ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا ، ”میری ماں دِلی کی تھی ، باپ پٹیالے کا ، پیدا اَمرتسر میں ھُوا، زندگی لاھور میں گزاری، میں بھی عجیب چُوں چُوں کا مربّہ ھُوں“
ساغر صدیقی خوبصورت نظمیں لکھتے ، اور پھر انہیں بلند آواز میں خالی نگاھوں کے ساتھ پڑھتے، پھر ان کاغذات کو پھاڑ دیتے جن پر وہ نظمیں لکھی ھوتیں، اس کے بعد کاغذ کے پرزوں کا ڈھیر بنا کر اسے آگ لگا دیتے-
افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر ان کے ساتھ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔
مہدی حسن سمیت کتنے ھی اپنے ضمیر کے مجرم ھیں۔ جو ان کی غزلیں ، نظمیں گاتے رھے اور داد سمیٹتے رھے اور شہرت کی بلندیوں کو چھو گئے لیکن اس درویش کی کوئی خبر گیری نہ کی کہ وہ کس حال میں ھے۔ کچھ نے تو ان کی کہی ھوئی غزلیں ادبی رسالوں کو مہنگے داموں بیچیں اور بعض تو اس حد تک چلے گئے کہ انہیں اپنے نام سے بھی چھپوا دیا۔
جب دنیا اس باصلاحیت انسان کو بھول گئی، ساغر نے بھی دنیا کو تیاگ دیا- سالوں وہ اسی طرح لاھور کی سڑکوں پر پھرتے اور سوتے رھے، لوگ انہیں فقیر یا بھکاری سمجھ کر کھانے کو کچھ دے جاتے-
حیرت کی بات یہ ھے کہ اس حال میں بھی وہ زبردست شاعری کرتے رھے حالانکہ لاغر پن اور شدید جسمانی کمزوری کی وجہ سے ان کے لیے خود اپنے مونہہ سے ایک باقاعدہ جملہ ادا کرنا ممکن نہ رھا تھا-
کئی سال تک ایک آوارہ کتا ان کا ساتھی بنا رھا ، انہیں جو کچھ کھانے کو دکان داروں سے ملتا دونوں بانٹ کر کھاتے- کتا ان کے ساتھ ھی رھتا اور ان کے ساتھ ھی سوتا، سڑک کے جس کونے کو ساغر اپنا بسترا بناتے وہ بھی وھیں پڑ جاتا-
پندرہ سال تک مارفین کے نشے ، ڈپریشن اور آوارگی کی زندگی نے آخر اپنا رنگ دکھایا چنانچہ ١٩ جولائی ١٩٧٤ء صبح کے وقت ان کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ وہ ٹھنڈ لگنے سے نیند کے دوران ھی فوت ھو گئے- ان کی عمر صرف چھیالیس برس تھی-
وہ کتا جو چھ سال تک ان کے ساتھ رھا، اس جگہ سے نہ ھلا جہاں وہ فوت ھوئے- بلآخر ساغر کی موت کے ایک سال بعد وہ بھی مر گیا ، ٹھیک اسی جگہ جہاں ساغر نے اپنی جان دی تھی-
ساغر نے غزل ، نظم ، قطعہ ، رباعی ، ھر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ھے وہ خود تو اسے کیا چھپواتے ، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور اسے معاوضے میں ایک حبّہ تک نہ دیا۔
چھ مجموعے اس کی زندگی میں لاھور سے چھپے۔ غم بہار، زہر آرزو (١٩٤٦ء)، لوح جنوں (١٩٧١ء)، اور سبز گنبد اور شب آگئی (١٩٧٢ء) ساغر کا کلام بہت جاندار ھے اور زندہ رھنے کا مستحق۔
میری نگاہِ شوق سے ، ھر گل ھے دیوتا
میں عشق کا خدا ھُوں ، مجھے یاد کیجیے۔