آج – 3/جنوری 1862
سلسلہ وار قومی نظم نگار، کلام میں سیاسی، سماجی و تہذیبی مسائل کی عکاسی اور مصلح طرزِ لکھنؤ کلاسیکی شاعر” صفیؔ لکھنؤی صاحب “ کا یومِ ولادت…
صفیؔ کا نام سیّد علی نقی زیدی تھا ، صفیؔ تخلص کرتے تھے والد کا نام سیّد فضل حسن تھا ۔ وہ ٣ جنوری ١٨٦٢ء کو پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کرنے کے بعد نجم الدین کاکوروی سے فارسی اور مولوی احمد علی سے عربی زبان سیکھی ۔ کیننگ کالج میں انٹرنس کی تعلیم حاصل کی اور کیننگ کالج سے متعلقہ اسکول میں انگریزی زبان کے استاد کی حثیت سے معلمی کے فرائض انجام دئے ۔ ١٨٨٣ء میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور محکمہ دیوانی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔
صفی نے لکھنو کے عام شعری مزاج سے الگ ہٹ کر شاعری کی ، ان کا یہی انفراد ان کی شناخت بنا ۔ مولانا حسرت موہانی انہیں ’ مصلحِ طرزِ لکھنؤ ‘ کہا کرتے تھے ۔
صفی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ کر نظم کی صنف میں خاص دلچسپی لی ۔ انہوں نے سلسلہ وار قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی ، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاس ہیں ۔ اس کے علاوہ قصیدہ ، رباعی اور مثنوی جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ۔ صفی کی نظمیں اور غزلیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر لکھنو کی خاص روایتی طرز کو بدلنے کی طرف مائل تھے۔
صفیؔ لکھنؤی ، ٢٥ جون ١٩٥٠ء میں انتقال کر گئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
کلاسیکی شاعر صفیؔ لکھنؤی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
بناوٹ ہو تو ایسی ہو کہ جس سے سادگی ٹپکے
زیادہ ہو تو اصلی حسن چھپ جاتا ہے زیور سے
—
پیغامِ زندگی نے دیا موت کا مجھے
مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے
—
جنازہ روک کر میرا وہ اس انداز سے بولے
گلی ہم نے کہی تھی تم تو دنیا چھوڑے جاتے ہو
—
دل سے نزدیک ہیں آنکھوں سے بھی کچھ دور نہیں
مگر اس پہ بھی ملاقات انہیں منظور نہیں
—
دیکھے بغیر حال یہ ہے اضطراب کا
کیا جانے کیا ہو پردہ جو اٹھے نقاب کا
—
دیں بھی جواب خط کہ نہ دیں کیا خبر مجھے
کیوں اپنے ساتھ لے نہ گیا نامہ بر مجھے
—
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
—
نظر حسنِ آشنا ٹھہری وہ خلوت ہو کہ جلوت ہو
جب آنکھیں بند کیں تصویر جاناں دیکھ لیتے ہیں
—
مری نعش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا
—
وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
شبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے
—
کل ہم آئینے میں رخ کی جھریاں دیکھا کیے
کاروان عمر رفتہ کا نشاں دیکھا کیے
—
درد آغازِ محبت کا اب انجام نہیں
زندگی کیا ہے اگر موت کا پیغام نہیں
—
کبھی کیسے ہو صفیؔ پوچھ تو لیتا کوئی
دل دہی کا مگر اس شہر میں دستور نہیں
—
صفیؔ رہتے ہیں جان و دل فدا کرنے پہ آمادہ
مگر اس وقت جب انساں کو انساں دیکھ لیتے ہیں
●•●┄─┅━━━★ ★━━━┅─●•●
صفیؔ لکھنؤی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