٹاف بھی مہیا کیا ہوا ہے۔ پھر ایک سیکرٹری صحت ہے۔ اسے گریڈ بائیس دیا ہوا ہے۔ تنخواہ مراعات کوٹھی گاڑی ڈرائیور پی اے، پی ایس سب دیئے ہوئے ہیں۔ ان سب کے اخراجات ان نجی ہسپتالوں کے مالک جناب شہباز شریف ادا کر رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، تب بھی ان ہسپتالوں میں پانی اور روشنی نہ دکھائی دیتے، تب بھی ادویات مریضوں کی پہنچ سے دور ہوتیں؟ تب بھی بستروں کی چادریں گندی ہوتیں؟ تب بھی سٹاک رجسٹر ادھورے ہوتے؟
نہیں! کبھی نہیں! کیوں کہ اپنے نجی کاروبار کو میاں صاحب ایک سسٹم ایک نظام کے تحت چلا رہے ہیں! قصور کے واقعہ کے بعد وہ وزیر صحت اور سیکرٹری کو بلا کر کہتے کہ میں دس دن کے بعد کسی بھی ہسپتال کا دورہ کروں گا اور جو کچھ قصور میں دیکھ رہا ہوں، وہاں دیکھا تو پندرہ سیکنڈ کے اندر اندر فارغ کر دوں گا اور سامان سرکاری محل سے باہر پھینک دوں گا۔
اگر سسٹم ہوتا تو دورے کے موقع پر متعلقہ وزیر، چیف منسٹر کے ساتھ ہوتا! عملے کے سامنے اُس سے پوچھ گچھ ہوتی۔ اگر دورے کو خفیہ رکھنا ہے تو وزیر اور سیکرٹری کو نہ بتائیے کہ کہاں جا رہے ہیں۔ ان سے ان کے موبائل فون لے لیجیے تا کہ وہ ہسپتال میں کسی کو دورے کی اطلاع نہ دے سکیں۔ سب کچھ ہو سکتا ہے، مگر اپنا کاروبار اپنا کاروبار ہے۔ سرکاری کام سرکاری کام ہے۔ معصوم وزیر اعلیٰ کو یہ بتانے کی جرأت کون کرے کہ سر! یہ دکھی انسانیت والے بیانات کا طویل سلسلہ ختم کیجیے کہ انسانیت اگر دُکھی ہے تو اس کے پاس مزاحیہ پروگراموں کے لیے وقت اور دماغ کہاں؟
وزیر اعلیٰ عام وین کے بجائے پیدل آتے رہیں، گھوڑے پر یا تانگے پر تشریف لائیں، ڈی سی او کو الٹا لٹکا دیں، ہسپتال کے عملے پر برہمی کا اظہار ایک لاکھ بیس ہزار بار کریں، جب تک سسٹم نہیں بنے گا، نتیجہ صفر رہے گا۔ اس لیے کہ دنیا نے سینکڑوں ہزاروں برس کے تجربے کے بعد یہ سسٹم بنایا ہے۔ ایک تن تنہا وزیر اعلیٰ دس وزیروں کا کام کر ہی نہیں سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ عشروں پر عشرے گزر گئے۔ وزیر اعلیٰ دہائیوں سے صوبے کے حکمران ہیں مگر تھانہ کلچر، کچہری کلچر، پٹوار کلچر سب جیسے تھے، ویسے ہی ہیں۔تھانوں کا عملہ کار چوروں سے ملا ہوا ہے۔ اغوا برائے تاوان انڈسٹری بن چکی ہے۔ صوبے میں لاکھوں(اب تو کروڑوں ہوں گے) غیر ملکی، جائیدادیں خرید کر آباد ہو رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پاس ان کے اعداد و شمار ہی نہیں! سسٹم بنائیے! سسٹم! جہاں پناہ! نظام بنائیے! آزاد، غیر سرکاری میڈیا کو ہسپتال کا دورہ کرائیے اور پھر وزیر صحت کو سامنے کھڑا کر کے پوچھیے کہ ادویات کہاں ہیں؟ روشنی کیوں نہیں؟ وزیر سے کہیے کہ اپنی نگرانی میں ٹوائلٹ صاف کروائے، بستروں کی چادریں پاس کھڑا ہو کر بدلوائے، یہ نہیں کریں گے تو چھ ماہ بعد ایک اور ہسپتال میں یہی کچھ ہو گا جو قصور اور حافظ آباد میں ہوا۔
