سفاری پارک کے عین درمیان میں پکی سڑک تھی‘ یہ سڑک‘ جو کسی بھی شاہراہ کا مقابلہ کر سکتی تھی‘ عالی شان اور تعمیر میں اعلیٰ معیار کی تھی گویا سڑک نہ تھی کارپٹ تھی۔ سڑک کے دونوں طرف درندے گھوم رہے تھے۔ افریقہ سے آئے ہوئے خونخوار شیر اور چیتے‘ تھائی لینڈ اور برما کے جنگلوں سے لائے گئے طاقتور ہاتھی‘ جو بڑے سے بڑے درخت کو اکھاڑ پھینکیں۔ جان لیوا ٹکر مارنے والے گینڈے‘ لمحوں میں چیر پھاڑ دینے والے بھیڑیے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ کروڑوں اربوں روپے کی بنی ہوئی بین الاقوامی معیار کی عالی شان شاہراہ‘ تماشائیوں کو اِن چیتوں‘ بھیڑیوں‘ ہاتھیوں اور گینڈوں سے بچا نہیں سکتی تھی۔ اس لیے سفاری پارک میں جگہ جگہ جلی حروف میں ہدایات لکھی تھیں کہ گاڑی سے نیچے نہ اتریں اور شیشے بند رکھیں۔ بعض سفاری پارکوں میں گاڑیوں کو سیر کے دوران رُکنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ مسلسل چلتی ہوئی گاڑیوں پر جانور حملہ کرنے سے شاید ہچکچاتے ہیں!
زین جس شہر میں ہلاک کیا گیا‘ وہ شہر بھی سفاری پارک ہی ہے۔ اس شہر میں ایسی ایسی عظیم الشان پختہ شاہراہیں تعمیر کی گئی ہیں اور مسلسل تعمیر کی جا رہی ہیں کہ بین الاقوامی معیار سے ایک ذرہ نیچے نہیں۔ ان شاہراہوں پر تارکول کی تہوں کی تہیں بچھائی گئی ہیں۔ ٹھیکیداروں‘ مزدوروں اور انجینئروں نے صوبے کے بے مثال انتظامی صلاحیتوں والے حکمران اعلیٰ کی کڑی نگرانی میں دن رات ایک کر کے یہ شاہراہیں تعمیر کی ہیں۔ اس شہرِ دلربا میں اوور ہیڈ پُلوں اور انڈر پاسوں کا جال بچھا ہے۔ موٹروے سے جگہ جگہ ذیلی سڑکیں نکالی گئی ہیں۔ اب ایک اور عظیم الشان شاہراہ شہر کے وسطی علاقوں کو موٹروے سے براہ راست جوڑنے کے لیے زیر تعمیر ہے۔ شہر میں جگہ جگہ پھولوں بھرے باغات ہیں۔ دیدہ زیب پارک ہیں۔ سب کچھ ہے مگر اس سفاری پارک میں درندے بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے‘ سفاری پارک اصل میں ان درندوں ہی کے لیے بنایا گیا ہے اور انہی کے لیے اسے مزید سہولیات سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ اس شہر میں رہنے والے غیر مسلح شہری وہ تماشائی ہیں جو ان شاہراہوں پر گاڑیوں کے بغیر چلنے پر مجبور ہیں۔ درندوں سے بھرے سفاری پارک ہیں‘ سڑک جتنی بھی اعلیٰ معیار کی ہو‘ درندوں کے خون آشام پنجوں اور سفاک دانتوں سے نہیں بچا سکتی۔ بیوہ ماں کے یتیم زین کو بھی لاہور کی چمکتی شاہراہیں‘ اوور ہیڈ پُل‘ انڈر پاس‘ میٹرو بس کا جنگلہ‘ موٹروے سے جوڑتے چاندی جیسے دمکتے راستے‘ کچھ بھی نہ بچا سکا۔ سفاری پارک میں وہ مارا گیا۔ تین بہنیں بال کھولے ماتم کر رہی ہیں۔ بیوہ ماں سینے اور سر پر دوہتڑ مار کر نوحہ خوانی کر رہی ہے۔ اچھے زمانوں میں فرات کے کنارے بیٹھا ہوا کتا‘ زین سے زیادہ محفوظ تھا۔ مگر اُن زمانوں میں درندے کھلے نہیں پھرتے تھے۔ آج کھربوں روپے جس شہر پر صرف کیے جا رہے ہیں‘ اس میں درندے یوں بے خوف پھرتے ہیں‘ جیسے یہ جنگل ہے اور یہاں بے خوف پھرنا ان کا بنیادی حق ہے۔
اس کے بعد وہی ہوا جو ایک ڈرل کی طرح ہر بار ہوتا ہے۔ وہی فلم جو بیسیوں بار چلی‘ ایک بار پھر چلائی گئی۔ قتل کا ’’نوٹس‘‘ لیا گیا۔ ملزم کو پکڑنے کے احکامات ٹاپ سے جاری کیے گئے۔ ’’انصاف کیا جائے گا‘ مجرم کو نہیں چھوڑا جائے گا‘‘ شاہی سواری مقتول کے دروازے پر آ کر رکی۔ عماری سے حکمران اترے۔ چیک پیش کیا گیا۔ لیکن میڈیا بہت ظالم ہے۔ سارے انصاف کی قلعی کھول دیتا ہے۔ اخبار میں دوسرے دن ہی خبر چھپ گئی… ’’ملزم کو حوالات میں خصوصی پروٹوکول‘ گارڈز کے ساتھ علیحدہ کمرے میں سلایا گیا اور بہترین کھانے دیے گئے۔ ذرائع کے مطابق زین کے قاتل سابق وزیر کے بیٹے کو انویسٹی گیشن پولیس نے رات کو ایک محرر کے کمرے میں اس کے ذاتی گارڈز کے ساتھ سلایا اور صبح حلوہ پوری کا سپیشل ناشہ بھی کرایا‘‘۔
اس سے مستقبل کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ذاتی گارڈ کے ہمراہ محرر کے کمرے میں سلانے والی اور حلوہ پوری مہیا کرنے والی پولیس قاتل کو انصاف کی طرف لے کر جائے گی! یہ ایسے ہی ہے‘ جیسے پوپ مسجد میں جمعہ کا خطبہ دے‘ جیسے مودی کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے‘ جیسے حسینہ واجد بنگلہ دیش اور پاکستان کی مشترکہ حکومت تشکیل دینے کی تجویز پیش کرے!
