(Last Updated On: )
پروفیسر صغیر افراہیم ہمارے عہد کے چند اہم لکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ میں نے نقادوں کی جگہ پر لکھنے والوں اس لیے کہا کہ وہ صرف نقاد نہیں ہیں، افسانہ نگار ہیں، مدیر ہیں، مترجم ہیں—-اور بھی بہت کچھ ہیں۔ ان کی وہ ادبی فعالیت و عملیت بھی شامل ہے جو اُن کو اردو حلقہ میں مصروف رکھتی ہے اور محبوب بھی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ محقق اور نقاد زیادہ ہیں، بلکہ بنیادی طور پر نقاد ہی ہیں اور وہ بھی فکشن کے نقاد۔
اردو میں ادب و تنقید کے معاملات کچھ عجیب سے رہے ہیں۔چند دہائیوں قبل تک ادب کامطلب شاعری اور شاعری کامطلب غزل گوئی ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ شاعری کی ہی تنقید ہوتی اور اسی لیے اس کی گرامر کو شعریات کہا جانے لگا۔ داستان،ناول، افسانے دل بہلانے ، وقت گزارنے والے معمولی قصے کہانی کے طور پر لیے گئے۔ جب شاعری کے مقابل فکشن کی ہی کچھ اہمیت نہ ہوتو پھر فکشن کی تنقید کو مقام و پہچان کس طرح مل سکتی ہے۔ لیکن داستان سے افسانہ تک کے طویل، کامیاب اور با مقصد سفر اور اس سفر کی انسان اور انسانی معاشرہ سے گہری جذباتی ، تہذیبی اور ثقافتی وابستگی نے چندنقادوں کو اس جانب سنجیدگی سے متوجہ کیا اور بہت کچھ سوچنے سمجھنے اور لکھنے پرمجبور کر دیا۔ امریکی نقادمشل ضرافہ نے لکھا ہے کہ ادب میں جو صنف سب سے زیادہ سماج کے اندر سے گزرتی ہے اور گہرائی میں جاتی ہے وہ ناول ہے۔ یہی وجہ ہے سماجی اور معاشرتی زندگی کے جو نرم گرم حقائق فکشن میں نظر آتے ہیں شاعری میں نہیں۔ شاعری میں تو بس اس کا عطر یا قطرہ ہی جھلک پاتا ہے۔ فکشن میں یہ قطرہ دجلہ بن جاتا ہے اور دجلہ میں فنکاری یا وسعت و پھیلاؤ میں صنعت گری کساؤ کے مقابلے شاید زیادہ مشکل ہوا کرتی ہے۔ اس بات کا بھی نازک اور گہرا احساس بہت دیر میں ہوا جب وقارعظیم نے فردوس بریں کے سب سے خراب کردار شیخ علی وجودی پر غیر معمولی مضمون لکھا اور اُسے ولین سے ہیرو بنا دیا۔ جب حسن عسکری نے کرشن چندر پر بے مثال مضمون لکھا اور رومانیت کے ڈانڈے حقیقت سے ملائے۔ جب احتشام حسین نے خوجی پر معرکۃ الآرا مضمون لکھ کر کردار کو تاریخ و تہذیب کے آئینہ میں دیکھنے کا ہُنر سکھایا۔ جب ممتاز شیریں نے’’ معیار‘‘ میں بے حد معیاری مضامین لکھے اور مغرب میں فکشن کی قدر و قیمت کا احساس دلایا۔ جب خورشید الاسلام نے امراؤ جان اداؔ ناول پر یاد گار مضمون لکھ کر ایک بے جان معاشرہ کو جاندار کردار بنا دیا۔ جب گوپی چند نارنگ نے افسانہ کی بوطیقا تیار کردی۔ جب وارث علوی نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ناول بن جینا کوئی جینا ہے اور اردو شاعری کے صنم کدے کے مقابل فکشن کا بت خانۂ چیں تعمیر کر ڈالا۔ کچھ اس انداز اور شان بان سے کہ شمس الرحمن فاروقی جیسا شاعری کا ثقہ نقاد بھی افسانے کی حمایت میں اُتر آیا۔ جب قمر رئیس نے پریم چند شناسی کا بگُل بجایا جس کی گونج دور دور تک پہنچی اور فکشن کی تنقید کا ایک نیا باب روشن ہو گیا اور پھر اسی سلسلے کو اپنے اپنے اندازِ نظر سے مہدی جعفر،شمس الحق عثمانی،علی احمد فاطمی، بیگ احساس،خالد اشرف،ارتضیٰ کریم وغیرہ نے آگے بڑھایا——-اسی سلسلے کی مضبوط کڑی ہیں صغیر افراہیم جنھوں نے نہ صرف فکشن کی تنقید کو ہی اپنی تحریر و تنقید کا محور و مرکز بنایا بلکہ پریم چند شناسی کو نئے ابعاد و نئے آیام دیے۔ وہ جب طالب علم ہی تھے تبھی ۱۹۸۷ء میں اُن کی کتاب’’ پریم چند———-ایک نقیب ‘‘ منظرِ عام پر آگئی جو بے حد مقبول ہوئی۔