ساگر سرحدی ہندوستان کے اردو زبان کے افسانہ نگار، ڈراما نگار، فلم ساز، ہدایت کار، مکالمہ نویس اور اسکرین پلے رائڑ ہیں۔ ان کا اصل نام تلوار گنگا ساگر ہے۔ ان کی پیدائش 11 مئی 1933ء میں پاکستان کے خیبر پختونخوا صوبے (سابقہ صوبہ سرحد) کے شہر ایبٹ آباد کے ایک خوب صورت قصبے "بفا" (Baffa) کی ہے۔ آج کل ممبئی میں مقیم ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ " جیو جناور" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے ڈرامے "بھگت سنگھ کی واپسی"، "خیال کی دستک"، راج دربار" اور "تہنائی" بھی مشہور ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ درد ہمیشہ بامعنی اظہار کا سبب ہوتا ہے۔ ان کا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ عام انسانوں کی طرح حقیقت پسندانہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کا اصل ادبی اور فنکارانہ مخاطبہ عام انسانوں کے ادراک اور آگاہیوں کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے اور لوگوں کے ردعمل کو جانا چاہتے ہیں۔ ساگر سرحدی نے کئی ہندوستانی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے مگر ایک ایک فلم کے فلمساز اور ہدایت کار رہے۔ انھوں نے فلم اندوبھاو 1971ء، زندگی 1976ء، انکار 1977ء، کرم یوگی 1978ء، نوری 1979ء، چمل کی قسم 1980ء، فیصلے 1985ء، چاندنی 1989ء، دیوانہ 1992ء، کہو نا پیار ہے 2000ء، اور کاربار: محبت کی تجارت 2000ء کے مکالمے لکھے۔ 1982ء میں فلم " بازار" کی ہدایت کاری کے فرائص سرانجام دیے اور فلم "لوری" کے فلمساز بھی بنے۔ ساگر سرحدی نے متعدد فلموں کے اسکرین پلے بھی لکھے جن میں کبھی کبھی 1976ء، دوسرا آدمی 1977ء، نوری 1979ء، سلسلہ 1981ء، سوال 1982ء، دیوانہ 1992ء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فلم دوسرا آدمی، نوری، بازار 1982ء لوری اور دیوانہ کی کہانیاں بھی لکھیں۔ ساگر سرحدی فلم میں کاروباریت اور جنس کے منفی رجحان سے بیزار ہیں۔ وہ بامعنی سینما کے متنمی ہیں ساتھ ہی وہ ادبی جمالیاتی اور فنکارانہ رچاؤ کو فلموں میں بہتر تصور کرتے ہیں۔ شاید انھوں نے اسی سبب اپنی فلم "بازار" میں میر تقی میر، مرزا شوق، بشیر نواز اور مخدوم محی الدین کی شاعری کو جگہ دی۔ بعض دفعہ وہ متنازع بھی رہے ہیں۔ بہرحال ان کی فلموں میں ہر کردار سوچتا نظرآتا ہے اور فلم بین کو معاشرے کے حقائق پر سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔ جاوید جمال الدین کے ساتھ ساگر سرحدی نے ایک مصاحبے میں کہا تھا کہ ہمیں ممبئی کی لوکل ٹرینوں اور بسوں میں نظر آتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک خوبصورت فینسی کار یا کشادہ فلیٹ نہ خرید سکتے ہوں بلکہ ان کاکہنا ہے کہ :
"میں عام زمین سے جڑا آدمی ہوں اور حقیقت میں جینا چاہتا ہوں" ساگر سرحدی آج بھی سردار نگر سائن کوالی واڑہ کے پنجابی کیمپ میں رہائش پذیر ہیں جو انہیں حکومت نے الاٹ کیا تھا۔ ساگر صاحب اور یش چوپڑہ کے درمیان بہت اچھی ذہنی مطابقت تھی۔ اس کے علاوہ راکیش روشن کے لئے بھی انہوں نے کام کیا ۔ ساگر سرحدی کے ایک قول کے مطابق :
