ساحر ؔاور جادو! برصغیرکی دو ممتاز ادبی شخصیات کی ان کہی کہانی
یہ ساحرؔ کے میت اُٹھنے سے پہلے کی بات ہے۔ میں بات جادو کی سنا رہا ہوں اور ذکر ساحرؔ لدھیانوی کا۔ جادو اور ساحرؔ کا رشتہ بڑا عجیب تھا۔ جادو، جاوید اختر کا نک نام ہے (لاڈ کا نام) مزاج شاعرانہ بھی ہے، باغیانہ بھی… پوری PEDIGREE ہی ایسی ہے۔ باپ جاں نثار اختر، ماموں مجازؔ اور سسر کیفی اعظمی…! باپ کی عزت تو کبھی کی نہیں اس نے، کوئی غصہ تھا۔ ناراضی تھی ،جو جادو کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی۔ اپنے باپ کے خلاف۔ ماں کے جیتے جی تو برداشت بھی کرلیا کرتا تھا، لیکن ان کے گزر جانے کے بعد ، بات بات پر گھر سے نکل جایا کرتا اور سیدھا ساحرؔ کے ہاں جا پہنچتا۔ اس کی شکل دیکھتے ہی ساحر بھی سمجھ جاتے تھے کہ پھر باپ سے جھگڑا کرکے آیا ہے، لیکن وہ بالکل ذکر نہ کرتے اس بات کا۔ جانتے تھے پہلے تو جادو بھڑک اٹھے گا اور پھر رو پڑے گا۔ دونوں حالتوں میں اس کو سنبھالنا مشکل کام تھا۔ تھوڑا سا وقفہ دے کر کہتے ’’جادو، چل آ، ناشتہ کرلے‘‘اور ناشتہ کرتے کرتے جادو خود ہی بول بال کر بھڑاس نکال لیتا اور بسورتا ہوا وہ دن انہیں کے ہاں کاٹ دیتا، مگر کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ ساحر اسے آگاہ کردیتے ’’اختر آرہا ہے۔ دوپہر کے کھانے پر‘‘جادو نظر اٹھا کر دیکھتا کہ یہاں بھی چین نہیں ہے۔ اس کا بس چلتا توساحرؔ کے سامنے ہی کہہ دیتا ’’یہ باپ، ہرجگہ! ہر وقت کیوں…؟‘‘۔ جادو بیٹا جاں نثار اختر کا تھا اور مزاج اپنے ماموں مجاز کا۔ بہت جذباتی اور بہت غصیلا….. ساحرؔ نے اسے بیٹے کی طرح پالا اور دوست کی طرح سنبھالا۔ ساحرؔ کہتے ’’جادو، ایروز میں بہت اچھی پکچر لگی ہے یار۔ وہ کیا نام ہے اس کا …..جاکر دیکھ کے آ…‘‘اور اس طرح وہ باپ بیٹے کا سامنا ہونے سے بچا دیتے۔ بڑا انوکھا رشتہ تھا ساحرؔ اور جادو کا۔ ایک بار وہ ساحرؔ کے گھر سے بھی نکل گیا۔ ’’آپ ہی نے زیادہ سر چڑھا رکھا ہے میرے باپ کو۔‘‘ساحر ہنس پڑے تو جاوید نے کہا۔’’میرا باپ بھی اسی طرح ہنستا ہے مجھ پر۔ مجھے نہیں چاہیے کوئی بھی۔ نہ وہ، نہ آپ۔‘‘اور لڑکے گھر سے نکل گیا۔ کچھ دن غائب رہا۔ خودداری بہت تھی۔ ناک بہت اونچی تھی اور مزاج اس سے بھی اونچا۔ پتہ نہیں کہاں سویا اور کہاں کھایا….! کمال صاحب (کمال امروہی) کے پروڈکشن منیجر سے دوستی تھی۔ اس ساتھ ہی شام گزار دیتا اور رات کو وہیں سٹوڈیو ، پروڈکشن سٹور میں جاکر سو جاتا۔ اس سٹور میں جہاں ہر طرح کا پروڈکشن کا سامان بھرا ہوا تھا۔ میناکماری کے دو فلم فیر ایوارڈ کی ٹرافیاں بھی پڑی تھی وہاں۔ وہ ایک قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو ٹرافی پیش کرتا ، پھر یہ ٹرافی ریسیو کرتا، پھر حاضرین کی طرف سے تالیاں بھی بجاتا، اور پھر جھک کر لوگوں کا شکریہ بھی ادا کرتا۔ یہ واقعہ جاوید نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ تقریبا‘‘ ہر روز سونے سے پہلے یہی ریہرسل کرتا تھا۔ کئی دن گزارے اس نے اسی اسٹوڈیو میں۔ پھر جب ساحرؔ گھر پر نظر آیا تو منہ اترا ہوا تھا۔ صورت سوکھی ہوئی تھی۔ ساحرؔ نے لاڈ سے بلایا ،لیکن جادو کا غصہ ابھی اترا نہیں تھا۔ ’’صرف نہانے کے لیے آپ کا غسل خانہ اور صابن استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کو گراں نہ گذرے تو…..‘‘ ’’ضرور…‘‘ساحرؔ نے اجازت دی پھر کہا ’’کچھ کھالو۔‘‘ ’’کھالوں گا کہیں بھی۔ آپ کے یہاں نہیں کھانا ہے مجھے…‘‘ جب نہا کر آیا تو ساحرؔ ڈریسنگ ٹیبل پر ، ایک سو روپے کا نوٹ رکھ کر، مسلسل اپنے بالوں میں کنگھی کئے جارہے تھے۔ اور الفاظ تلاش کررہے تھے کہ جاوید سے کیسے کہا جائے کہ سو روپے رکھ لو….جاوید کی خودداری سے ڈرتے بھی تھے ، عزت بھی کرتے تھے۔ آخر ڈرتے ڈرتے کہہ دیا۔’’جادو !یہ سو روپے رکھ لو میں تم سے لے لوں گا!‘‘ سور وپے اس زمانے میں بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ سو کا نوٹ تڑوانے کے لئے بھی لوگ بینک میں جاتے تھے یا پٹرول پمپ پر۔ جادو نے یوں لیا نوٹ جیسے ساحرؔ پر احسان کررہا ہو۔’’رکھ لیتا ہوں۔ لوٹا دوں گا، جس روز تنخواہ ملے گی۔‘‘ جاوید، شنکر مکر جی کے ساتھ اسسٹنٹ لگ گیا تھا، جہاں اس کی ملاقات سلیم خان سے ہوئی تھی۔ بہت کمایا اس کے بعد اس نے، لیکن وہ سو روپے اس نے کبھی واپس نہیں کئے۔ ہزاروں کمائے، لاکھوں بھی آئے، پر ہمیشہ یہی کہا ساحر ؔسے ’’آپ کا سو روپیہ تو میں کھا گیا۔‘‘ ساحرؔ بھی ہمیشہ کہتے ’’وہ تو میں تم سے نکلوا لوں گا بیٹا۔‘‘ یہ نوک جھونک ساحرؔ اور جادو میں آخر تک چلتی رہی۔ اور دوستی بدستور قائم رہی۔ ساحرؔ کے بہت زیادہ دوست تو نہیں تھے ،لیکن وہ دوست پرور انسان تھے اور شام کو پینے کے بعد لوگوں کی ایسی تیسی کردیا کرتے تھے۔ جن دنوں کرشن چندر والے مکان میں رہتے تھے، ان کے پرانے دوست اوم پرکاش اشک برسوں ان کے ساتھ رہے۔ ایک بار میرے سامنے ہی اشک صاحب نے کہا تھا پنجابی میں: ’’ساحرؔ! پینے کے بعد تو گالی گوچ پر کیوں اتر آتا ہے؟‘‘ ساحر ؔنے پنجابی میں ہی جواب دیا تھا۔’’یار اس کے ساتھ کچھ چٹپٹا بھی تو چاہیے نا یار۔‘‘ساحر ؔکے دوستوں میں ایک ڈاکٹر کپور بھی تھے، جو خود دل کے مریض تھے مگر ساحر ؔکے معالج۔ ساحر کہا کرتے تھے۔’’کپور، میں دیکھنے آؤں تجھے، یا خود کو دکھانے آؤں؟‘‘ اس شام ….. اس آخری شام بھی یہی ہوا! اتنے برسوں میں ، ساحر اپنا مکان بنوا چکے تھے…! ڈاکٹر کپور، ورسوا کے ایک بنگلے میں منتقل ہوگئے تھے۔ جادو ایک بہت کامیاب رائٹر ہوچکا تھا۔ اس شام ساحر ڈاکٹر کپور کو دیکھنے گئے تھے۔ خبر ملی کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ ہارٹس سپیشلسٹ ڈاکٹر سیٹھ انہیں دیکھنے آرہے ہیں۔ شاید راما نند ساگر بھی تھے وہاں یا بعد میں آئے۔ ساحرؔ نے کپور صاحب کا جی بہلانے کے لئے تاش منگوائی او رانہی کے بستر پر بیٹھ کے کھیلنے لگے۔ پتے بانٹتے بانٹتے اچانک ڈاکٹر کپور نے دیکھا ، ساحر کا چہرہ سخت ہوتا جارہا ہے۔ شاید درد دبانے کی کوشش کررہے تھے۔کپور نے پکارا:’’…ساحرؔ….!‘‘اور اس کے ساتھ ہی ساحر ؔاس بستر پر لڑھک گئے۔ ڈاکٹر سیٹھ داخل ہوئے۔ بہت کوشش کی دل کو بحال کرنے کی، لیکن ساحرؔ جاچکے تھے۔ ڈاکٹر کپور کی گھبراہٹ دیکھ کر راما نند ساگر انہیں فورا’’ وہاں سے ہٹا کر اپنے گھر لے گئے۔ ساحرؔ کا ڈرائیور ، انور دوڑا آیا۔ اس نے لاش کو سنبھال لیا۔ یش چوپڑہ ان کے بہت نزدیک تھے۔ ان کے یہاں خبر کی تو وہ سری نگر گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد جاوید کو خبر کی۔ ڈرائیور نہیں تھا تو وہ ٹیکسی لے کر پہنچے اور اس ٹیکسی میں جادو، ساحرؔ کو ان کے گھر لے آئے۔ انور اور ٹیکسی والے کی مدد سے انہیں اوپر لے گئے۔ فرسٹ فلور پر، جہاں وہ رہتے تھے۔ جادو جیسے کسی سناٹے میں تھا، لیکن گھر پہنچ کر وہ جس طرح رویا ہے ان کے گلے لگ کر ، زندگی میں کبھی نہیں رویا تھا۔ اس وقت رات کا ایک بجا ہوگا۔ کہاں جائے، کس کو بلائے؟ کچھ نہیں کیا جادو نے۔ اکیلا بیٹھا رہا ان کے پاس ، پاس پڑوس کے لوگ پہنچ گئے تھے۔ ایک پڑوسی نے کہا۔ ’’تھوڑی دیر میں لاش اکڑنے لگے گی، دونوں ہاتھ سینے پر لے کر باندھ دو۔ بعد میں مشکل ہوگی۔ جادو روتا رہا اور سب کچھ کرتا رہا جو لوگ بتاتے گئے، پھر صبح ہوتے ہوتے لوگوں کو فون کرنے شروع کئے۔ جیسے جیسے خبر پھیلتی گئی ، لوگ آنا شروع ہوئے۔ بیٹھنے کے لئے چادر نکالو۔ ادھر کی کرسیاں ہٹا دو۔ ادھر کا دروازہ کھول دو۔ بچوں کی طرح جادو کے آنسو بہے جارہے تھے اوروہ یہ سب کام کررہا تھا۔ میت کے انتظام کے لئے نیچے آیا تو دیکھا ٹیکسی والا وہیں کھڑا ہے۔’’اُف !بتایا کیوں نہیں؟کتنے پیسے ہوئے، تمہارے؟‘‘وہ کوئی بڑا مہذب انسان تھا۔ فوراً’’ہاتھ جوڑ دیئے۔ ’’میں صاحب…نہیں پیسوں کے لئے نہیں رکا۔ اس کے بعد کہاں جاتا رات میں.؟‘‘جادو نے جیب سے بٹوہ نکالا۔ ٹیکسی والا پھر بولا۔’’نہیں صاحب…رہنے دیجئے صاحب۔‘‘ جادو تقریبا چلّا کر بولا۔’’یہ لو…رکھو سو روپے۔ مر کے بھی نکلوا لئے روپے اپنے!‘‘ اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ یہ ساحر کا جنازہ اٹھنے سے پہلے کی بات ہے!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