کتاب لکھی تو گئی تھی ذہین طلبا کے لیے لیکن جب قاضی عبدالستار جیسے ممتاز فکشن نگار اور سینئر استاد نے پڑھی تو کہا کہ یہ ایک بنیادی کتاب ہے جس سے صرف طالب علموں کو ہی نہیں بڑوں کو بھی فیض پہنچے گا اور تحقیق کے لیے باب وا ہوں گے۔ اس کے بعد صغیر افراہیم نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا اور مسلسل فکشن پر کام کرتے رہے اور پُرانے فکشن کی نئی قرأت کرتے رہے۔ نئی سمجھ، نئی تفہیم اور نئی تنقید کی کئی دہائیوں کی ریاضت و محنت نے آج صغیر افراہیم کو معتبر و موثر نقاد بنا دیا۔ ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف صغیر افراہیم کی زیادہ تر کتابیں فکشن کے مختلف موضوعات پر ہی ہیں۔ تازہ ترین کتاب خالصتاً پریم چند پر لکھے گئے تیرہ مضامین پر مشتمل ہے جس میں تحقیق و تنقید کا اعلیٰ معیار ہے۔
ادب کے ایک حلقہ سے اکثر یہ آواز آتی ہے کہ پریم چند اب پُرانے ہو چکے ہیں۔ ان کے ناول اور افسانے اور اُن کے موضوعات سبھی کچھ پرانے ہو گئے ہیں۔ اب ان کی کوئی افادیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس لیے کہ اب وہ مزدور ، کسان اور نہ وہ دیہات و قصبات۔ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس لیے اب پریم چند کار آمد نہیں رہے اور کار آمد نہیں رہے تو عظیم بھی نہیں رہے۔ یہ الزام اکثر مخالفین پریم چند یا مخالفین ترقی پسند لگاتے رہے ہیں۔ یہاں میں اس کا جواب نہیں دوں گا اس لیے کہ مجھے صغیر افراہیم کی پریم چند شناسی پر گفتگو کرنی ہے اور سچ پوچھئے تو پریم چند سے متعلق صغیر افراہیم کی تحریر و تنقید خود اس کا مدلل جواب ہے ۔ تاہم ایک بزرگ نقاد پروفیسر شارب ردولوی کی ایک مثال پیش کرکے آگے بڑھوں گا۔ شارب ردولوی نے اپنے ایک مضمون ’’پریم چند کل، آج اور کل‘‘ کی ابتدا میں ہی لکھا ہے :
’’اکیسویں صدی نے جس اہتمام اور مہتم بالشان طریقے سے پریم چند کا استقبال کیا اس طرح کسی دوسرے شاعر یا ادیب کا استقبال نہیں ہوا۔ ان چند ابتدائی برسوں میں کلیات پریم چند کی اشاعت کے بڑے کارنامے کے علاوہ جتنے مضامین پریم چند کے فکر و فن پر لکھے گئے کسی دوسرے شاعر یا ادیب کے بارے میں نہیں لکھے گئے ہوں گے۔‘‘
(ایوانِ اردو،جولائی ۲۰۰۶ء)
کچھ سچائیاں اور بھی ہیں جن پر پھر کبھی گفتگو کی جائے گی۔
——-
پریم چند پر اس کتاب کو ترتیب دیتے ہوئے خود صغیر افراہیم نے بھی ابتدا میں کہا:
’’پریم چند ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں—– فکر و فن کے کئی پہلو ایسے ہیں جو آج بھی توجہ کے مستحق ہیں—–‘‘
دیکھنا یہ ہے کہ مصنف نے فکر و فن کے کِن پہلوؤں پر گفتگو کی ہے جس کی آج بھی افادیت و معنویت باقی ہے۔ پیش لفظ کے آخر میں وہ یہ بھی کہتے ہیں:
’’پریم چند کی شخصیت اور فکر و فن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر اس کمی کا بھی احساس ہوتا رہا ہے کہ ان کی تمام تخلیقات کسی ایک کتاب میں مکمل طور پر یکجا نہیں ہونے پائی ہیں جن حضرات نے اس جانب توجہ دی بھی ہے تو تاثراتی اور معلوماتی انداز غالب آگیا ہے۔ فنّی نکات پر بھر پور انداز میں مجموعی طور پر مختلف پہلوؤں پر بات نہیں ہونے پائی ہے۔ مختلف پہلو سے مُراد ان کی افسانہ نگاری، ناول نویسی ، ڈراما،خاکہ ، انشائیہ، مضامین، مکاتیب، تبصرے، اداریے وغیرہ شامل ہیں کیونکہ پریم چند نے نثر کی تقریباً ہر صنف میں کمالِ فن دکھایا ہے۔‘‘
دیکھنا یہ بھی ہے کہ ان مضامین میں اَن چھوئے موضوعات پر گفتگو زیادہ ہے یا ان پہلوؤں پر جس کا رشتہ آج کی سماجی حقیقت،معنویت اور ضرورت سے استوار ہوا ہے۔
——-
