احمد بشیر، 24 مارچ 1923 – 25 دسمبر2004
ــــ
ایک دشت کی سیاحی کےبعدجمال اپنوں کےبیچ ایمن آبادلوٹا تو اس کا بڑا دل کیاکہ اپنےسامنے بیٹھے میٹرک کے دنوں کے دوست عارفہ ڈاکو ،جو اب ماتھے کی محراب والے حاجی عارف تھے، کو کہے چل یار عارفےڈاکو پرانے قبرستان میں ایک پوا مٹھے مالٹے کا پیئیں مگر گزرتے وقت کی قوت نے جو ’اشیاء کی ماہیت‘ کو تبدیل کردیتی ہے اسے باز رکھا۔ وہاں میاں جی اور چھوٹی بےبے کے پاس بیٹھ کر اسے چونکا دینے والا احساس ہوا کہ ساری عمر کی کمائی کے بعد بھی اس کے ہاتھ خالی تھے۔ اس نے کبھی ذاتی جائیداد پر یقین نہیں رکھا، ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کی اور سرکاری محکمے کی نوکری میں کبھی رشوت نہیں لی۔ مگر ایک درویشانہ اطوار والی یہ زندگی کہیں سے بھی صراطِ مستقیم سے نہ گزری تھی۔
دور کہیں سے ڈل جھیل کے ہانجی کی تان بلند ہوئی
دلو لالہ رویو، دلک حال ہاوی
(اے لالہ رخو آؤ کہ میں تمھیں دل کا حال بتاؤں)
لالی جس نے جمال کوکبھی نہ نہیں کی تھی، ’میرا دل تمہیں دیکھ کر ہاتھ سے نکل جاتا تھا مگر اس قدر کڑوی اور بدبودار شراب مجھے پلاتے ہوئے تمہیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ میرا پیٹ خالی ہے؟ میں گرمیوں میں کھیس کی بکل مارتی تھی کہ میرے پاس ایک ہی کرتہ تھا جسے تم بار بار پھاڑ دیا کرتے تھے مگر پھر بھی میں نے تمہارا دل نہیں توڑا، کبھی میں نے تم سے کچھ مانگا؟‘
نیپیئرروڈ پر محکمہ اطلاعات کی بغل میں محکمۂ صنعت کی اسسٹننٹ ڈائریکٹر آہو،
’میرا نام صابرہ سلطانہ ہے۔ سلطانہ تو میں ہوں مگر صابرہ نہیں ہوں۔‘ جمال جسے باتوں باتوں میں حرامزادی کمینی کہہ دیتا تھا۔
اسی آہو کےگھر ڈرائنگ روم میں بیٹھے جمال کو معلوم ہوا کہ اس گھر کےکتے کو بھی احترام میں بلاتے ہیں۔
’پیٹر جان دودھ پی رہے ہیں، سن کر جمال کا رنگ اڑ گیا۔ اس گھر کی لڑکی کو اس نے حرامزادی، کمینی اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب آہو چادر اوڑھ کر نماز کے لیے کھڑی ہوگئی تو جمال کو اپنے آپ سے گھِن آنے لگی۔‘
’تم نےوہ تعلق واپس لےلیا جسےمیں لذت سےدیکھتی تھی۔ حرامزادی اورکمینی تو بہت اپنائیت کی بات تھی!‘
اسی آہو کو اپنی بیوی بتا کر جمال اپنے ساتھ باتھ آئی لینڈ کےایک گھر کے سرونٹ کوارٹر میں گانا سنوانے لے گیا تھا کہ وہاں استاد بڑے غلام علی رہتے تھے، اور ایک تواضع کے بعد انہوں نے تان چھیڑی تھی
تورے نینا کجر بن کارے
اور یہی آہو جاتے سمے بصد اہتمام مگر ایک شتابی میں جمال سے اپنا ناف چموانے آئی تھی اور پھر چلی گئی۔
پھر بہت بعد کے سالوں میں مری کے پہاڑوں میں اتفاقاً مل جانے والی میجر دربارخان کی بیٹی نسیم، جسے جمال انگلش، پوئٹری اور نہ جانے کیا کیا کچھ پڑھایا کرتا تھا۔ اتنے برسوں بعد مری کی سرد رات میں نسیم ایک مہربان میزبان رہی
’تم ایک گھٹیا انسان ہو۔ راولپنڈی میں جب تم مجھ سے نیکنگ اور بریسٹنگ کرتے تھے تو مجھے اچھے لگتے تھے، مگر وقت وقت کی بات ہے۔ اب تمہارے بال سفید ہورہے ہیں اور میں بھی ایک جوان اور عزت دار بیٹے کی ماں ہوں۔ اب ہمیں خوبصورت باتیں سوچنی چاہییں۔ بدصورت چیزوں کا خیال چھوڑ دینا چاہیے۔‘
ــــ
صاحبو! 2003 کی ایک دوپہر کا ذکر ہےکراچی کے اردو بازار میں ویلکم بک پورٹ میں ایک کتاب دیکھنےکو اُٹھائی تو تو پسِ ورق پڑھ کر پیش لفظ بھی کھول لیا
’میرا دوستانہ مشورہ ہے کہ آپ اس ناول کو کہیں کہیں سے دیکھ لیں۔ اگر آپ اخلاقی آدمی ہیں تو اس ناول کو ضرور پڑھیں کیونکہ اس میں بد اخلاقی کی باتیں بہت ہیں۔‘
ہم نے جھٹ کتاب خرید لی۔