اٹھارہ جولائی کو بعد از نماز فجر ہم اپنے دونوں بچوں کو دونوں ہاتھوں میں سنبھالے گھر سے نکل ، ایک لمبی سی بس میں جا بیٹھے جس نے ہمیں سیدھا راولپنڈی لے جانا تھا۔
اور جو غالبا اپنی طوالت کی بنا پر تیز رفتار تصور کی جاتی ہے ۔ بس کی اندرونی صورتحال دیکھتے ہی ذہن میں اقبال کی غزل کا مصرعہ" ہر شے مسافر ہر چیز راہی" لپک کر آ وارد ہوا اور پنڈی پہنچنے تک چمکارے مارتا رہا۔
بس چونکہ دل ہمدرد رکھتی تھی اس لیے بر لب سڑک کھڑے ہر کس و ناکس کو اپنے ہمراہ لے جانے کی فراخدلانہ دعوت کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا احوال پوچھتی آگے بڑھے چلے جارہی تھی۔ (الیکشن کے زمانے میں قومی مزاج بدل جاتا ہے )۔ ہم بس کی رفتار پر پیچ و تاب کھاتے بار بار گھڑی دیکھتے جس نے آج دوڑ لگا رکھی تھی اور آخر کار جب آسلام آباد کی گلیوں ، چوراہوں اور شاہراہوں پر انتخابی گہما گہمی کو پیچھے چھوڑتے فیصل مسجد کے پچھواڑے واقع آئی آر ڈی گیسٹ ہاوس کے ہال میں پہنچے تو پروگرام شروع ہو چکا تھا اور ڈاکٹر جویریہ ذہنی صحت کے حوالے سے اپنے تجربات سے حاضرین کو مستفید کر رہی تھیں۔
ایک کونے میں ٹک کر ہم نے جو ادھر ادھر دیکھا تو پاس کسی" گائے" کو نہ پایا جس سے ہم انکا مزاج پوچھ پاتے یا جھک کر اسے سلام عرض کرتے۔ سو خود ہی سہج سہج چلتے ایک ڈاکٹر صاحبہ کے جلو میں جا بیٹھے کہ جو سارے پروگرام کا بوجھ اپنے سر پر اٹھائے ذرا جم کر بیٹھی تھیں ہم بھی مرعوب ہوتے ہوئے انکے زیر سایہ ذہنی صحت کے مباحث سننے کی کوشش کرنے لگے۔ کہ اچانک ہمارا موبائل اونچے سروں میں گنگنایا۔ اور ڈاکٹر صاحبہ کی پہلی باقاعدہ ڈانٹ ہماری سماعت سے ٹکرائی۔ " کس قدر نان پروفیشنل " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے جلدی جلدی " نان پروفیشنل "کا اردو ترجمہ کر کے خود کو مطمئن کرتے ہوئے اپنے گھریلو خاتون ہونے پر دل ہی دل میں خود کو تسلی دی ۔اور فون کی طرف متوجہ ہوئے۔ " متاثرین جویریہ سعید " ہمیں" ان "کا معاون سمجھتے ہوئے ہم سے رابطوں کی کوشش میں تھے۔ جلدی جلدی اڑتا ہوا پیغام بھیجا : "ہم اندر ہو چکے اور زباں بندی کی سزا کے سزا وار بھی۔ " اپنی دانست میں ہم نے موبائل کا گلا بھی گھونٹ دیا تھا مگر اس نے پھر صدا بلند کی ۔
اب کے ڈاکٹر صاحبہ نے اسے اچک کر پہلے اسکا خوب گلا دبایا اور پھر اپنے "چیلوں " کے حوالے کر دیا۔ تا کہ ہم پوری طرح" اپنی ذہنی صحت" کی جانب توجہ دے سکیں۔
اب کہ جو خطاب کی طرف دھیان کیا تو ڈاکٹر جویریہ بھی اپنی پروفیشنل زندگی میں مریضوں کی جانب سے آنے والی فون کالز پر ہی گفتگو فرما رہی تھیں۔