کتاب کا پہلا مضمون پریم چند کے فکری پس منظر سے متعلق ہے۔ یہ مضمون تحقیقی نوعیت کا زیادہ ہے اس لیے کہ تحقیق ماضی کی بات کرتی ہے اور تنقید حال کی۔ مضمون میں انیسویں صدی کی سماجی اور اصلاحی تحریکات پر گفتگو زیادہ ہے۔ ہر چند کہ ان تحریکات اور پس منظر پر گفتگو ہوتی رہی ہے اس لیے اس میں نئے پن کی تلاش بے سود ہوگی تاہم صغیر افراہیم نے نئے گوشے تلاش کیے ہیں، اور کرنے بھی چاہئیں کیوں کہ پریم چند جیسے بڑے سماجی حقیقت نگار،مصلح اور مفکر کو ایک وسیع سیاق و سباق میں ہی سمجھا جا سکتا ہے اور اس لیے بھی کہ بیسویں صدی کی پُشت پر انیسویں صدی کا بوجھ تھا بقول علی سردار جعفری ؎
عمرِرواں کی پُشت پر عمرِرواں کا بار ہے
کل بھی وہ بیقرار تھی آج بھی بیقرار ہے
ہر چند کہ مضمون نصابی نوعیت کا زیادہ ہے لیکن اس نصاب سے بھی مصنف نے فکر کی جو راہ نکالی ہے اور جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کا اندازہ ان جملوں سے کیا جا سکتا ہے:
’’پریم چند کی عظمت اس میں مضمر ہے کہ انھوں نے تاریخ و تہذیب کے دریچوں سے گزر کر فلاحی اثرات قبول کیے ہیں۔ قدیم کہانیوں اور رائج قصوں کے فعال کرداروں کو عصرِ حاضر کے قالب میں ڈھالا ہے۔‘‘
مصنف نے ان افسانوں، ناولوں بلکہ کرداروں اور ان کے مکالموں تک کی نشاندہی کی ہے جو اس عہد کی تحریکات سے متاثر ہوکر لکھے گئے ہیں۔ تحقیق کا یہ انداز اور تنقید کا یہ رویہ گفتگو کو اعتبار بخشتا ہے اور تنقید معروضیت و حقیقت کے قریب آنے لگتی ہے اور صغیر از خود کبیر بننے لگتا ہے۔ اس وقت خاص طور پر جب تحقیق و تنقید شیر و شکر ہوکر اس عطر کو تلاش کر لیتی ہے جس کی خوشبو تخلیق میں تحلیل ہو گئی ہے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ تفہیم پریم چند کے لیے صرف علم و عقل کی جستجو کافی نہیں بلکہ انسانی و زمینی خوشبو کو بھی محسوس کرنے کی ضرورت ہے جو پریم چند کی تخلیقات میں رچی بسی ہے۔ یہ مقالہ بے حد صاف ستھرے لہجے اور موثر انداز میں انیسویں صدی کی کہانی سموئے ہوئے ہے اور حقیقت کی نشانی بھی۔
دوسرا مقالہ ’’پریم چند بحیثیت ناول نگار‘‘ کے عنوان سے مرقوم ہے جس میں ۱۹۰۱ء سے لے کر ۱۹۳۶ء کے درمیان لکھے گئے ناولوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں کہیں کہیں وضاحتی انداز آگیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مضمون نویسی کے لمحۂ مخصوص میں ، لا شعور میں طلبا کا دخل زیادہ ہے اس لیے کہ صغیر افراہیم مقبول استاد بھی ہیں اور طلبا کے درمیان مشہور و محبوب بھی لیکن جہاں جہاں وہ تعارفی سے زیادہ تعقبی (Probing)اور تنقیدی ہونے لگتے ہیں تو ایسے بلیغ جملے بر آمد ہوتے ہیں:
’’ودھوا آشرم یا سیوا سدن کے قیام سے طوائف کی درماندگی کا حل نہیں نکل سکتا بلکہ اس کے لیے سماجی فکر کو بدلنا ہوگا —–‘‘
یہ بدلاؤ معنی خیز ہے جس پر آج بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ در اصل پریم چند کا تخلیقی پھیلاؤ اسی بدلاؤ کا متمنی ہے جسے مصنف نے اشاراتی انداز میں جا بجا پیش کیا ہے۔ میدانِ عمل کے بارے میں اُن کے یہ خیالات:
’’ہمت، حوصلہ اور جذبہ کو مذکور ناول میں اس طرح اُبھارا جاتا ہے کہ غیر انسانی سلوک پرسبھی کردار تلملا اُٹھتے ہیں —– یہ ناول کے فنّی نظام پر گرفت ہی کا صلہ ہے کہ نہ صرف خلق کردہ قومی اور اصلاحی جوش میں نظر آتے ہیں بلکہ یہ کیفیت قاری پر بھی طاری ہو جاتی ہے —–‘‘
غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک کل کے مقابلے آج کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔ ہم سب کو اس کا گیان تو ہے لیکن دھیان نہیں۔ آج کے ناول نگاروں کو بطور خاص، اس لیے کہ ان کے پاس پریم چند کی سی اُڑان نہیں اور نہ ہی فکر و وجدان۔ یہ بات بھی اشاروں اشاروں میں چھنتی چلتی ہے اور یہ بھی کہ پریم چند کے بیشتر ناول اجتماعیت کو سموئے ہوئے خالص سماجی مسائل کو لے کر چلتے ہیں جس سے ایک بڑا طبقہ متاثر ہو رہا تھا اور ہندوستانی معاشرہ بھی۔ گؤ دان کے حوالے سے یہ جملہ دیکھئے:
