اردو کے معروف جدید شاعر ساقی فاروقی لندن میں انتقال کرگئے۔ ساقی فاروقی کا اصل نام قاضی محمد شمشاد نبی فاروقی تھا۔ انکا جنم 21 دسمبر 1932 کو گورگپور میں ہوا تھا۔ 1948 میں انہوں نے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہجرت کی اور 1952 تک وہی رہے۔ پھر 1953 میں مغربی پاکستان اگئے۔ اور یہاں ماہ نامہ نوائے کراچی کے ایڈیٹر بن گئے۔ انہون نے کراچی سے ایم اے کیا اور پھر برطانیہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے کمپیوٹر پروگرامنگ میں مہارت حاصل کی اور مستقل طور پر لندن کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ایک مہینہ پہلے گزشتہ برس دسمبر میں انکی اہلیہ گن ہلڈ نبی کا بھی لندن میں انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی بیوی کی عمر 72 برس تھی۔ اور وہ یونیورسٹی کالج اف لندن سے منسلک رہیں اور کچھ برس پہلے بیرونی طلباء کے ہیڈ کے عہدے سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انہوں نے ساقی فاروقی کا عمر بھر بھرپور ساتھ دیا۔
ساقی فاروقی کا کلام
غزلیں
مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا
میں رقص کرتا رہا ساری عمر وحشت میں
ہزار حلقۂ زنجیرِ بام و در میں رہا
ترے فراق کی قیمت ہمارے پاس نہ تھی
ترے وصال کا سودا ہمارے سر میں رہا
یہ آگ ساتھ نہ ہوتی تو راکھ ہوجاتے
عجیب رنگ ترے نام سے ہنر میں رہا
اب ایک وادیِ نسیاں میں چھُپتا جاتا ہے
وہ ایک سایہ کہ یادوں کی رہگزر میں رہا
———-
ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
تیری درد گساری سے بھی روح کی الجھن کم نہ ہوئی
شاخ سے ٹوٹ کے بے حرمت ہیں ویسے بھی بے حرمت تھے
ہم گرتے پتّوں پہ ملامت کب موسم موسم نہ ہوئی
ناگ پھنی سا شعلہ ہے جو آنکھوں میں لہراتا ہے
رات کبھی ہمدم نہ بنی اور نیند کبھی مرہم نہ ہوئی
اب یادوں کی دھوپ چھائوں میں پرچھائیں سا پھرتا ہوں
میں نے بچھڑ کر دیکھ لیا ہے دنیا نرم قدم نہ ہوئی
میری صحرا زاد محبت ابرِ سیہ کو ڈھونڈتی ہے
ایک جنم کی پیاسی تھی اک بوند سے تازہ دم نہ ہوئی
—————–
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
یہ جدائی ہے کہ نسیاں کا جہنم کوئی
راکھ ہوجائے نہ یادوں کا ذخیرہ اپنا
ان ہوائوں میں یہ سسکی کی صدا کیسی ہے
بین کرتا ہے کوئی درد پرانا اپنا
آگ کی طرح رہے ، آگ سے منسوب رہے
جب اسے چھوڑ دیا خاک تھا شعلہ اپنا
ہم اسے بھول گئے تو بھی نہ پوچھا اس نے
ہم سے کافر سے بھی جزیہ نہیں مانگا اپنا
————
یہ کیا کہ زہرِ سبز کا نشّہ نہ جانیے
اب کے بہار میں ہمیں افسانہ جانیے
جل جل کے لوگ خاک ہوئے نارِ خوف سے
یہ زندگی سراب ہے دریا نہ جانیے
یہ خواب نائے درد ہمیں چشمۂ حیات
ہم لوگ سیر چشم ہیں پیاسا نہ جانیے
اپنے قدم کے ساتھ ہیں آسیب کے قدم
یہ کوچۂ حبیب ہے صحرا نہ جانیے
وہ سحرِ گورکن ہے ، بدن بدحواس ہیں
ہو پُتلیوں میں جان تو مردہ نہ جانیے
—————-
یہ لوگ خواب میں بھی برہنہ نہیں ہوئے
یہ بدنصیب تو کبھی تنہا نہیں ہوئے
