ہندو زادی وہ کام کر گئی جو اہلِ پاکستان میں سے کسی رجلِ رشید کو کرنا چاہئے تھا!ارن دھتی رائے‘ بھارتی قلم کار اور سوشل ورکر‘ کراچی آئی اور گذشتہ ہفتے سچ بول کر گئی‘ خواہ وہ سچ پاکستان کو کڑوا لگے یا بھارت کو…ہم جیسے بے بضاعت اور بے نوا فقیر دہائیوں سے چیخ رہے ہیں کہ یونینسٹ پارٹی کے وارثوں سے جان چھڑائو‘ غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنانے والی اشرافیہ سے ملک کو پاک کرو‘ اور اب بھِک منگوں‘ ہاریوں‘ غریبوں اور بیروزگاروں نے کاندھوں پر بندوقیں اٹھا لی ہیں اور تھیلوں میں بارود بھر لیا ہے‘ کوئی انہیں طالبان کہے یا عسکریت پسند‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ جو انہیں ’’بھرتی‘‘ کرتے ہیں‘ مقاصد تو ان کے ہیں‘ بھرتی ہونے والے کو چند ہزار روپے ماہوار مل جاتے ہیں جو مملکتِ خداداد کی ریاست نہیں مہیا کر سکتی‘ اور افسوس… صد… افسوس… اقتدار کی راہداریوں میں مٹر گشت اُنہی کا جاری ہے جنہوں نے یہاں تک پہنچایا ہے!’’… کوئی بھی شخص ہتھیار اُس وقت اٹھاتا ہے جب معاشرہ اُسے انصاف نہیں دے پاتا‘‘… یہ ہے وہ بات جو ارن دھتی رائے نے کہی۔ اور کیا ہی خوبصورت نکتہ بتایا اس ہندو زادی نے کہ وہ نوجوان جو عورتوں پر پلاسٹک کے تھیلوں کی طرح پابندی لگانا چاہتا ہے‘ وہ بھی کسی فیکٹری میں تیار ہوا ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح پلاسٹک بیگ کسی فیکٹری میں تیار ہوتا ہے! سوال یہ ہے کہ یہ فیکٹری کہاں ہے اور اسے کون چلا رہا ہے؟ ارن دھتی کی منطق سیدھی سادی تھی۔ ’’جب آپ کہتے ہیں طالبان‘ تو آپ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ کیا اس سے مراد عسکریت پسند ہے؟ یا اس سے مراد کوئی نظریہ ہے؟ دونوں سے لڑنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ ارن دھتی نے واضح الفاظ میں کہا کہ جنگ سے یہ چیزیں ختم نہیں ہو سکتیں اور یہ کہ دہشت پسندی کیخلاف جو جنگ لڑی جا رہی ہے‘ اُس نے دنیا کو پہلے سے بھی زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے!سوال یہ ہے کہ اگر ارن دھتی رائے کو معلوم ہے کہ بندوق اٹھانے والا‘ بغیر کسی سبب کے بندوق نہیں اٹھاتا تو کیا یہ بات پاکستان میں کسی کو معلوم نہ تھی؟ اور اگر معلوم تھی تو آخر کسی نے اُٹھ کر شور بھی مچایا ہے؟ کیا کوئی چیخا ہے؟ اور کیا کسی نے پہاڑ پر چڑھ کر پالیسی سازوں کو بتایا کہ ہوش کرو… پہاڑ کی دوسری طرف جو کچھ ہو گا‘ اُس سے ڈرو!اس ملک میں غریبوں کا کبھی کوئی والی وارث رہا ہے؟ نہیں‘ کبھی نہیں! خدا کی قسم! مسخرے مالک و مختار رہے! ماضی میں جب سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کیلئے پے اینڈ پنشن کمیٹی تشکیل دی گئی تو صرف ایک رکن نے کہا کہ اساتذہ کی تنخواہیں دوسروں سے الگ اور زیادہ رکھو … اور اُس ایک شخص کو سب نے اس طرح دیکھا جیسے وہ دنیا کی سب سے بھیانک بکواس کر رہا ہے۔ اسی کمیٹی کے اجلاس میں جب زرعی اصلاحات اور فیوڈل ازم کی بات ہوئی تو سرکاری ’’ماہر‘‘ معیشت نے اچھل کر کہا کہ نہیں اب تو کسان کہتے ہیں… میں ہونڈا لَیساں‘ یہی وہ ماہرِ معیشت تھا جو دوسروں کی تنخواہیں بڑھتے وقت افراطِ زر کی شرح کچھ اور بتاتا تھا اور جب اسکی اپنی تنخواہ (ایم پی سکیل) بڑھانے کا وقت آیا تو اس نے مختلف شرح بتائی!