’’نو آبادیاتی نظام کا اودھ،لکھنؤ کا قرب و جوار گؤ دان کے منظر و پس منظر پر اُبھرتا ہے۔ ہوریؔ یہاں ایک مفلوک الحال کسان ہے، رفتہ رفتہ اس کسان کی تصویر ہندوستانی کسانوں کی نمائندہ بن جاتی ہے جس میں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کے کسانوں کی سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی زندگی کے تمام نقش و نگار اُبھر آتے ہیں۔‘‘
تنقید و تحقیق کا یہ وسیع اندازِ فکر تخلیقی تفہیم کی کشادگی اور امکانی وسعتوں کو اُجاگر کرتا ہے اور کتابی نوعیت کی تنقید کو نصاب سے نکال کر ملک و معاشرہ، حیات و کائنات سے جوڑ دیتا ہے اور تنقید از خود قد آور ہو جاتی ہے۔ یہ قد آوری اور قدر شناسی صغیر افراہیم کے بیشتر مضامین میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ خاص طور پر گؤ دان کے تفصیلی جائزہ میں۔ اس لیے کہ جملہ ناولوں کا اجتماعی تجزیہ اور کسی ایک ناول کا انفرادی مطالعہ بہر حال فرق تو رکھتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ممتاز حسین جیسے مارکسی نقاد کے خیالات سے گفتگو کا آغاز ہو۔ اس سے مضمون کا رُخ اور ٹون (Tone)ہی بدل جاتا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ گؤ دان جیسے بڑے اور پھیلے ہوئے ناول کو اردو میں جس طرح مارکسی نقادوں (احتشام حسین، ممتاز حسین، محمد حسن، قمر رئیس وغیرہ) نے سمجھا ہے ۔ جدید نقاد کی رسائی وہاں تک ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ گؤ دان جیسے ناول کو لکھتے ہوئے پریم چند خود فکرو نظر کی بلندی پر پہنچ چکے تھے جہاں اُن کا ابتدائی آدرش واد گاندھی واد سے ہوتا ہوا ’’انگارے‘‘ کی گرماہٹ کو محسوس کرتا ہوا سوشلزم اور مارکسزم تک پہنچتا ہے ۔ اس ناول میں بقول احتشام حسین اپنی ساری زندگی کا مشاہدہ اور تجربہ سمو دیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ صغیر افراہیم کے ذہن میں پریم چند کا یہ ذہنی و فکری سفر ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ اسی لیے گؤ دان کا جائزہ لیتے وقت وہ عنوان میں ہی واضح اشارہ کر دیتے ہیں۔’’ گؤ دان، انسانی زندگی کے تضاد اور تصادم کا علامتی اظہار‘‘ اس عنوان میں اگر اعتراض کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے تو وہ ہے علامتی اظہار۔لیکن خیر اس لیے کہ تنقید میں بھی علامت ہوتی ہے۔ اسی لیے بعض بڑے نقاد تنقید کو تخلیق در تخلیق کہتے ہیں۔مندر جہ ذیل جملہ میں آپ کو تنقید کے ساتھ ساتھ تخلیق کی خوبی بھی نظر آئے گی:
’’اُن کے انداز فکر میں وسعت اور حقیقی بنیادوں پر زندگی کی پرکھ نے اس ناول کو سانس لیتی ہوئی دنیا سے ہمکنار کیا ہے۔ بلا شبہ دیہی معاشرے کے یے ان کی انتھک کوششیں بے پایاں خلوص سے گلے مل کر ہندوستانی رنگ و بو اپنے اندر سمیٹ لیتیں تو وہ گؤ دان کا روپ اختیار کرکے ہمارے ذہنوں کو مہکا جاتی ہیں۔‘‘
اور ساتھ میں یہ سنجیدہ اور بلیغ جملہ:
’’مادی حقیقتیں، روحانی عقیدوں کا تعین کس طرح کرتی ہیں یہ اُس کی ایک اچھی مثال ہے۔ ناول کا پورا پھیلاؤ گؤ اور دان دو لفظوں کے درمیان ہے اور دیہی زندگی میں گائے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ گائے کے دودھ سے گھر کے افراد پرورش پاتے ہیں اور اس کے بچھڑے کا شتکاری کا اہم ترین ذریعہ بنتے ہیں۔ مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی گائے کی موجودگی آسودگی اور روحانی سکون بخشتی ہے۔‘‘