"دل میں جو درد رہتا ہے ، اس کی وجہ سے ایک بامعنی تحریر نکلتی ہے اور وہ ادب کا شاہکار کہا جا سکتا ہے"۔
آج ساگر سرحدی اردو افسانہ اور ڈرامہ کے ایک نامور قلمکار ہیں، لیکن باندرہ ریلوے اسٹیشن پر اندھیری ٹرین کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ :
"اردو ادب میں پہلے پیسہ نہیں تھا جس کے سبب مجھے اسٹیج اور فلموں کا رخ کرنا پڑا"۔
ان کے ڈرامے "بھگت سنگھ کی واپسی"، "خیال کی دستک"، "راج دربار" اور"تنہائی" ناقابل فراموش ڈرامے مانے جاتے ہیں۔ تنقید نگاروں کے ساتھ عام لوگوں نے بھی انہیں کافی پسند کیا۔
ساگر سرحدی دل کے بادشاہ آدمی ہیں اور بہت محبت کرنے والے انسان ہیں۔ بہت مہمان نواز اور سرحدی روایات کو بھی ابھی تک نہیں بھولے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے پشاور کے دوست صافی سرحدی نے بیان کیا ہے۔ جس سے ساگر سرحدی کے بڑے پن کا ثبوت ملتا ہے۔ صافی سرحدی کا کہنا ہے ۔۔۔۔"میری خود ذاتی بڑی خواہش ہے کہ ساگر سرحدی کو میں بفہ بلا لوں۔ کیونکہ جب ممبئی میں پاکستانی ہونے کیوجہ سے ہمیں ہوٹل میں کمرہ نہیں مل رہا تھا تب یہی ساگر سرحدی ہی تھے جنہوں نے ہماری دلی واپسی کے ارادے پر غصے سے کہا تھا کہ کیا میں مرگیا ہوں؟ کیا میں اپ لوگوں کا اپنا نہیں ہوں۔ اور پھر میں ممبئی میں ساگر سرحدی کے ساتھ گھر پر رکا۔ اور ممبئی میں انکے ساتھ رہائش کیوجہ سے میری بہت ساری خواہشات پوری ہوئیں جسکا سارا کریڈیٹ میں ساگر سرحدی کو دیتا ہوں۔ اور میں نے قملی نام (سرحدی) ساگر سرحدی کیوجہ سے اختیار کیا ہے کیونکہ اس انسان کا دل تقسیم کے بعد بھی بفہ اور صوبہ سرحد کیلئے دھڑکتا ہے۔ انہوں نے اپنی شناخت سرحد پار رہنے کے باوجود بھی ہمیشہ سرحد پار صوبہ سرحد سے کی ہے۔ اسی لیے میں نے بھی اپنی شناخت سرحدی سے شروع کی کیونکہ میرا جنم بھی صوبہ سرحد میں ہوا تھا۔ لیکن اب قوم پرستی کے نام پر وہ خوبصورت نام تبدیل کردیا گیا ہے جو کہ مجھے بلکل بھی نہیں پسند ہے۔"
اردو زبان کے مستقبل کے متعلق ساگر سرحدی کافی فکر مند ہیں اور کہتے ہیں کہ : "اردو کو بچایا جانا چاہئے ، اس زبان میں علم و ادب کا کافی ذخیرہ ہے مگر مجھے اس زبان کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے" ۔ ساگر سرحدی کی زنگی جتنی سادہ ہے اتنی ہی ساگی سے وہ اپنی تحریروں اور فلموں میں زندگی کے تلخ حقائق کو وہ بڑی مہارت اور مخصوص اظہار کے جمالیاتی زاوئیوں سے پیش کرتے ہیں۔ اردو زبان کے مستقبل کے متعلق ساگر سرحدی کافی فکر مند ہیں اور کہتے ہیں کہ : "اردو کو بچایا جانا چاہئے ، اس زبان میں علم و ادب کا کافی ذخیرہ ہے مگر مجھے اس زبان کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے" ۔۔ آجکل ساگر سرحدی علیل رہتے ہیں۔ خدا ان کو صحت دے اور سلامت رکھے۔ { پس نوشت : ساگر سرحدی کے ساتھ میری یہ تصویر ممبئی میں مںٹو کی صد سالہ جشن کے تقریب میں کھینچی گئی تھی ۔ }
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...