سلسلہ نبوت کے بند ہوجانے کےبعد کارنبوت کو جس جماعت نے سب سے زیادہ قربانی دیکر ثمرآور بنایا اور دنیا کے گوششہ گوشہ تک پنہچایا اور جس نے سب سے زیادہ نبوی تعلیم سے دنیا کو روشن کیا وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہے “ یہ وہ جماعت تھی جو دامن رسول میں پروان چڑھی تھی اور منبع رسالت سے خود کو سیراب کیا تھا اور اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ صحبت سر کار سے سرشار کیا تھا گلشن نبوت سے انہوں نے تعلیم و تربیت ، وفاداری وجانثاری کے ایسے پھول چنے تھے جس پھول نے دنیاۓ جہاں کو معطر کردیا آپ ﷺ کی نورانی صحبت سے ایسی روشنی حاصل کی تھی جس نے تاریک دنیا کو روشن کردیا ، ان کی آنکھوں نے چہرہ انور کو دیکھا ان کے ہاتھوں نے دست مبارک کو چھوا ان کی کانوں نے زبان رسالت سے نکلے ہوۓ کلمات کو سنا ان کے ہونٹوں نے پیشانی مبارک کو بوسہ دیا غرض کہ ان کا پورا ظاہرو باطن نور نبوت سے منور تھا ، وہ قدرو منزلت کے اس مقام کو پہنچ چکے تھے کہ بڑے سے بڑا ولی بڑے سے بڑا قطب بھی اس کے ادنی مقام تک نہیں پہنچ سکتا ، زبان رسالت ﷺ نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ اگر تم میں سے کوٸ شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تب بھی وہ میرے صحابہ کے قدموں کے دھول کے برابر نہیں پہنچ سکتا اسی لۓ کہا جاتا ہے کہ جس طرح نبوت کا دروازہ بند کردیا گیا ٹھیک اسی طرح مقام صحابیت کا دروازہ بھی بند کردیا گیا ، وہ اب ہمارے لۓ نمونہ ہے ہمارے ہادی و رہبر ہیں جیسا کہ حضور نے ﷺ فرمایا ” میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی اتباع کروگے راستہ پا جاٶ گے ، قرآن بھی اس کی قدر و منزلت کی طرف اشارہ کرتا ہے ” محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اوران کے ساتھ جو ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں ، اورآپسمیں رحم دل ہیں تم ان کو رکوع و سجود کی حالت میں مصروف دیکھو گے وہ اللہ کے فضل کے طلبگار ہیں انکی پیشانی پر تم سجدوں کے نشانات پاوگے ان کی مثال تورات و انجیل میں موجود ہے “ ”الفتح “ گویا کہ بارگاہ خدا وندی کے ساتھ ساتھ زبان رسالت سے بھی ان کے مقام و مرتبہ کی تصدیق ہو جاتی ہے “ اگر ہم صحابہ ؓ اکرام کی زمانہ نبوت سے پہلے کی زندگیوں پر غور کریں گے تو ایک عجیب سی کہانی لگتی ہے پڑھ کر کہ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اس طرح کے مقام و مرتبہ پانے والوں کی زندگی بھی کبھی اس طرح ہوگی لیکن جب انہوں نے خود کو حضور ﷺ کےحوالہ کردیا اور حضورﷺ کے دامن میں پناہ لی تو پھر دنیا کیلۓ ایک مثال بن گۓ اور وہ حضور کےایسے جانثار و وفادار ہوۓ کہ آپ ﷺ کی خاطر ہمہ وقت اپنی جان ہتھیلی میں لۓ پھرتے تھے کہ کب اشارہ ہو اور ہم اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں جانثاری کی بیشمار مثالیں ہمیں ملتی ہیں کہ آپ کی خاطر خود کوزخمی کیا اپنے ہاتھ کو شل کیا سینہ کو چھلنی کرنا گوارہ کیا آپ کی خاطر آنکھ نکل جانے کو گوارہ کیا لیکن آپ ﷺ پر کوٸ خراش آۓ یہ ان کو گوارہ نہ ہوا ، سیدنا صدیق اکبر ؓ کے ہمراہ جب ہجرت کیلۓ مدینہ تشریف لے جارہے تھے تو صدیق اکبر نے بعض مقامات پر آپ کو کاندھے پر اٹھالیا اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو کوٸ کانٹا نہ چبھ جاۓ جس سے آپ کو تکلیف ہو جب غار تک پہںچے اور دشمن کا خطرہ لاحق ہوا اور حکم ہوا کہ غار میں پناہ لی جاے تو صدیق اکبر ؓ پہلے غار میں داخل ہوۓ اور اس کو صاف کیا پھر آپ کو اندر بلایا غار میں میں ایک سوراخ تھا جس سے صدیق اکبر کو ایک سانپ نے ڈس لیا پورا بدن زہر سے تڑپ رہا تھا لیکن صدیق اکبر نے جنبش تک نہیں کی کہ کہیں آپ ﷺ کے آرام میں خلل وافع نہ ہوجاۓ ، صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس طرح کے بیشمار واقعات صحابہ کی جانثاری و فاداری اطاعت شعاری ایثار وقربانی کی کتابوں میں موجود ہیں جس کا احاطہ اس مختصر سی تحریر میں مشکل ہے ، یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے ہے کہ صحابہ ؓ کی جماعت وہ مقدس جماعت ہے جن کو مغفرت کا پروانہ دنیا ہی میں مل گیا جن کے مقام و مرتبہ کی تصدیق قرآن نے کردی اور ” رضی اللہ عنہ ورضورا عنہ “ کا خطاب عطا کیا ، زبان رسالت نے جن کے بارے میں یہ کہا کہ میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو اور مزید فرمایا کہ جس نے میرے صحابہ کو تکلیف پنہچای اس نے مجھے تکلیف پنہچای ، جن کے بارہ میں جمہور کا عقیدہ ہے کہ ” الصحابہ کلہم عدول “ لہذا روایت حدیث میں اصطلاحات ان سے نہیں بنایا جاے گا جن کی پاکی و صفاٸ تواتر کے ساتھ چلی آرہی ہے اب اگر ان ناموس روحوں پر کوٸ تبرا کرے ان کی شخصیات کومجروح کرنے کی کوشش کرے ان کی شان میں گستاخی کرے تو اس کو اپنے ایمان کی خیر منانا چاہۓ کیوں کہ صحابہ اکرام کی شان میں نازیبا کلیمات کہنا بلکہ ان کے بارے میں کسی قسم کی غلط بات کا تصور کرنا بھی ایمان کیلۓ خطرہ ہے ، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں لیکن دوسری طرف یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ ان کو مغفرت کا پروانہ مل چکا ہے ان کے گناہوں کی بخشش کردی گٸ ہے اب وہ ہمارے لۓ نمونہ ہیں وہ ہماری زندگی کا معیار ہیں ان ہی کے راستہ پر چل کر ہم منزل پا سکتے ہیں ، وہ سرکار کے دلارے ہیں ان کے لاڈ لے ہیں ان کی آغوش میں پروان چڑھے ہیں ان کی تعلیمات کی خاطر بلکہ یوں کہا جاۓ کہ ہماری ایمان کی خاطر انہوں نے جو قربانیاں دی وہ ہم بھلا نہیں سکتے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ برحق ہیں وہ عادل ہیں جو ان کو گالی دے ان کی شان میں گستاخی کرے وہ ناصبی ہیں ہم ان پر ہزارہا درود ببھیجتے ہیں اور سو جانیں نچھاور کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا وند ہر فتنہ پروروں کی فتنہ پروری سے ان کی حفاظت کرے اور ان پر افترا کرنے والوں کو ہدایت دے “
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...