صغیر افراہیم کا تجزیاتی انداز انھیں قصہ کہانی کو بھی پیش کرنے پر مجبور کرتا ہے تو کبھی کبھی قصہ تعارف میں بدل جاتا ہے لیکن تجزیہ کے درمیان افکار واقدار کے جو پہلو شعوری یا لا شعوری طور پر اُبھرتے چلتے ہیں وہ غور طلب ہیں، عین ممکن ہے کہ آج کی نئی تنقید اسے قبول نہ کرے اور ان پر روایتی طرز تنقید کا الزام لگائے۔لیکن یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ فکشن کی تنقید شاعری کی تنقید سے الگ ہوا کرتی ہے۔ شاعری کا دارومدار اکثر کساؤ پر ہوتا ہے اور فکشن میں خاص طور پر ناول میں پھیلاؤنا گزیر ہے اور یہ ناگزیریت تنقید میں بھی اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔ ان امور کی جھلک صغیر افراہیم کے اس مضمون میں بطور خاص ملتی ہے ۔اس مضمون میں جتنا اچھا تجزیہ ناول کا ہے اس سے زیادہ اچھا مرکزی کردار ہوریؔ کا ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ ہوریؔ ہی کی کہانی ہے بقول مصنف:
’’ہوری گؤ دان کی روح ہے۔ اس کردار کے توسط سے ناول کا آغاز ہوتا ہے اور المناک موت پر اختتام۔‘‘
وہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں اور غلط نہیں کہتے کہ:
’’اس کردار کو خلق کرنے کے لیے ہی فنکار نے ناول تخلیق کیا۔‘‘
اور پھر یہ نتیجہ بھی غلط نہیں ہے:
’’فضا، ماحول، زبان و بیان اور اُن کے برتاؤ کے اعتبار سے بھی گؤ دان اردو ناول کی تاریخ میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہوئے بیسویں صدی کا پہلا بڑا ناول قرار پاتا ہے۔‘‘
میں اعتراف کرتا ہوں کہ ادب و تنقید میں فیصلے نہیں ہوتے صرف رائے ہوتی ہے۔ یہاں بھی مصنف کی رائے ہی ہے لیکن اگر رائے میں منطقی استدلال اور فکر و خیال کا جمال موجزن ہو تو وہ فیصلہ بن جایا کرتی ہے ۔ گؤ دان کے سلسلے میں تو یہ بات صد فی صد طور پر درست کہی جا سکتی ہے۔
عام خیال ہے کہ گؤ دان کے ہوریؔ کے بعد پریم چند کا دوسرا مضبوط کردار چوگانِ ہستی کا سور داسؔ ہے جس کے بارے میں قمر رئیس نے لکھا تھا:
’’چوگانِ ہستی (۱۹۲۴ء) کا مرکزی کردار سور داسؔ ایک سچا ستیہ گرہی ہے۔ وہ ایک بھکاری ہے لیکن آہستہ آہستہ ستیہ گرہ کے عقیدہ نے اس کے وجود میں بے پناہ اخلاقی قوت پیدا کردی ہے۔ گاندھی جی نے ایک سچے ستیہ گرہی کی جو تصویر پیش کی ہے سور داسؔ اس کی عملی تفسیر ہے۔ ‘‘
غالباً اسی لیے صغیر افراہیم نے بھی اسے عدم تشدد کی استقامت کا استعارہ کہا ہے اور اسی خیال کو اِس مضمون میں وسعت دی ہے ۔ مضمون کی ابتدا عمدہ طریقہ سے ہوتی ہے:
’’ادیب زندگی کو ایک خاص نظر سے دیکھتا ہے اور اُس کے ظاہری و باطنی اعمال و افعال،حرکات و سکنات کو اپنے مطالعے اور مشاہدے کے توسط سے پیش کرتا ہے۔ وہ زندگی کی نبض کو ٹٹولتا ہے۔ تاریخی حقائق پر نظر رکھتا ہے۔ تغیر پذیر معاشرے اور تبدیل ہوتی ہوئی قدروں کا جائزہ لیتا ہے اور اپنی تخلیقی فطانت کو بروئے کار لاکر ان کا فنّی رویا خلق کرتا ہے۔‘‘
اور مضمون ختم ہوتا ہے ان جملوں پر:
’’سور داسؔ عدم تشدّد پر یقین رکھتا ہے، ظلم سہتا ہے اور صبر و قناعت کا ثبوت دیتا ہے۔ اپنی محبت و مروت کے سہارے بدی کی پروردہ قوتوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس کی ہمت اور جرأت یقینا قابلِ داد ہے مگر وہ استعماری قوتوں اور فرعونی چالوں کی کاٹ نہیں رکھتا ہے اور نہ ان کے داؤں پیچ سے پوری واقفیت —–اس کے باوجود عفو و محبت کا یہ مجسمہ پریم چند کا ایک زندہ کردار اور عدم تشدّد کا ترجمان بن کر اُبھرتا ہے، یہی پریم چند کا فنّی کمال ہے۔‘‘
یقینا فنّی کمال ہو سکتا ہے لیکن سور داسؔ کے پاس کاٹ نہ ہونے کی وجہ کو مارکسی نقاد ممتاز حسین نے اس طرح دیکھا اور کہا کہ :
’’پریم چند سماجی حقیقتوں کو اس کے ارتقائی روپ میں نہیں دیکھ پاتے لیکن وہ اس کے کھلے ہوئے تضاد کو بخوبی دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔‘‘ (ادب اور شعور)