کاش! طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا‘ افسوس! وہ جس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں‘ اُس مکتبِ فکر کے علما لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ لال مسجد کا قصہ چلا تو اُس وقت جسٹس مولانا تقی عثمانی‘ واحد عالمِ دین تھے جنہوں نے بغیر کسی خوف اور جھجک کے برملا کہا کہ فلاں شخص عالمِ دین ہی نہیں ہے! کاش جسٹس تقی عثمانی آج طالبان کو بتاتے کہ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں پہنا جانے والا لباس‘ بندوق کے زور پر تبدیل کرانے سے اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہو گی! کاش آج علمائ‘ طالبان کو بتاتے کہ وہ اقدامات اٹھائو جو اِس ظالمانہ معاشرے میں غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تر ہونے سے روک سکیں۔ اگر طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو وہ انہیں ضرور بتاتا کہ امام شاطبی اپنی مشہور تفسیر جامع احکام القرا میں لکھتے ہیں کہ… ’’مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اگر زکوٰۃ اور بیت المال کافی نہ ہوں تو امیروں کے ذاتی مال سے حکماً دولت لی جا سکتی ہے۔‘‘آخر عمر فاروقؓ نے ایک جائز معاشی سرگرمی کو کیوں روک دیا؟ ایک تاجر نے مدینہ میں بہت سے گھوڑے جمع کر لئے‘ حضرت عمرؓ نے اُسے منع کیا اور پھر اجازت دی لیکن اِس شرط پر کہ وہ گھوڑوں کیلئے چارہ مدینہ سے باہر سے منگوائے۔ اُس نے یمن سے چارہ منگوانے کا بندوبست کیا۔ کیا شریعت میں مدینہ سے چارہ خریدنا منع تھا؟ نہیں! لیکن جب امیرالمومنین نے دیکھا کہ یہ امیر تاجر مدینہ کا سارا چارہ خرید لے گا اور عام شہری پریشان ہو گا تو انہوں نے ایک جائز کام کو ناجائز قرار دے دیا!طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو انہیں سمجھاتا کہ اسلامی معاشیات میں ایک قانون‘ قانونِ تحدید بھی ہے‘ اس کا اصول یہ ہے کہ فرد کا مفاد اجتماعی مفاد پر قربان ہو گا اور انفرادی ملکیت کو اِس حد تک کھلی چھٹی نہیں دی جا سکے گی کہ عوام دب کر رہ جائیں۔ حد (CEILING) مقرر کرنا پڑیگی‘ خواہ کاروں کے سائز پر خواہ مکانوں کے سائز پر‘ آج لیبیا میں ایک خاندان (کنبہ) صرف ایک رہائشی مکان کا مالک ہو سکتا ہے! اور کوئی خاندان ایسا نہیں جو ایک گھر کا مالک نہ ہو!طالبان کا کوئی تھنک ٹینک ہوتا تو انہیں بتاتا کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ’’… اللہ نے مالدار لوگوں کے مال میں غریبوں کا اتنا حصہ رکھا ہے جو غریبوں کیلئے کافی ہو۔ اب اگر یہ لوگ بھُوکے یا ننگے رہیں یا مشقت میں مبتلا ہوں تو اس کا سبب یہی ہو سکتا ہے کہ مالدار لوگ نہیں دے رہے پھر اللہ تعالیٰ کیلئے ضروری ہو گا کہ ان مالداروں کا محاسبہ کرے اور انہیں سزا دے‘‘اللہ کے رسولؐ نے حضرت معاذ بن جبل سے پڑوسی کے بارے میں فرمایا… ’’اُسے اپنی ہانڈی کی خوشبو سے پریشان نہ کرو یا اس کا حصہ نکالو۔ اگر تم نے پھل خریدا ہو تو اس میں سے اسے بھی تحفہ بھیجو ورنہ چھپا کر لائو۔ ایسا نہ ہو کہ اس میں سے تمہارے بچے کچھ لے کر باہر نکلیں اور اس کے بچوں کو غم و غصہ میں مبتلا کریں…‘‘اللہ کے رسولؐ کو معلوم تھا کہ دولت کی نمائش… غم و غصہ پیدا کریگی… آج اِسی نمود و نمائش نے اتنا احساسِ محرومی پیدا کیا ہے کہ بھوکوں نے بندوق اٹھا لی ہے!طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو انہیں مشہور فقیہہ ابنِ خرد کی یہ رائے ضرور بتاتا کہ… ’’ہر ملک کے مالدار لوگوں پر فرض ہے کہ اپنے غریب لوگوں کی کفالت کریں۔ اگر ز کوٰۃ اور سارے مسلمانوں کی فَے اس کیلئے کافی نہ ہو تو سلطان ان کو ایسا کرنے پر مجبور کریگا اور ان غریبوں کیلئے اتنے مال کا انتظام کیا جائیگا جس سے وہ بقدر ضرورت غذا حاصل کر سکیں اور اس طرح جاڑے اور گرمی کا لباس اور ایک ایسا مکان جو انہیں بارش کی گرمی دھوپ اور راہگیروں کی نظروں سے محفوظ رکھ سکے۔ لیجئے…! جاڑے اور گرمی کا لباس اور کم از کم ایک مکان…! یہ ہے ریاست کی کم از کم ذمہ داری! بشرطیکہ ریاست کو منتخب نمائندوں کے الائونس اور مراعات بڑھانے سے فرصت ملے! اور وزیروں کی فوج ظفر موج کی پرورش سے وقت ملے!اور اگر طالبان کا کوئی تھِنک ٹینک ہوتا تو انہیں بتاتا کہ اسلامی اقتصادیات میں ایک قانون‘ قانونِ حجر بھی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیا جا سکتا ہے! اور دو اصطلاحیں اسلامی اقتصادیات میں ’’رُشد‘‘ اور ’’سفیہہ‘‘ کی ہیں۔ اہلِ رشد وہ ہے جو تبذیر نہ کرے اور سفیہہ وہ کمینہ دولت مند ہے جو مال خرچ کرنے میں تبذیر کا مرتکب ہوتا ہے! حنفی فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ کے مطابق سفیہہ پر حجر کیا جائیگا۔ یعنی اُسے گناہ کے کاموں پر دولت خرچ کرنے سے حکماً روک دیا جائیگا۔ جب کوفہ کا شہر بسایا گیا تو بانس کے مکان بنائے گئے‘ انہیں آگ لگ جاتی تھی۔ فاروق اعظمؓ نے اینٹوں کے مکان بنانے کی اجازت دی لیکن اس شرط پر کہ کوئی شخص تین مکانوں سے زیادہ مکان نہیں بنائے گا۔ انہوں نے اونچائی کی بھی حد مقرر کر دی! یعنی مسلمانوں کی حکومت دولت خرچ کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے اور ملکیت کی حد مقرر کر سکتی ہے! اور اگر طالبان کا تھِنک ٹینک ہوتا تو اور کچھ نہیں تو شاہ ولی اللہ کی یہ تحریر‘ حجتہ اللہ البالغہ سے نکال کر طالبان کو ضرور دکھاتا۔ ’’جب شہر کے اہلِ ثروت‘ رقص و سرور اور عورتوں کے بنائو سنگھار‘ اونچی عمارتیں بنانے اور کپڑوں اور جواہرات میں عجیب و غریب صنعتیں نکالنے میں روپیہ صرف کریں گے تو اسی قدر شہر کی دیگر مصلحتوں میں کمی ہو جائیگی! اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو لوگ ضروری پیشے کرتے ہیں مثلاً کاشتکار وغیرہ‘ ان پر تنگی ہو گی اور ان پر زیادہ ٹیکس لگایا جائیگا اور اس میں شہر کیلئے بڑا ضرر ہے جو اسکے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچ کر تمام شہر کو گھیر لے گا اور دیوانے کُتے کے زہر کی طرح اس میں پھیل جائے گا!‘‘دیوانے کُتے کا زہر! تو کیا اس میں کوئی شک ہے کہ دیوانے کُتے کا زہر پھیل چکا ہے!!