خیر النساء مہدی {اہلیہ باقر مہدی} نے اپنی سہیلی صفیہ اختر پر اپنی کتاب " مجھے بھی کچھ کہنا ہے" {ممبئی، اکتوبر1994 } میں "صفیہ اختر کی یاد میں" کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے۔ صفیہ اختر ترقی پسند شاعر جان نثار اخترکی اہلیہ، مجاز لکھنٰوی کی بہن، فلم نگار جاوید اختر اور ماہر نفیسات ، شاعرڈاکٹر سلمان اختر { مقیم امریکہ} کی والدہ ہیں۔
صفیہ اختر کی یاد میں
کسی کی یاد میں چند جملے لکھنا کتنا مشکل ہے یہ ایسا ہی ہے کہ آنسوؤں ہی کو روشنائی سمجھ کر قلمزد کرنا۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے؎
ور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
میں صفیہ اختر کے بارے میں سوچتی ہوں تو حیرت زدہ ہو جاتی ہوں۔ کتنی جری خاتون تھی وہ! صبح شام موت کی آہٹوں سے لڑتی رہی تھی۔ یوں تو ہم عورتوں کے آنسو پلک جھپکتے ہی نکل آتے ہیں۔ میں نے جب صفیہ اختر کی موت کے بارے میں اخبار میں پڑھا تو چند لمھے خاموش رہی اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔
زیر لب اور حرف آشنا کا مطالعہ میرے لیے ڈھیر سے خوشی اور غم کے آنسو لایا۔ اِس لیے کہ میں اکثر روتی اور کبھی کبھی ہنستی تھی صفیہ اختر نے یہ خطوط اپنے شریکِ حیات اردو کے مشہور شاعر جاں نثار اختر کے نام لکھے تھے جو صفیہ کی موت کے بعد شائع ہوئے۔ مجھے حیرت ہے کہ نیاز فتح پوری کے خطوط پڑھ کر محترمی رشید احمد صدیقی نے ایسا کیوں فرمایا تھا کہ ’’بہترین خطوط وہ ہیں جو جلا دئیے جائیں‘‘ شاید اُنہوں نے یہ جملہ یا تنقید برائے تمسخر کی تھی۔ مجھے تو ان خطوط میں زندگی کی کربناک جدوجہد کے لمحوں کی داستان ملتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صفیہ اختر میں بے پناہ ادبی صلاحتیں تھیں۔ اُن کے منتخب مضامین کا ایک مجموعہ ’’انداز نظر‘‘ بھی ہے جس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں نہ صرف شگفتہ نثر لکھنے کے جوہر تھے بلکہ تنقیدی بصیرت بھی تھی۔
خطوط نگاری کے سلسلہ میں ایک اہم نقاد خورشید الاسلام کا خیال ہے۔
’’عدم سے وجود میں لانے کا کام ’’نہیں‘‘ کو ’’ہاں‘‘ میں بدل ڈالنا ہے کچھ سے کچھ تو ہے کا معجزہ کھانا خطوط نگاری کا کمال ہے‘‘۔ (تنقیدیں ص ۱۰)
زیرِ لب صفیہ اختر کے ایک سال بعد شائع ہوئی اور اتنی مشہور ہوئی کہ چند برسوں ہی میں اُس کے کئی ایڈیشن شائع ہو گئے۔ صفیہ قصبہ رد ولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئیں اور تعلیم لکھنؤ میں حاصل کی۔ اُن کی شادی مرحوم شاعر جاں نثار اختر سے ہوئی۔ صفیہ اختر اردو شاعری کے مشہور رومانی شاعر مجاز کی سگی بڑی بہن تھیں۔ اس سے کچھ اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ ان کا گھریلو ماحول نہایت علمی اور ادبی تھا۔
زیرِ لب کے یہ خطوط صفیہ اور اختر کی زندگی کی داستان ہیں جاں نثار اختر جب بھوپال چھوڑ کر بمبئی آ گئے تب سے یہ خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا اور موت سے چند روز پہلے آخر خط لکھا گیا۔ شاید اردو کی جتنی خطوط نگاری کی کتابیں ہیں وہ یا تو عملی مباحث سے تعلق رکھتی ہیں یا شگفتہ جملے لکھنے کی کوششیں ہیں۔ زیرِ لب خطوط نگاری کی تاریخ میں اپنے انداز کی ایک انوکھی کتاب ہے۔ اب آپ زیر لب کے پہلے خط کے چند جملے پڑھیے۔