اور کردار بڑے ہوتے ہیں اپنے تضاد و تصادم سے نیز یہ بھی کہ جو کمی ممتاز حسین کو کھٹکتی ہے وہ اس کمی کو تہذیبی و گاندھی وادی اخلاقی رویوں سے پوری کرتے ہیں۔ اس حد تک کہ اس میں تزکیۂ نفس (Catharsis) کی سی خوبی آجاتی ہے اور ایک انسانی و روحانی طاقت بھی۔ سور داسؔ کے کردار کی یہی خوبی ہے کہ وہ اندھا ہوکر بھی آنکھ والوں کا سامنا کرتا ہے۔ اس کا تصادم اور اس کا اخلاقی و اصولی رویہ ہی اسے فنی عروج تک پہنچاتا ہے۔سماجی ناولوں کے کردار تلاطم، تصادم سے ہی پروان چڑھتے ہیں اور فنّی حوالوں سے عروج تک پہنچتے ہیں۔
ایک مضمون پریم چند کے افسانوں پر بھی ہے جو ’’سوزِ وطن‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور ’’کفن‘‘ تک پہنچتا ہے۔ ایک طرح سے پورے افسانوی سفر کا احاطہ کرتا ہے۔ اس مضمون میں پریم چند کے موضوعات کی رنگا رنگی، کردار کی مختلف الجہاتی، زندگی، آزادی سب کچھ سمٹ آتے ہیں۔ پامال،استحصال،جلال و جمال سب موضوع سخن بنتے ہیں اور بے مثال انداز سے بنتے ہیں۔ صغیر افراہیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ کرداروں کے حوالے سے پریم چند کے نظریات یا فکری ارتقا بھی پیش کرتے چلتے ہیں اور یہ بڑا احساس بھی ہوتا چلتا ہے کہ آسان کہانی لکھنا مشکل ہوا کرتا ہے اور ’’کفن‘‘ جیسی کہانی پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ مشکل کہانی کس طرح آسانی سے لکھی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہ کہانی جو محض کہنے سننے کی چیز تھی اور دادی نانی بچوں کو سُلانے کے لیے سُنایا کرتی تھیں ایک بڑے اور با مقصد فنکار کے ہاتھوں پہنچ کر جگانے کا کام کرنے لگیں۔ پریم چند کی یہ بیداری صرف ایک ادبی حقیقت یا نقطۂ نظر نہیں بلکہ ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کا بنیادی حوالہ ہے اور صرف ایک ادبی نظریہ یا زاویہ سمجھ کر نظر انداز کرنا اور اردو کے روایتی و تہذیبی ادبی و شعری سرمایہ سے الگ تھلگ کرنا نہ صرف پریم چند کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اردو ادب و ادیب کی محدود فکر کا بھی اشاریہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اردو میں پریم چند کو اس طرح سے نہیں پڑھا اور سمجھا گیا جس طرح سے ہندی یا ہندوستان کی دیگر زبان و ادب میں پڑھا گیا اور قبول کیا گیا۔ لیکن صغیر افراہیم کے مضامین اس تحفظ و تعصب کو توڑتے نظر آتے ہیں۔ قمر رئیس کے بعد اتنی تفصیل سے تاریخی، زمانی اور زمینی سیاق و سباق میں کم از کم اردو میں پریم چند کی تفہیم نہ کے برابر ہوئی ہے اس لیے کہ کسی ہندی کے نقاد کے خیال کے مطابق پریم چند کو آپ سمجھ نہیں سکتے اگر آپ نے ہندوستانی معاشرہ کو بالعموم اور ہندو معاشرہ کے چکر ویوہ اور اس کی ساخت و بافت کو نہیں سمجھا ہے۔ ذات پات کے نظام اور دیہات کے صبح و شام اور غریب کی سیاہ رات کو نہیں سمجھا ہے۔ اردو زبان و ادب کی معیار پرست اور نفاست پسند تہذیب و تنقید میں ان سب کا گزر تھا ہی نہیں۔ پہلی بار ترقی پسند نقادوں نے اس متھ کو توڑا اور آنچل کی جگہ پھٹی ساری،، لب و رخسار کی جگہ کٹے پھٹے ہاتھ اور روکھے پھیلے بال، کشمیر کی وادی کی جگہ کھیت باغ اوسارے کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھا اور سمجھایا۔ کیا اچھی بات قاضی عبدالستار نے کہی تھی:
’’پریم چند نے کہانی کو اُڑن کھٹولے سے اتار کر اوسارے پر بٹھا دیا۔ یہ کڑوے گھونٹ بھی حلق سے اتارلیے جاتے اگر پریم چند نے کسان مزدور اور کسان عورتوں کو کسان شہزادوں اور کسان شہزادیوں کی طرح پیش کر دیا ہوتا۔‘‘ (پریم چند کی ہجرت)
