::: "صفی اورنگ آبادی : ایک مرد درویش، شعر کی منفرد حسیّت اور آہنگ کا کیمیا گر" :::
صفی اورنگ آبادی کا اصل نام بہاؤالدین صدیقی تھا وہ اورنگ آباد کےجون بازار کے علاقے میں 12 فروری، 1893 میں پیدا ہوئے مگر بعد میں ان کا نام " بہبود" علی صدیقی تبدیل کر دیا گیا.سید بشیر احمد نے لکھا ہے" ان کا یوم پیدائش پیر تھا ۔انہوں نے اسی مناسبت سے استفادہ کرتے اپنے مسلک کا اظہار اس طرح کیا ؎
کون بے پیرا کہے گا اے صفیؔ
روز پیدائش میرا پیر ہے"
صفی کے والد حکیم منیر الدین اورنگ آبادی آصف سادس کے دور حکومت میں بیوی اور دو چھوٹے بچوں پر مشتمل مختصر خاندان کے ساتھ اورنگ آباد سے نقل مکانی کرکے حیدرآباد تشریف لائے ۔ ان کو حیدرآباد کچھ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے حیدرآباد ہی کو وطن مالوف بنالیا ۔ اپنے والدین کے ساتھ جب صفی حیدرآباد پہنچے تو ان کی عمر سات برس تھی ۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ نظامیہ میں ہوئی جہاں قیام و طعام کا مفت انتظام تھا۔ افسوس کہ ان کی تعلیم ادھوری رہی ۔ والدہ کے بے وقت انتقال اور والد کے عقد ثانی کی وجہ سے صفی شاعری کے علاوہ کسی اور میدان میں جوہر نہیں دکھا سکے ۔ انہوں نے مدرسہ طبیہ میں داخلہ لیا اور طبی نصاب کی تکمیل کی لیکن شریک امتحان نہ ہوسکے ۔ اس طرح زندگی کے مختلف مراحل میں ادھورے پن کا شکار رہے ان کے والد حکیم محمد منیر صاحب نےصفی کو ایک یونانی طبعیب بننا چاہتے تھے لیکن صفی نے تعلیم کو درمیان میں ہی چھوڑ دیا اور ملازمت شروع کردی . اس کی بعد انھوں نے کئی ملازمتیں اختیار کیں۔ لیکن ان کا ملازمت میں دل نہ لگتا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ملازمت بہت بڑی " غلامی" ھوتی ھے ۔ پھر انھوں کبھی نوکری نہیں کی۔ پھران کے شاگرد میں اضافہ ھونا شروع ھو گیا اور ان کا زیادہ تر وقت شاگردوں کے اصلاح کلام میں گذرتا تھا۔ . صفی اورنگ آبادی کا یہ کمال تھا کہ وہ طبلے کی تھاپ پر ردیف اور قافیہ تلاش کرتے تھے۔ وہ تا حیات مجرد رھے۔ وہ مرد درویش تھے ۔ طبعیت میں سچے اور سادہ تھے ۔ صفی اورنگ آبادی داغ دہلوی کے بعد اردو شاعری کے ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے محاوارات اور ضرب الامثال نئی اظہاری حسیت سے شاعری میں برتا۔ ان کا شاعرانہ اظہار فطری تھا۔
صفی اورنگ آبادی کا انتقال حیدرآباد دکن میں 21 مارچ، 1954 کو ھوا۔
1965 میں ان کے ایک شاگرد خواجہ شوق نے ان کا مجموعہ کلام " پرگندہ" کے نام سے شائع کیا۔ 1963 میں مبارز الدیں رفعت ان کے کلام کا انتخاب چھاپا۔ جن کے نام " فردوس صفی" (1968)، "گلزار صفی"" (1987)، "کلام صفی اورنگ آبادی"، (1993)، ہیں۔ ان کی "سوانح عمری صفی اورنگ آبادی" 1989 میں شائع ھوئی۔ صفی اورنگ آبادی کے ایک شاگرد محبوب علی خان اخگر نے " تلامذہ صفی" (1991)، "اصلاحات صفی" (1993)، "خمزیات صفی" (1998)، محاوراتِ صفی اورنگ آبادیؒ : محاورے، روزمرّہ، مقولے، ضرب المثل، کہاوت، تشبیہات واستعارے " ۔۔۔ خمریات صفی اورنگ آبادی ۔۔۔ اصلاحات صفی اورنگ آبادی اور انشاۓ صفی اورنگ آبادی ، کے ناموں سے کتابیں مرتب اور شائع کی ہیں۔۔ صفی اورنگ آبادی کے سند اشعار ملاخطہ ہوں:
ہمیں معشوق کو اپنا بنانا تک نہیں آتا
بنانے والے آئینہ بنا لیتے ہیں پتھر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکل ہے روک آہ دل داغ دار کی
کہتے ہیں سو سنار کی اور اک لہار کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو سو جواب ہیں تری اک ایک بات کے
انجام پر نظر ہے، جو بنتا ہوں لاجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ہر اک بات قانونِ محبت ہے، مگر
اے صفی! میں شاعری کرنے سے جھوٹا ہوگیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