’’اچھے بُرے قوت سب گُزر جاتے ہیں۔ پریشانی کا مقابلہ عزم اور استقلال سے اخلاقی بلندی کی دلیل ہے۔ جذباتی طور پر اپنی بے روز گاری کا رونا نہ لے بیٹھنا۔ ظاہر ہے کہ اگر تم چاہو تو تمھاری ٹھاٹھ دار ملازمت آج بھی تمھاری منتظر ہے۔ لیکن یہ تو اپنے انتخاب کا سوال ہے۔ مگر پیارے اختر بہت سے لوگ تو تم سے زیادہ پریشانی اُٹھا رہے ہیں۔ ہمیں اُن کی طرف بھی دیکھنا ہے‘‘۔
آخری خط کے چند جملے پڑھیے:
’’اختر آؤ۔ مجھے مرنے نہ دو۔ میں مرنا نہیں چاہتی البتہ بہت تھک گئی ہوں۔ ساتھی آؤ میں تمہارے زانو پر سر رکھ کر ایک طویل نیند لے لوں۔ پھر تمہارا ساتھ دینے کے لیے ضرور ہی اُٹھ کھڑی ہونگی۔‘‘
صفیہ کے خطوط روزمرہ کی باتیں ہی نہیں ہیں۔ خلوص درد اور وفا کی آگ میں جلتی ایک خاتون کی کہانی بھی ہے۔ دل کی آواز کی سرگوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں جس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ معمولی معمولی الفاظ میں چھپی ہوئی کراہیں جو پڑھنے والے کے ذہن میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ یہی تو خطوط کا کارنامہ ہے کہ معمولی کو غیر معمولی اِتنی خوب صورتی سے بنایا کہ فن کاری کا راز چھپا بھی رہے اور اُبھر بھی رہے۔
’’زیر لب میں ۴۹ دسمبر سے ۵۲ دسمبر تک کے خطوط شامل ہیں۔ دوسری کتاب حرف آشنا میں اکتوبر ۴۲ سے نومبر ۴۷ تک کے خطوط ہیں۔ حرف آشنا کے دیباچے میں فاطمہ زبیر نے لکھا ہے کہ جب صفیہ کی موت کی خبر پڑھی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ جیسے میری بیٹی مر گئی ہے، میری بہن مر گئی ہے، میری دوست مر گئی ہے ایسی دوست جس کے مرنے سے زندگی کے حوصلے جاتے رہے‘‘
جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا ہے کہ زیر لب نے مجھے بہت متاثر کیا۔ صفیہ اختر سے میں کبھی نہیں ملی لیکن اُن کے خطوط پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں اُن سے بارہا ملی ہوں۔ پتہ نہیں کسی شاعر نے لکھا ہے۔
اُٹھیں اور اُن کے خط ہی دیکھ ڈالیں
جنہیں دیکھا نہیں دو ایک برس سے
صد افسوس کہ صفیہ کو علم ہی نہیں تھا کہ اردو ادب میں اپنا ایک مقام بنا چکی ہیں اور اُن کی شہرت کا ستارہ اُن کے موت کے بعد چمکا۔
ایک امریکی مورخ۔۔۔۔ کارل بیکر نے لکھا ہے:
’’انسانوں نے کیا کارنامے انجام دئیے ہیں اِن واقعات کا ریکارڈ تو ہر صورت میں مل جاتا ہے لیکن ان واقعات کو رونما کرنے میں دلی جذبات اور دماغی کیفیات کا کتنا حصہ ہے اس کا علم صرف خطوط سے ہو سکتا ہے۔ جذبات اور جیلتوں کے پیچیدہ اور پوشیدہ رازوں کو خطوط ہی میں کُھلنے کا موقع ملتا ہے‘‘۔
اور کتنا زمانہ گُزر چُکا ہے آج بھی اِن خطوط کی کشش کم نہیں ہوئی ہے۔ اب تو اُن کی چھوٹی بہن حمیدہ سالم نے بھی اپنی سوانح عمری لکھی ہے مگر بڑی بہن کا وہ ہنر وہ کہاں سے لاتیں جو سالہا سال پہلے ستارہ بن کر ڈوب گیا۔ مگر کبھی کبھی اب بھی ہم جیسی خواتین کی نظروں میں آنسو بن کر چمکتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