ڈاکٹر صاحبہ خطاب کرتے ہوئے انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچی ہوئی تھیں ۔ خود کشی کے کیسز پر بات چل رہی تھی ۔ ڈپریشن سے لے کر خود کشی تک کے مریضوں کے ساتھ معاملہ کے ضمن میں انکی یہ بات ہمیں بہت پسند آئی کہ ایسے مریضوں کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی جانب سے اپنا درد شئیر کرنے کے لیے تسلی سے زیادہ صرف ایک کان اور ایک کندھا درکار ہوتا ہے ۔ نتیجتا ہماری ہمسائی ڈاکٹر صاحبہ کو دوران پروگرام جب جب بھی کچھ بانٹنے کی ضرورت پیش آئی ہم نے جھٹ اپنا کندھا جھکا کر کان پیش کر دیا۔ خدا ہمیں اس نیک عمل پر اجر عظیم سے نوازے۔
پروگرام کی لائیو اسٹریمنگ کے لیے دو تیز رفتار اور حاضر دماغ نمائندے اپنی آنیاں جانیاں دکھاتے ادھر ادھر منڈلا رہے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عین وقت پر جب وائی فائی میسر نہ ہو سکا تو یہ فرشتہ صفت اوربرق رفتار نمائندیاں اپنے موبائلوں پر سروس فراہم کروا کر ملک و قوم کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہو گئیں اور کسی رکاوٹ اور مشکل کو اپنی راہ کا کانٹا نہ بننے دیا۔(خدا جانے انکا متبرک ووٹ کس خوس نصیب پارٹی کو جانا ہے )
ڈ۔ جویریہ کے خطاب کے بعد آئی آر ڈی کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین نے میڈیا پروڈکشن سے وابستہ ایک نوجوان ،کہ نام انکا ریحان تھا ، کو دعوت دی اور دو منٹ میں اپنے تحقیقی سروے کا دلچسپ موضوع سامعین سے شئیر کرنے کو کہا ۔ انہوں نے خواتین میں دبلے ہونے کے کریز کے بڑھتے ہوئے رجحان پر میڈیا کے اثرات کے متعلق اپنے سروے رپورٹ کے متعلق مختصرا بتایا اور کچھ دلچسپ/حیرت انگیز انکشافات کا انکشاف بھی کیا ۔ مگر انکشافات منظر عام پر نہ لائے۔
سوال و جواب کے دلچسپ سیشن کا آغاز ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ کے استفسار سےہوا جنہوں نے سوشل میڈیاپر ڈاکٹر جویریہ کے لکھنے اور انکی پیشہ ورانہ زندگی کے مابین تعلق پر سوال اٹھایا ۔ جسے جویریہ (ڈاکٹر جویریہ لکھتے لکھتےتھک گئی ہوں) نے اپنے چابکدستانہ جواب کا چھینٹا دے کر بٹھا دیا۔
سوشل میڈیا سے وابستہ معروف نام جناب سبوخ سید نے اپنیے سوال سے گفتگو کو آگے بڑھایا۔
الغرض نامور خواتین و حضرات نے اس نشست میں سوال کر کے محترمہ سے کافی کام کے جواب اگلوائے۔
خطاب کے دوران ہم سامعین کی گردنوں کو تائیدا ہلتے دیکھ رہے تھے اب باری جویریہ کی گردن کی تھی ۔ جو" جی جی " کرتے ہلے چلی جارہی تھی اور اس مین فرمانبرداری کا شدید عنصر اس وقت آ گھلا جب ایک صاحب نے خطاب کے مندرجات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک حدیث کا ذکر کیا ۔اور بتایا کہ یہ حدیث سنن ترمذی میں مذکور ہے ۔ اور " ترمذی شریف حدیث کی ایک کتاب ہے " ۔
پروگرام کی دلچسپی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جو اصحاب بمشکل پانچ دس منٹ نکال کر دل رکھنے کو تشریف لائے تھے وہ بھی اٹھ کر نہ جا پائے اور اخیر تک بندھے رہے۔ حاضرین کے ذہن میں مچلتے سوالات کا سلسلہ طویل ہوتا جا رہا تھا تا آنکہ وقت کی تنگی کے پیش نظر مادام سومیہ نے اعلان کر دیا کہ بقیہ سوالات کو کھانے کی نشست پر اٹھا رکھا جائے۔ اور آپ کو تو معلوم ہی ہے بھوک اور کھانے کی اشتہا کے زیر اثر زیادہ تر سوالات خود بخود دم توڑ جاتے ہیں۔
کھانے کے اعلان کے ساتھ ہی لوگ باگ مہمان خصوصی کی جانب لپکے۔ اور ہم حریم ادب کے ان افراد کی جانب ، جن سے غائبانہ تعلق کی گرہ ہمیں کھنچے جا رہی تھی۔ ملنے ملانے اور بچوں کی فرمائشوں کو پورا کرنے سے قبل ہی ہمیں بھی خدا نے خصوصی مہمان سے ملاقات کا شرف بخش ہی دیا۔
فیس بک پر نظر آنے والے بہت سے نام مجسم شکل میں ملتے رہے ۔
نیر تاباں ، فاطمہ الزہرا ، سمیرا امام ، سعدیہ رحمان ۔ ماریہ چوہدری اور حنا احمد اعوان۔
راحت باجی کو گو ہم پہلے کبھی ملے نہ تھے مگر جونہی وہ ہال میں داخل ہوئیں ہماری عقابی /ندیدی نگاہوں نے انکے ہمراہ بچیوں کے ہاتھ میں تھما تھیلا دیکھ کر انہیں پہچان لیا جس میں ہمارے لیے فرمائشی کیک اور بچوں کے لیے رنگ برنگی تصویری کہانیاں تھیں۔
فرحت نعیمہ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی وہ ہمارے بچپن کے ایک بڑے مانوس نام کی صاحبزادی ہیں ۔ انکے والد کی نظموں نے ہمارے بچپن کو قوس قزح کے رنگ دئیے ۔اب خود میرے بچے انہیں شوق سے سنتے اور" ایک بار پھر "کی فرمائش کرتے ہیں ۔ اسحاق جلالپوری صاحب مرحوم جن کی نظموں سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتابیں پر رونق ہوا کرتی تھیں۔ ہم نے بچوں کو بھی جھٹ ملوایا۔ " یہ چوں چوں چوں چوں ، میں اک منا چوزہ ہوں " والے شاعر کی بیٹی ہیں۔ انکی بہت سی نظموں کی ہم نے اپنے بچوں کے حسب حال پیروڈی بھی کر رکھی تھی ۔ خاص طور پر " میری گڑیا بھولی بھالی ،" کی ۔ جب ہم " نیلی نیلی آنکھوں والی "کی بجائے " گھنگھریالے بالوں والی " لگا کر اپنی منی کو دیکھتے تو وہ خواہ مخواہ شرما جاتی بلکہ قدرے اتراتی بھی تھی۔
ظہر اور ظہرانے کے بعد حریم ادب کی غیر رسمی سی نشست تھی مگر اس سے قبل قدرت ہمیں اڑا کر ( اصل میں چلا کر )آئی آر آئی کے دفتر ( واقع فیصل مسجد اولڈ کیمپس iiui )میں لے گئی ۔جہاں جناب سید متین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مبشر حسین سے مختصر سے ملاقات رہی جویریہ کے پروگرام پر اپنی قیمتی رائے کے ساتھ ساتھ متین بھائی نے کمال شفقت سے جویریہ کو کتب اور ہمیں فکر و نظر کی تازہ خصوصی اشاعت کے تحفے سے بھی نوازا ( تصویر بطور سند بنتے بنتے رہ گئی )