آخر کوئی تو حقیقت ہے جوکہانی ’’عید گاہ‘‘ میں خوبصورت رنگین کچے کھلونوں کے مقابلے میں بد صورت لوہے کا چمٹا دادی امینہ کا دل جیت لیتا ہے اور ننھا حامدؔ اچانک پوتہ نہیں فرشتہ نظر آنے لگتا ہے۔ یہ مارکسی جمالیات کی ایک ایسی حقیقت ہے جسے پہلی بار مارکسی نقادوں نے سمجھا اورپیش کیا اور پریم چند شناسی کے حوالے سے مضبوطی سے آگے بڑھایاقمر رئیس نے۔ اس کے بعد تو پریم چند پر کام کرنے والوں کے سلسلے بڑھتے ہی گئے لیکن اس بھیڑ میں صغیر افراہیم نے اپنی انتھک محنت، سوجھ بوجھ،مطالعہ و مشاہدہ، ذہن اور وژن سے اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔ افسانہ پر لکھا ہوا اُن کا طویل مضمون خود اپنے آپ میں کتاب ہے۔ ’’کفن‘‘ سے متعلق اتنا تفصیلی جائزہ تو شاید ہندی میں بھی نہ لیا گیا ہو۔وہ اِس مضمون کے آخر میں کہتے ہیں:
’’کفن کا عمیق مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ گھیسوؔ اور مادھوؔ کے کردار غیر فطری، غیر حقیقی یا غیر انسانی نہیں ہیں بلکہ یہ پریم چند کی بے پناہ قوتِ مشاہدہ کا نتیجہ ہیں۔ دونوں کرداروں کا وجود مسلسل ناکامی ، حقارت، توہین اور تضحیک کا پتہ دیتا ہے۔ یہ دونوںکچلے ہوئے پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو بیزاری جذباتی بغاوت اور استحصالی اقدار کے تئیں منفی ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئے ہیں۔‘‘
اس طویل مضمون اور ’’کفن‘‘ کا تفصیلی اور معروضی جائزہ کو پڑھنے کے بعد یہ کہنے میں ذرا بھی تکلف نہیں کہ صغیر افراہیم نے متن کو ڈوب کر پڑھا ہے اور سمجھا ہے۔ ان کی یہ سنجیدگی اور گہرائی انھیں پریم چند شناسی کے اس وسیع میدان میں لاکر کھڑا کرتی ہے جہاں خود پریم چند کھڑے ہیں۔ کھیت میں ، کھلیان میں ، چوپال میں ، انسان میں، ہندوستان میں تنقید کا یہ واضح اور مسبوط نظریہ نہ صرف پریم چند جیسے بڑے فنکار کے ساتھ انصاف کرتا ہے بلکہ خود نقاد کا قد بھی بڑا کرتا ہے۔ کسی مغربی نقاد نے اچھی بات کہی ہے کہ عمدہ تخلیق فنکار کو بڑا بناتی ہے اور بُری تنقید خود نقاد کو چھوٹا کر دیتی ہے۔ ان تحریروں سے خود صغیر کا قد بڑا ہوجاتاہے۔ یوں بھی وہ ایک قد آور انسان ہیں، اب بطور نقاد اور پریم چند شناس اُسی قد اور قدر کے ہو گئے ہیں۔
مضامین اور بھی ہیں۔ واردات کا تجزیہ،مکتوبات پریم چند،ڈراما اور غیر افسانوی تحریرسے متعلق بھی۔ یہ سب کہ سب ان معنوں میں اچھے مضامین ہیں کہ بے حد معلوماتی ہیں لیکن یہی معلومات جہاں جہاں اوپر اٹھتی نظر آتی ہے تو علم،عقل، ذہن، وژن سب ایک صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔انھوں نے ثابت کیا ہے کہ پریم چند کو خواہ کتنا ہی سادہ اور پرانا کہا جائے لیکن اُن کی سادگی میں گہرائی تھی اور اُن کی سہل نگاری میں ژرف نگاہی تھی۔ ایک کمٹ منٹ تھا۔ سپردگی اور وابستگی کا مخلصانہ اور دانشورانہ جذبہ تھا جو فکر و فلسفہ بن کر اُن کی تخلیقات میں رچ بس گیا ،جذب و پیوست ہو گیا۔
یہ اعتراف کہ پریم چند پُرانے ہو چکے ہیں ، پُرانے تو میرؔ،نظیرؔ،غالبؔ، انیسؔ وغیرہ بھی ہو چکے ہیں لیکن سوال یہ بھی کہ پُرانے پن کے باوجود پریم چند بار بار کیوں یاد آتے ہیں۔ کیوں یاد کئے جاتے ہیں۔ کہیں دیو یندر اسّر لکھ رہے ہیں ’’پریم چند کو دوبارہ پڑھنے پر‘‘۔ شارب ردولوی لکھ رہے ہیں ’’پریم چند کل آج اور کل‘‘۔ صفدرامام قادری لکھ رہے ہیں ’’پریم چند کو کیسے پڑھیں‘‘۔ علی احمد فاطمی لکھ رہے ہیں ’’پریم چند کیوں یاد آتے ہیں؟‘‘ خود صغیر کا ایک مضمون ہے ’’باہمی اتحاد کی علامت—پریم چند‘‘۔