یہ کیا کہ اپنی ذات سے بے پردگی نہ ہو
یہ کیا کہ اپنے آپ پر افشا نہیں ہوئے
ہم وہ صدائے آب کہ مٹّی میں جذب ہیں
خوش ہیں کہ آبشار کا نغمہ نہیں ہوئے
وہ سنگ دل پہاڑ کہ پگھلے نہ اپنی برف
یہ رنج ہے کہ رازقِ دریا نہیں ہوئے
تیرے بدن کی آگ سے آنکھوں میں ہے دھنک
اپنے لہو سے رنگ یہ پیدا نہیں ہوئے
——————
دامن میں آنسوئوں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے ، گریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے ، تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرارِ کائنات سے پردا نہ کر ابھی
یہ خاموشی کا زہر نسوں میں اتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی
——————-
خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
اس خرابے میں کہاں خواب کے آثار ملے
اُس کے لہجے میں قیامت کی فسوں کاری تھی
لوگ آواز کی لذت میں گرفتار ملے
اُس کی آنکھوں میں محبت کے دیے جلتے رہیں
اور پندار میں انکار کی دیوار ملے
میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے
جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے
روح میں رینگتی رہتی ہے گنہہ کی خواہش
اس امر بیل کو اک دن کوئی دیوار ملے
———–
ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے ، مر نہیں گئے
آج اپنے گھر میں قید ہیں ، ان سے حجاب ہے
جو گھر سے بے نیاز ہوئے ، گھر نہیں گئے
اپنے لہو میں جاگ رہی تھی نمو کی آگ
آنکھوں سے اس بہار کے منظر نہیں گئے
اُس پر نہ اپنے درد کی بے قامتی کھلے
ہم اس دراز قد کے برابر نہیں گئے
ساقیؔ اس رات کی بے حرمتی کے بعد
اچھا ہوا کہ سوئے ستم گر نہیں گئے
———-
پام کے پیڑ سے گفتگو
مجھے سبز حیرت سے کیوں دیکھتے ہو
وہی تتلیاں جمع کرنے کی ہابی
اِدھر کھینچ لائی
مگر تتلیاں اتنی زیرک ہیں
ہجرت کے ٹوٹے پروں پر
ہوا کے دو شالے میں لپٹی
مرے خوف سے اجنبی جنگلوں میں کہیں
کہیں جا چھپیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تھک ہار کرواپسی میں
سرکتے ہوئے ایک پتھر سے بچتے ہوئے
اس طرف میں نے دیکھا
تو ایسا لگا
یہ پہاڑی کسی دیو ہیکل فرشتے کا جوتا ہے
تم کتھئی چھال کے موزے میں
ایک پیر ڈالے
یہ جوتا پہننے کی کوشش میں لنگڑا رہے ہو ۔۔۔۔۔
دوسری ٹانگ شاید
کسی عالمی جنگ میں اڑ گئی ہے
مرا جال خالی
مگر دل مسرت کے احساس سے بھرگیا
تم اسی بانکپن سے
اسی طرح
گنجی پہاڑی پر
اپنی ہری وگ لگائے کھڑے ہو
یہ ہیئت کذائی جو بھائی
تو نزدیک سے دیکھنے آگیا ہوں
ذرا اپنے پنکھے ہلا دو
مجھے اپنے دامن کی ٹھنڈی ہوا دو
بہت تھک گیا ہوں
—————
ہمزاد
شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں
یاد نگر میں سائے پھرتے ہیں
تنہائی سسکاری بھرتی ہے
اپنی دنیا تاریکی میں ڈوب چلی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔باہر چل کر مہتاب دیکھتے ہیں
شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں
ہم سے پہلے کون کون سے لوگ ہوئے
جو ساحل پر کھڑے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