میرے بچوں نے وہ بھاری مجلہ آخری وقت تک ادھر ادھر نہ ہونے دیا ، جہاں دیکھتے، یہ کہہ کر گود لے لیتے " ماما ! یہ ہماری کتاب ہے نا " ۔ مبادا کوئی خالہ اس پر قابض نہ ہو جائیں۔
میری عزیز ترین بہن نما دوست (جنہیں ہم عرف عام میں ماسی جی کہتے ہیں) اپنے دفتر سے فارغ ہو کر ہمیں ملنے سیدھا وہیں آ گئی تھیں ۔ ہم حریم کی محفل اور انکو کمپنی دینے کے خیال سے جویریہ کو محفل والوں کے ساتھ چھوڑ کر ادھر ادھر لڑھکتے رہے۔
" میزبان قوم" کونے میں بیٹھی گول میز کانفرنس کرتی رہی اور ہمارے بچوں نے " کب ختم ہو گا " کی گردان کا آغاز کر دیا۔
منزہ اور راحت باجی کی جانب سےلائے گئےکیک کے ساتھ چائے اڑاتے ہم بزرگوں اور بچوں کو بیک وقت سننے کی اضافی عیاشی کے مرتکب ہوتے رہے۔ منزہ اور فرحت باجی کی بچیوں سے ہماری نعت " محمد مسکراتے تھے " سنی گئی۔
محفل جب سمٹنا شروع ہوئی تو میمونہ حمزہ کتابوں سے بھرے تھیلے کے ساتھ یک بیک نمودار ہوئیں اس سے قبل ہم شگفتہ عمر سے بھی کتابچے وصول چکے تھے۔
جب ہم سب سے رخصت ہوتے میمونہ باجی کے ہمراہ رہائشی کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے تو مارگلہ کے سرسبز پہاڑوں پر شام سمٹ رہی تھی ۔ پر شکوہ مسجد کے سفید منارے سر اونچا کیے ہمیں تک رہے تھے اور بہت سالوں پہلے مسجد کے عقبی حصے کے سبزہ زاروں پر پھیلے چلتے پھرتےمنظر اپنی آہٹوں سمیت ہمارے سامنے بکھرتے چلے جا رہے تھے۔
مغرب کی نماز کے فورا بعد پانچ مستورات اور تین بچے ایک منے سے قافلے کی صورت کوہ کے دامن میں واقع جھونپڑے سے نکلے اور کوہ پیمائی کی نیت سے گاڑی میں جا بیٹھے۔
راستے کے اندھیروں کو چیرتے ہوئے جس جا پہنچ کر دم لیا اسے بھی دامن کوہ ہی کہتے تھے۔ ہم نے دل میں " دنیا گول ہے" کی سائنسی حقیقت کو دہرایا اور اونٹ اور اسکے منہ پر بندھا چھینکا دیکھنے لگے بلکہ پورے اعتماد سے چھینکے لفظ پر لغت کی رو سے الٹی سیدھی روشنی بھی ڈالی۔
اونٹ کے علاوہ وہاں بہت ساری دیگر چیزیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں مگر ہماری نظر زیادہ تر آگے ہوتی یا پیچھے رہ جاتی مومنہ اور حرا کی جوڑی پر رہی مبادا اکیلے میں کہیں بچیاں ڈر نہ جائیں یا پھر جویریہ کے ابراہیم پر جو ایک منی سی گاڑی کو رستے کے ساتھ ساتھ نیچے مٹی پر ہاتھ سے چلاتے چلاتے آگے بڑھ رہے تھے۔ سائیکل اور موٹر سائیکل پر تو بہت لوگوں کی سیاحت سے متعلق سنا تھا مگر انگلی کے برابر گاڑی کے ہمراہ سیاحت پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے اس لیے نظر بھر کر دیکھتے رہے۔