بات دراصل یہ ہے کہ جو ادب بڑا ہوتا ہے وہ سب کا اپنا ہوتا ہے۔ پریم چند کا ادب تو یوں اپنا ہے جیسے ہمارے اپنے ماں باپ، اپنا گھر، اپنا گاؤں۔ پریم چند کے ادب کی سب سے بڑی خوبی ان کا اپنا پن ہی ہے—–اپنا درد، اپنے رشتے، اپنے مسائل۔ جب ادب کی یہ نوعیت ہو تو ادیب صرف ادیب نہیں رہ جاتا بلکہ اپنے خاندان کا بزرگ، ایک شفیق و مہربان شخصیت سا ہو جاتا ہے کہ جس کے سایۂ عاطفت میں زندگی کی کڑی دھوپ ڈھلتی نظر آتی ہے۔ اپنی تکلیف کم ہوتی نظر آتی ہے۔ایک در د کارشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ پریم چند پر منفی تنقید وہی لوگ کرتے ہیں جو درد مند نہیں ہوتے۔ جو جذباتی نہیں ہوتے۔ جس کی تحریر و تقریر میں ہی نہیں فکر اور نفسیات میں ٹیڑھا پن اور کھردرا پن ہوتا ہے۔ چونکہ وہ کسی کے نہیں ہوتے اس لیے ان کا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ آج بھی غائب ہیں اور پریم چند موجود ہیں۔ اُن کے سرمایۂ ادب کو نئی سی نئی زندگی مل رہی ہے اس لیے کہ اس میں واقعی زندگی ہے۔کل کی زندگی اور آج کی زندگی بھی۔ ایسا اس لیے ہو جاتا ہے کہ جب فنکار زندگی کی اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں کو خونِ جگر سے اپنی تخلیق کا حصہ بناتا ہے تو وہ قدریں ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں دکھائی دیتی ہیں اور ان کی بدلی ہوئی شکل فن پارے میں نت نئے جلوے دکھاتی ہے۔ اس کے لیے زندگی کی وحدت ہی نہیں بلکہ اس کی وسعت پر بھی نظر اور یقین رکھنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ تخلیق کار جس قدر زندگی میں ڈوبتا ہے اسی قدر تخلیق میں رچتا بستا ہے۔ پھر اس کے جلوے مرکزی کردار یا خیال تک محدود نہیں رہتے بلکہ جزوی عناصر و مناظر میں بھی اپنی رمق دکھاتے رہے ہیں۔ پروفیسر شارب ردولوی نے مناسب بات کہی ہے:
’’پریم چند ہمارے زندہ رہنے والے ادیبوں میں ہیں۔ اس لیے نہیں کہ انھوں نے سماجی حقیقت نگاری سے کام لیا۔ اس لیے بھی نہیں کہ انھوں نے ہم عصر مسائل کو اپنا موضوع بنایا بلکہ اس لیے کہ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ وسیع انسانی اقدار، برابری، محبت، رواداری، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کا تصور دیا۔ انھوں نے احساس دلایا کہ حسن جھنیا، سلیا اور دھنیا میں بھی ہے اور یہ حسن ایسا ہے جو دل و دماغ پر ایک نہ مٹنے والا نقش چھوڑتا ہے۔‘‘
صغیر افراہیم کی پریم چند شناسی ادب کے اسی حقیقی ، وجودی اور افادی نظریہ کے حوالے سے اپنی اہمیت رکھتی ہے اور ان کا صاف ستھرا ذہن، پھیلا ہوا وژن کہیں بھی الجھاوے کا شکار نہیں ہوتا اور راست طور پر متن سے رشتہ رکھتے ہوئے آج سے، انسان سے اور زندگی سے رشتہ جوڑتا ہے اور یہ جو ان دنوں نئی قرأت کا سلسلہ چل پڑا ہے وہ جو بھی ہو اور جیسا بھی ہو، اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہر فنکار اپنے اتحادِ فکر و فن (Association of Ideas)کے ساتھ تخلیق پیش کرتا ہے اور ہر نقاد(قاری بھی) اپنے اتحادِ فکر و فن کے ساتھ قبول کرتا ہے، سمجھا ہے، تجزیہ کرتا ہے۔ صغیر افراہیم کی یہ گراں قدر تحریریں پریم چند شناسی کے نئے دور کی بشارت دیتی ہیں، خود صغیرافراہیم کی ادب فہمی، فکشن کی گہری نبّاضی، کردار سازی اور تخلیق کاری کے ثبوت فراہم کرتی ہیں اس لیے کہ صغیر کے خارج میں اگر نقاد ہے تو باطن میں فنکار اور افسانہ نگار بھی ہے جس نے غیر شعوری اور غیر محسوس طریقہ سے پریم چند شناسی میں بہر حال معاونت کی ہے، پھر ایک درد کا رشتہ تو قائم ہوتا ہی ہے۔ اسی لیے ان کی تنقید میں خشکی کم شگفتگی زیادہ ملتی ہے۔ اُن کی یہ کتاب نئے دور میں نئی پریم چند شناسی کی گواہی دے گی اور خواص و عوام، طلبا و اساتذہ ہر اک کے درمیان اپنا مناسب مقام بنائے گی۔ اس کا مجھے یقین ہے۔