کئی زبانوں پر عبور حاصل کرنے والے وزیراعلیٰ کو یہ بات کس زبان میں بتائی جائے کہ امن تارکول کے مٹکوں سے اور لوہے کے انبار سے نہیں قائم ہوتا۔ امن اُس وقت قائم ہوتا ہے جب شہر اسلحہ سے پاک کر دیے جائیں۔ جب ایک ایک وڈیرے کے پاس ایک ایک درجن گارڈ ہوں گے اور ہر گارڈ کے پاس کئی کئی بندوقیں اور ریوالور ہوں گے تو مقتول کے گھر جانا امن کے ساتھ سفاک مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ شہنشاہِ معظم! آپ کے اختیارات بے پایاں ہیں۔ آپ کی سلطنت بے کنار ہے! آپ کا خاندان بلاشرکتِ غیرے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ قانون آپ کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے۔ آپ کو کس کا خوف ہے کہ آپ اسلحہ پر پابندی لگا کر اس پابندی کا نفاذ نہیں کرتے؟ جہاں پناہ! آپ پورے صوبے کو چھوڑیے‘ جس شہر پر آپ صوبے کے بجٹ کا اچھا خاصا حصہ صرف کر رہے ہیں‘ کم از کم اُس شہر ہی کو‘ تجربے کے طور پر ہی سہی‘ اسلحہ سے پاک کر کے دکھا دیجیے۔ آپ کے پاس کئی قسم کی پولیس ہے۔ اگر آپ
اسے حکم دیں تو وہ ایک ہفتے میں شہر کے کونوں کھدروں اور تہہ خانوں سے بھی اسلحہ نکال کر آپ کے سامنے ڈھیر کر سکتی ہے۔ آپ اس شہر میں کسی ایسے فرد کو داخل ہونے کی اجازت ہی کیوں دیتے ہیں جس کے پاس اسلحہ ہے؟
انسداد دہشت گردی فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ ہوتی ہے۔ حکمرانِ اعلیٰ ایک جیپ پر سوار ہو کر قدِ آدم کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر جیپ کروفر کے ساتھ وسیع و عریض گرائونڈ کا چکر لگاتی ہے۔ فورس کے جوان سلامی پیش کرتے ہیں۔ اس تقریب کی بھرپور کوریج ہوتی ہے۔ مگر افسوس! کوئی بچہ وہاں ایسا نہیں جو بادشاہ کے لباس کی تعریف کرنے والوں کو بتائے کہ لباس تو ہے ہی نہیں! ؎
لباس تھا ہی نہیں میسر جسے بدلتا
برہنگی ہو گئی پرانی‘ بدل رہا ہوں
انسدادِ دہشت گردی فورس؟ ہاہاہا! ایسی ہزاروں فورسیں بھی آ جائیں تو دہشت گردی کا انسداد نہیں کر سکتیں اس لیے کہ انسداد کے لیے اسلحہ سے پاک معاشرہ درکار ہے۔ کرۂ ارض کا طاقت ور ترین ملک اپنے معاشرے سے قتل و غارت ختم نہیں کر سکا۔ سنگاپور کا فقیر حکمران لی کیوان یو امریکیوں کی حماقت پر ہنسا کرتا تھا۔ اس نے محض گولی چلانے کی سزا موت مقرر کی تھی‘ خواہ اُس گولی سے زخمی بھی کوئی نہ ہوا ہو۔ یوں اس کا ملک جو لاہور سے بڑا نہ تھا‘ فائرنگ سے پاک ہو گیا۔
جہاں پناہ! شہنشاہِ معظم! اگر آپ خود اس شہر کو اسلحہ سے پاک نہیں کر سکتے تو کسی لی کو کچھ عرصہ کے لیے کہیں سے اُدھار لے لیجیے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“