چلیں صفیہ کی کہانی سنتے ہیں ، صفیہ کون ؟ صفیہ اپ بھی اور میں بھی ، اور صفیہ وہ بھی جو بڑی بڑی کوٹھیوں میں صفائ کرنےجاتی تھی اور خواہش جگا بیٹھی ایک سفید صوفے کی ، ایک مہربان باجی کے گھر پڑے سفید صوفے کی ، باجی سے قیمت پوچھی ،بہت زیادہ پہنچ سے باہر ، پھر بھی کمیٹی ڈال کر ایک دنلینے کا سوچا ، کچھ قسمت اور کچھ دعا نے ساتھ دیا ، باجی کے میاں کا ٹرانسفرہوا اور وہ جاتے جاتے جتنے صفیہ اکھٹے کر سکی اتنے ہی پیسوں میں وہ صوفہ صفیہ کو دے گئیں نیچے در والوں کے گھر ہاتھی آیا رے ! اب کہاں باندھیں
نہ تو کوئ کمرہ اس قابل نہ جگہ خود ایک کمرے میں بچوں کو ساتھ گھسااسی میں ساس کی چارپائی ڈال ایک کمرے کو باجی کی طرحمہمانوں کی بیھٹک بنانے کا سوچا ، ایک کمرے میں گھر کا سب سامان اور سامان کی طرح ٹھنسے لوگ اور ایک میں تنہا صوفہ اسصوفے کی سنگت کو کان کی بالی جو اکلوتا زیور تھا بیچ آئ شوہر سے مار تو بہت پڑی مگر اب میز گلدان پلاسٹک کی کرسیاںہاۓ رےخواہش کا پورا ہونا ، درد میں بھی لذت بے پناہ ،
مگر صوفے سے میل تو کچھ بھی نہ کھاتا ، اب اگر کوئ آ گیا اور صوفہ گندہ ہوگیا صوفے پر چادر ڈالی جس نے اس کی خوبصورتی کھا لیکبھی کسی نے ہاتھ لگایا کلیجہ منہ کو آیا کبھی بچہ چڑھ گیا اس کو خوب مار کر بھی سمجھ نہ آئ رو کیوں رہیہوں صوفے کو یا جنم دیےکی چوٹ کو
صوفہ کیا آیا سارا سکون کھو گیا طعنے الگ صوفے نے مغرور کیا تو کہیں صوفے نے پاگل کیا اور اس کی حفاظت
ہاۓ ! غریب کی خواہش جاۓ بھی تو کہاں جاۓ ایک کمرے میں رہنا عذاب تو صوفے سے میل کھاتی چیزیں لینے کو کمرے میںقلعی کروانے کو سانس پر پڑتا بوجھاتنا بڑھا کہ ایک دن خودی چھری لے صوفے کو اڈھیر ڈالا
خود خواب اجاڑا خود ہی روئ ہم بھی کہیں نہ کہیں صفیہ ہوتے ہیں ایسی کوئ خواہش پال بیٹھتے ہیں جس کا پورا نہ ہونا درد سےبھرے رکھتا ہے اور پورا ہونا شاید ہم ہی کھو جاتے ہیں
اس کے پورے ہونے کی قیمت ہم خود
ہاۓ او ربا صفیہ کا دکھ
“