ساغر صدیقی کے آخری دن لاہور میں
لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ ی جولائی کے دوسر ے ہفتے کی بات ہے۔ ا دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری درواز ے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اُس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔
میں ٹریفک چیر کر اُس کی طرف بڑھا تو اُس نے دھونکی کی طرح چلتے ہوئے سانس کو روک کر مجھے دیکھا اور کہا " میں تمہں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کُرتا کیوں پہن لیا ہے؟" اور چھڑی دکھا کر بولا۔ " سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔" یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اُکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکی تو دم لے کر کفن نما سفید کُرتے کو چھو کر بولا۔
"مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔" میں نے جلدی سے پوچھا " لیکن تم ہو کہاں؟" اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اُتار کر پر ے پھینک دی اور بولا " اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔"
ٹریفک کے شور میں ساغر کی آواز ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ پھر وہ میر ے آخری سوال کا جواب دیے بغیر لوہاری کے اندر اپنے لرزیدہ جسم کو کھینچ کر لے گیا۔
رات کو مجھے دیر تک نیند نہ آئی اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔ اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا " بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑ ے کے نیچے پڑ ے ہیں۔
میں کام جاری نہ رکھ سکا اور طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔
دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔ حالانکہ سارا شہر اُسے خون تھوکتے ہوئے اس طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے لوگ روسن اکھاڑ ے میں جمع ہوں اور خونیں منظر دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہوں۔ جس میں ساغر کفن پہنے بوجھل سانسوں کے ساتھ نیم جان ہو کر اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا۔ اُس کے کفن پر خون کے دھبے اس طرح جگمگا رہے تھے جیسے خنجر بکف جلاد اُس پر ٹوٹ پڑ ے ہوں۔
اُس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارا کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔ اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھےلیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کُرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔
اُسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا؟ اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟
ساغر کو قبرستان میانی صاحب میں دفن ہوئے نو سال بیت گئے ہیں اور میں اُس کی زندگی کے بکھر ے بکھر ے مناظر ترتیب دیتے ہوئے اُس کی آخری آرام گاہ پر لگا ہوا ایک کتبہ پڑھ رہا ہوں۔ جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں۔
" عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اُس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔"
لیکن اُس کے کسی مداح نے اُس کے کتبے پر یہ الفاظ لکھوائے ہوئے ہیں " ساغر کا قاتل یہ معاشرہ ہے" اور نیچے ساغر کا یہ شعر درج ہے۔
سُنا ہے اب تلک واں سونے والے چونک اُٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
دوستو! ساغر صدیقی کی فنی عبادتوں اور اُس کی پاکیزہ شخصیت کے خدوخال لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اُس کی زندگی میں جھانک کر دیکھنا میری ہمتوں سے باہر ہے۔ شکستِ ساغر کے عنوان سے اُس کی یادوں کو ترتیب دینا میری ایسی آرزو تھی جسے میں نے برسوں سے اپنے دل میں سنبھال سنبھال رکھا ہوا تھا۔
اور جب بھی میں اُس کے بار ے میں لکھنے کے لیے قلم اُٹھاتا ہوں تو موتیوں کے پھولوں کی خشبو میر ے احساس میں پھیل جاتی ہے اور پھر اچانک ہی موتیوں کے پھول خون کے دھبوں میں بدل جاتے ہیں۔
قبرستان میانی صاحب کے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے اکثر وہ ساغر صدیقی یاد آ جاتا ہے جو برسوں پہلے مجھے اس شہر میں ملا تھا۔ گھنگھریالے بالوں، خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت چہر ے والا ساغر صدیقی اور پھر ایک تباہ حال شاعر! جس کی میت پر کوئی اپنا آنسو بہانے والا نہ تھا۔ زندگی کی المناکیوں کا ایک ایسا عنوان بن گیا جس کو لکھنے کے لیے لہو کے چھینٹے اُڑانے پڑتے ہیں۔
شکستِ ساغر ایک فرد کا المیہ نہیں اس پور ے سماج کا المیہ ہے جس سے بے رحم سرمایہ دارانہ نظام نے احساسِ درد مندی چھین لیا ہوا ہے۔ اور افراد کو ایک دوسر ے سے اس طرح الگ کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ بدترین حالتِ بیگانگیِ ذات میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔
ساغر نے تمام زندگی دار و رسن پر گزاری۔ لیکن مرنے کے بعد اُس سے زندگی کوئی بھی نہ چھین سکا۔ اُس نے تو اپنے لہو سے فکر و فن کا سنگھار کیا تھا۔ فاقوں کی سیاہ راتوں اور بے چارگی میں ڈوبی ہوئی صبحوں میں بھی اُس نے سچے خیالوں اور پُر نور جذبوں کے فانوس روشن رکھے۔
اُس نے بے گھروں کے دکھ میں اپنا گھر بنانے کے خیال کو جھٹک دیا۔ ننگے زخمی پیروں کو دیکھ کر خود تپتی ہوئی سڑکوں پر ننگے پاؤں جلتا رہا۔ برہنہ جسموں کی بے وقعتی پر سیاہ پوشی کرنے والے کے حوصلے کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ اور بھوکے معدوں کے غم میں فاقوں کے دوزخ میں جلنا اُسی کا کمال تھا۔
یہ وہ انسانی کمال ہے جو صرف آج کے بے برکت دور میں ساغر کی زندگی میں نظر آتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو صدیوں تک اُس سے اہلِ درد کی محبتوں کو زندہ رکھے گا
۔یونس ادیب صاحب کی کتاب " شکستِ ساغر" سے اقتباس۔ساغر صدیقی
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی ستاروں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