جب ہم ذہنی امراض اور تقابل ادیان کی ڈاکٹرنیوں کے سائے میں ،اپنے بچوں کے زیر نگرانی عین مقام خودکشی پر پہنچ چکے تو مقامی ڈاکٹر صاحبہ نے پہیلی ڈال دی۔ " ذرا پارلیمنٹ ہاوس اورسپریم کورٹ کی عمارت ڈھونڈ کے بتاو" جسے اپنی ذہانت کی بنا پر ہم نے فورا بوجھ لیا۔ ساتھ ہی ساتھ بنی گالہ کی چکا چوند روشنیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں جس کا خصوصی تجزیاتی مشاہدہ کیا گیا ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم عمران خان کو وزیراعظم بننے سے قبل ہی کتنی اہمیت دیتے تھے۔
واپسی پر ٹھیلے پر بکتی مضر صحت غذا دیکھ کر ڈاکٹر جویریہ نے اپنی رال ٹپکانے کے ساتھ ساتھ ہماری بھی ٹپکانی چاہی مگر ہم نے ہونٹوں پر فورا بند باندھ دیا تا کہ ہر طرح کی رالیں باہر آکر فساد برپا نہ کریں۔
جویریہ خالہ کے گول گپے اور مومنہ اور حرا کے سوڈے کے چسکوں کے بعد بچوں نے گول گول جھولا لیا اور آئس کریم سے دل بہلاتے ہمیں ویلیج لے جایا جانے لگا۔
صبح جب اپنے ذاتی و اصلی ویلیج سے لمبی بس میں بیٹھ کر دارالحکومت کی جانب رخت سفر باندھا تھا تو خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ رات گئے پھر ویلیج ہی جانا پڑے گا۔
بہرحال جنگلی سوروں کو عبور کرتے ، اپنی زبانوں کو اس کے ناپاک نام سے آلودہ کرتے ہم ویلیج پہنچے تو تھکن سے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ سو ہم تو بچوں سمیت ایک کٹیا میں جا گھسے اور باقی قافلہ کسی پیر جی کو سلام کرنے کی غرض سے گھومنے پھرنے نکل کھڑا ہوا۔
اگرچہ ہم پٹھان نہیں تھے مگر گوشت کا بھرا ہوا طشت بمع مٹی کی ننھی سی ہنڈ کلیا کے ہمارے سامنے حاضر کر دیا گیا۔ بچوں نے حسب معمول فرنچ فرائز سے اپنا پیٹ بھرا اور نیند سے بے دم ہونے لگے۔
سب کے کھا چکنے کے بعد بھی بھرے طشت کا ایک کونہ بھی خالی نہ ہو سکا تھا اسلیے اسے پیک کروا کرگٹھڑی اٹھائی اور نیند میں ڈولتے بچوں کو سنبھالتے واپس دامن میں کوہ کے بسے اسی جھونپڑے میں آ گرے جہاں پیڑ سے گرے کچھ آم اپنی قسمت کھلنے کا انتطار کر رہے تھے۔
تو صاحب ! آموں کا قصہ کچھ یوں ہے کہ خدا نے دو اقسام کے آم ہماری ضیافت کو بھیجے تھے ۔ایک جو خود بخود پیڑ سے ٹپکے اور فطری پیدائش سے ہمکنار ہوئے اور دوسرے ولایتی چوزوں کے ہمزاد۔ ۔۔۔۔ شاخوں سے نوچ کر کیمیائی ادویات کا غازہ ملے ہوئے۔
ہم جو ذرا قصر نماز سے لذت کشید کرنے کو جائے نماز پر کھڑے ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سنگھار میز کے سامنے کھڑا کوئی آم اڑا رہا ہے ۔ اپنے دیہاتی پس منظر کی وجہ سے ہم اسے حسن افزاء شہری ٹوٹکا سمجھ کر مرعوب تو ضرور ہوئے مگر اسے قابل تقلید اس خدشے کے پیش نظر نہ جانا کہ ہو سکتا ہے ہم " ٹاون گرلز " کی طرح اس کام کے آداب سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے اپنا مذاق اڑوا بیٹھیں۔ سو چمکتے دمکتے آموں کا تھال اٹھا کر چھری ہاتھ میں لی اور عین کمرے کے وسط میں دھونی رما کر بیٹھ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آموں کی کشش اور پر اعتماد دھونی کی برکت سے ہمارے اردگرد خواتین حلقہ بگوش طعام ہو گئیں ۔ اور ہم نے تکبیر اولی کے ساتھ چھری آم کے حلقوم پر رکھ دی۔
اگرچہ اپنی شکل و صورت سے ہی چھری مغربی تہذیب کی پروردہ لگ رہی تھی اور ہمارے لیے اس پر اعتماد مشکل ہو رہا تھا مگر قاش کے کٹنے سے تو ہمیں یقین ہو گیا کہ اپنے وزیرآباد سے اسکا دور کا تعلق واسطہ بھی نہیں ہے ۔ اس پر مستزاد آم بھی نئی نسل کی طرح صرف ظاہری چمک دمک سے آراستہ اور باطنی ظواہر سے یکسر خالی تھے ۔ اب اس میں ہمارا کیا دوش ! مگر معزز خواتین کی سرغنہ نے فورا اپوزیشن کا سا رویہ اختیار کرتے ہوئے چھری اور آم ہر دو کو بری قرار دیتے ہوئے سارا الزام ہمارے سر تھوپ دیا ۔ اور ہماری سلیقہ مندی اور سگھڑاپے کو جملہ حاضرین کے سامنے سخت مشکوک بنانے کے لیے ہمارےماضی ، حال اور مستقبل میں سے ایسے ایسے واقعات لا لا کر اپنے موقف کی تائید میں پیش کرنے شروع کر دئیے جنہیں ہم اپنی ذہانت اور مضبوط یادداشت کے علی الرغم بالکل بھول چکے تھے۔ غالبا یہ ساری کاروائی اس جرم کی پاداش میں بطور سزا ہمارے حصے میں آرہی تھی جو ہم سے نادانستگی میں انہیں سنگھار میز کے آئینے میں سے چوری چوری آم کھاتے دیکھ کر سرزد ہو چکا تھا۔
ہم نے بہتیرا اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ، اپنے موقف کو مضبوط بنانے کےلیے انہیں یہ بھی یاد کروایا کہ ہم آم کی اچھی طرح پہچان رکھتے ہیں کہ آخر کار زمیندار گھرانے کی بہو بیٹی ہیں ۔ مگر انہوں نے ہمارے اس بیانیے کو کسی طور قابل غور نہ سمجھا اور اس سے قبل کہ وہ ہمارے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا آغاز کرتیں ہم نے اخلاقی برتری دکھاتے ہوئے اپنا استعفی پیش کیا اور کند چھری اور بے نسلے آموں کا تھال انہی کے حوالے کر دیا ۔
خدا بڑے بول سے بچائے مگر جوش جذبات میں انہوں نے جو قاش کی صفائی سے کٹائی کی خاطر حاضرین پر اپنی دھاک بٹھانا چاہی تھی وہ خود انہی کے گلے پڑ گئی ۔ ہمارا ایمان البتہ ہمیشہ کی طرح تازہ ہو گیا کہ خدا اپنے کمزور اور مظلوم حق گو بندے کو کبھی بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔
کمرے سے باہر رات جوں جوں بھیگتی جارہی تھی اندر گفتگو کے موضوعات اتنی ہی تیزی سے بدلتے جاریے تھے ۔ چنانچہ ہماری بھد اڑانے کے متبرک عمل سےگفتگوکا آغاز جو ہوا تو پھر معیشت ، خاندان ، سیاست ، دین اور تعلیم سے ہوتا ہوا " اب سویا جائے " جیسے حکیمانہ مشورے پر ختم ہوا۔
