ساغر کے عقیدت مندوں کا ایک وسیع حلقہ تھا۔ میں روزنامہ ’’ امروز‘‘ میں تھا تو کھانے کیلئے اکثر گوالمنڈی جانا ہوتا تھا۔ وہاں ریلوے روڈ والے چوک میں ایک پان فروش شفیع بٹ (استاد شفو ) کی دکان پر ساغر صدیقی کی بڑی سی تصویر لگی تھی، جس پر باقاعدگی سے ہار ڈالے جاتے تھے۔ ساغر ان کی دکان اور ساتھہ کی خادم بیکری پر بیٹھا کرتے تھے ۔
ساغر کی موت کے بعد شفیع بٹ صاحب اور ان کے ساتھی باقاعدگی سے ساغر کی برسی/ عرس مناتے رہے۔ شفو بٹ بھی فوت ہوگئے. ان کے بیٹوں نے ساغر کی تصویر دکان سے نکال دی ہے. لیکن عرس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔اب اسے ساغر میلہ کہا جاتا ہے۔ ساغر میلہ یونس ادیب نے شروع کیا تھا۔
یونس ادیب گنتی کے ان ادیبوں میں سے تھے جو کئی پشتوں سے لاہوری تھے۔ شاعری، افسانے، تحقیقی مضامین اور ریڈیو سکرپٹس کے علاوہ انہوں نے لاہور پر ایک شاندار کتاب لکھی۔ ان کے ساتھ برسوں پاک ٹی ہاؤس میں ہم نشینی رہی۔
انیس ناگی صاحب نے منٹو پر فلم بنائی تو منٹو کا کردار بابا یونس ادیب نے ادا کیا۔
بابا یونس ادیب کی ساغر سے ملاقات رہی تھی، جب تک زندہ رہے ساغر میلہ مناتے رہے ۔ان کی دعوت پر شہر کے ممتاز ادیب ، دانشور ، فنکار بلکہ خواتین بھی میانی صاحب میں جمع ہونے لگیں ۔ 1983کے ساغر میلے کے موقع کی اس تصویر میں ہجویری بھٹی، طینوش فردوس( اس وقت فریدہ قدسی ندیا)، فرخندہ لودھی، ہمایوں ، یونس ادیب، خالد محمود، قاضی جاوید، نعیم قریشی، گلوکار شوکت علی، بیدار سرمدی ، اشرف بخاری اور زاہد حسن نظر آرہے ہیں۔
لیکن پھر ایک مسٔلہ ہوا۔ باباجی کی پہلی محبت پیپلز پارٹی تھی۔ شاہ نواز بھٹو کی موت کے بعد پیپلز پارٹی شاہنواز کی برسی گڑھی خدا بخش میں منانے لگی۔ بابا جی وہاں جائے بغیر بھی نہیں رہ سکتے تھے۔مسٔلہ یہ ہوا کہ شاہنواز کی برسی بھی 19 جولائی کو ہوتی ہے ۔ باباجی نے حل یہ نکالا کہ وہ ساغر میلہ اچھے موسم میں کسی دن منانے لگے۔
19 جولائی کو دوسرے عقیدت مند بدستور مناتے رہے۔ ساغر کی قبر، دوسری قبروں کے درمیان ہے ، اس لئےکوئی مزار تعمیر کرنے کا موقع تو نہیں تھا، عقیدت مندوں نے اوپر سائبان بنادیا ہے۔ دیکھیں تصویر۔
ساغر کی موت کہاں ہوئی، اس بارے میں ظہیر احمد ظہیر صاحب کی روایت مختلف ہے۔ ان کا دعوی' ہے کہ
ساغر صدیقی کی وفات فٹ پاتھہ پر نہیں ہوئی بلکہ اپنے بڑے بھائ محمد ظفر صاحب ساکن ملک پارک لاہور کے گھر میں ہوئی(حالانکہ ساغر بتاتے تھے کہ ان کا کوئی بھائی بہن نہیں. برادرم اشرف حسن کچھ فرمائیں) ۔ ہوا یوں کہ آپ کو دو دن پہلے میو ہسپتال میں اسہال کی بیماری کی وجہ سے داخل کروایا گیا۔ آپ وہاں سے اسی حالت میں ایک دن بعد چلے آئے اور ایک ٹانگے میں بیٹھہ کر اپنے بڑے بھائی ظفر صاحب کے گھر مغرب کے وقت تشریف لائے اسی اثنأ میں اپ کا بول و براز ٹانگے میں نکل چکا تھا آپ کے بھتیجوں نے آپ کو ایک کمرے میں پہنچا دیا اورٹانگے کی سیٹوں کی دھلائی کروا دی۔ آپ نے اپنی بڑی بھاوج سے کہا کہ مجھے پیاس لگ رہی ہے ٹھنڈا پانی چاہیئے۔ وہ پانی لے کر آئیں تو آپ دنیائے فانی چھوڑ چکے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا جنازہ بھی بھائی کے گھر سے اٹھایا گیا اور میانی صاحب میں سپرد خاک کیا گیا۔
“