کیا آپ کے علم میں ہے کہ رہتاس کا ایک قلعہ جہلم کے علاوہ بھی موجود ہے؟ یہ بھارت کی ریاست بہار کے شہر سہسرام میں ہے۔ پاکستانی قلعہ رہتاس کی طرح بھارتی رہتاس کا یہ قلعہ بھی شیر شاہ سوری ہی نے بنوا دیا تھا۔ مخیر پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ اپنے ہم وطنوں کا ایک وفد لے کر سہسرام شیر شاہ سوری کے مزار پر حاضر ہوں(اگراس کالم نگار کو بھی وفد میں شامل کیا جائے تو دعا دے گا)۔ اُس کے مزار پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے اسے اُٹھنے کا کہیں کہ آ کر پاکستان میں ڈاکوئوں کا خاتمہ کرے۔ کل وفاقی دارالحکومت میں واقع ایک سرکاری بینک سے ڈاکو ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے۔ اس واردات کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ ہوائی فائرنگ کے خوف سے بینک میں موجود خواتین اور بچے بے ہوش ہو گئے۔ بینک سے نکلتے ہوئے ڈاکوئوں نے ایک شخص کو بندوق کا بٹ مار کر زخمی کر دیا۔ چار اور ڈاکوئوں نے حضرو سے راولپنڈی آنے والے منی چینجر سے دوکروڑ کی کرنسی چھین لی۔ پنجاب میں اس قبیل کی وارداتیں اس قدر عام ہو چکی ہیں کہ ان خبروں کو لوگ اخبارات میں پڑھتے ہیں نہ ٹی وی چینلوں پر سنتے ہیں۔
ہو سکتا ہے شیرشاہ سوری چیخ پکار کو کوئی اہمیت نہ دے اور ہمارے شاہی خاندان کے اسلوبِ حکمرانی کے بارے میں مشکل سوال پوچھنا شروع کر دے۔ ایسی صورت میں وفد کو چاہیے کہ نا امید نہ ہو۔ بہار سے سیدھے دہلی چلے آئیں۔ دہلی کے علاقے مہرالی میں ایک قطب کمپلیکس ہے۔ قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام بھی(جو اصل میں قبتہ الاسلام تھی) یہیں ہیں۔ قطب کمپلیکس کی پشت پر سلطان علائو الدین خلجی کا مقبرہ ہے۔ سنا ہے کہ سلطان بھی ڈاکوئوں کے خاتمہ کو پل اور شاہراہیں بنانے سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ وفد پر لازم ہے کہ سلطان علائو الدین خلجی کے مزار پر روئیں گڑ گڑائیں اور اُس سے اپیل کریں کہ اُٹھے اور ایک بار آ کر مملکت خداداد میں ڈاکوئوں کا خاتمہ کرے۔ اس کالم نگار کو یقین ہے کہ عورتوں اور بچوں کے بے ہوش ہو جانے اور بندوق کے بٹ سے معصوم شہریوں کے زخمی ہو جانے کی خبر سن کر سلطان بے چین ہو جائے گا۔ یہ بادشاہ بھی عجیب تھے۔ قسم کھا لیتے تھے کہ جب تک قاتل یا ڈاکو کو نہیں پکڑیں گے، پانی نہیں پئیں گے۔ نیند اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے۔ زمین پر سونا شروع کر دیتے تھے۔ متعلقہ وزیروں کو پھانسی پر چڑھا دیتے تھے۔
قارئین دعا کریں کہ وفد کو سہسرام اور دہلی کے ویزے مل جائیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“