صبح کاذب میں بس کچھ ہی دیر تھی سو ادھر ادھر کے موضوع گھسیٹتے ہوئے جب آوازیں بالکل بھاری ہو گئیں اور پلکیں نیند سے بند ہونے لگیں تو مسجد کے سفید مناروں سے موذن کی مترنم آواز بلند ہوئی اور سبزہ زاروں پر سے باد نسیم کے سبک رو جھونکوں کی طرح چلتی پہاڑوں کے پار فضاوں میں اتر گئی۔
فجر کی نماز کے بعد نیند نے ہمیں دبوچ لیا اور اس وقت تک قابو کیے رکھا جب تک ہمارے قریب رکھے بیگ میں سے کسی موبائل پر لگے الارم کی چیختی آواز نے ہمیں جھنجھوڑ کر جگا نہ دیا ۔
موت و حیات کے مابین لٹکتے ہم نے پہلے اس زنبیل میں سے موبائل ڈھونڈا پھر اس کے گلے کو گھونٹنا چاہا کہ ہاتھ stop کی بجائے snooze پر جا ٹکا اور ہم اپنے تئیں کام تمام کر کے دوبارہ سونے کی کوشش میں لگ گئےکہ آخر ہمارے اردگرد سارا جہان سو رہا تھا مگر اتنے مین دوبارہ وہی " صدائے ھو " بلند ہوئی اور دوبارہ ہمیں گذشتہ مشق سے گزارتے ہوئے ہماری نیند اڑا لے گئی۔
گھڑی پر نگاہ کی تو صبح کے ساڑھے چھ بجے کا عالم تھا پردے ہٹا کر دیکھا دھوپ چمک رہی تھی پھول کھلنے کے عمل سے گزر چکے تھے اور پرندے بھی گانے وانے سے فارغ ہو کر اب ناشتے میں مصروف تھے۔
بالکونی کے دروازے سے پار چند بے فکر بلیاں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھیں فضا خاموش تھی اور اس میں چڑھتے دن کی تمازت گھلتی چلی جا رہی تھی کمرے میں ایک ردھم سے چلتے پنکھے کی لے کےساتھ ساتھ ہمارے ذہن رسا نے آج کے دن کی مصروفیات میں ایک نئی مصروفیت کے اضافے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
اپنے نیم خوابیدہ ذہن کے ساتھ آج کے دن کی طے شدہ پے در پے سرگرمیوں میں ایک آدھ مزید کے اضافے کے لیے پیش کردہ ہمارا بل جونہی پاس ہوا ۔ جھٹ کراچی بیٹھی امامہ صدیقی کو فون کھڑکا کر جناب احمد حاطب صدیقی صاحب سے رابطے کی صورت نکال لی گئی۔
زمینی صورتحال یہ تھی کہ ناشتے کے فورا بعد ہمیں IMWU( انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ) کی نشست میں پہنچنا تھا جہاں جویریہ کی اکنا سسٹرز کی سرگرمیوں پر گفتگو تھی اسکے فورا بعد جناب سبوخ سید نے اپنی ویب گاہ کے لیے مہمان خصوصی صاحبہ کا انٹرویو طے کر رکھا تھا اور شام میں پیاری دوست منزہ صدیقی کے ہاں عشائیہ تھا ۔ بیچ میں صرف عصر تا مغرب وقت بچتا تھا جس کو خالی جگہ سمجھ کر ہم نے صدیقی صاحب کے گھر کا دورہ اور بچوں کا پارک دونوں زبردستی گھسیڑ دئیے۔
مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ صدیقی صاحب کی رہائش وہاں تھی جہاں پہنچنے کے لیے پورے شہر کو روندنا اور ذرا باہر ویرانوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ اور ہمارے پاس وہاں پہنچنے کو گدھا گاڑی کیا ،گدھا تک نہ تھا ۔ مگر " نظر جنکی خدا پر ہو " اور جو اس طرح کے جہاد میں کشتیاں جلا کر کود پڑتے ہوں ان کے لیے اس طرز کی رکاوٹیں راستے کے روڑے ہی ثابت ہوتے ہیں جنہیں پاوں کی ٹھوکر سے ہٹایا اور چلتے چلے گئے۔
ناشتہ کر کے IMWU کی نشست کے لیے نکلے اور جویریہ کی وہاں ہونے والی گفتگو کے دوران انہیں سننے کے ساتھ ساتھ دو مزید کام کرتے رہے ۔ ایک پہلو میں بیزار بیٹھی اپنی منی کے مسلسل استفسار " یہ جویریہ خالہ کا آخری جملہ ہے بس اسکے بعد ختم"؟ پر " تقریبا " کے جواب کی تسلی ، اور دوسرا احمد حاطب صدیقی صاحب کے گھر پہنچنے کے مختلف قانونی اور غیر قانونی طریقوں پر غور و فکر۔
ادھر جویریہ کی گفتگو کا سلسلہ ختم ہوا اور ادھر خدا نے ہمارے غور و فکر اور ہماری منی کے صبر کے نتیجےمیں نہ صرف چائے کے ہمراہ پکوڑوں اور جلیبیوں سے تواضع کر دی بلکہ صدیقی صاحب کے گھر جانے آنے کے لیے گاڑی کا انتظام بھی ہو گیا۔ مومنہ اور حرا ہماری نیک صحبت سے کافی فیضیاب ہو چکی تھیں اور اب گھر جانے کو پر تول رہی تھیں ۔ ہم نے نیک تمناوں اور آئندہ بھی انکی پھرتیلی میزبانی سے مستفید ہونے کی امید اور دعا کے ہمراہ ان سے رخصت لی۔ اور اپنے اپنے راستے پر چل پڑے۔
دوپہر شدید حبس زدہ تھی اور ساون کی بھڑکیلی دھوپ آنکھوں میں چبھ رہی تھی ۔ جب ہم واپس گیسٹ ہاوس پہنچے تو جسم و ذہن نیند کی کمی کی بنا پر بوجھل اور ستے ستے سے تھے بستر دیکھ کر دل مچلا : " درمیانی سی تان کر کچھ سو لیا جائے " مگر بچوں کے بیزار چہرے " ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" کی یاد دہانی کروا رہے تھے ۔ ظہر کی نماز کے بعد ڈاکٹر جویریہ ، تیمیہ اور سومیہ کی ہمراہی میں" سوئے انٹرویو" روانہ ہوئیں اور ہم تینوں بچوں کے درمیان " قصہ خوانی بازار" کھول کر بیٹھ گئے۔
رنگ برنگی کہانیوں اور آ سہیلی بوجھ پہیلی جیسی دلچسپ سرگرمی سے بچوں کے بگڑے تیور کافی حد تک بحال ہو چکے تھے اسلیے ہم نےموقع غنیمت جان کر کروٹ لی اور کچھ دیر کو آنکھیں موند کر لیٹ گئے۔
خیال ہے کہ ابھی نیند کی وادی کے داخلی دروازے پر ہی پہنچے ہونگے کہ بیبیاں واپس بھی آگئیں اور " اٹھو چلو" کا شور مچانے لگیں۔
بادل ناخواستہ دستک کو ملتوی کیا اور آنکھیں ملتے گاڑی میں آ بیٹھے جس کے مسلسل جھولوں سے ہماری آنکھیں مکمل بیدار اور بچوں کی بند ہونے لگیں اور جب ابراہیم میاں گہری نیند سو چکے اور باقی دونوں سونے کی تیاری میں تھے تو ہم صدیقی صاحب کے دروازے پر جا اترے۔
مہمان خانے کا اجنبی ماحول خاتون خانہ اور صدیقی صاحب کی والدہ محترمہ کی اپنائیت بھری گفتگو اور انکی بیٹی کی بھرپور میزبانی سے جلد ہی اپنائیت اور مانوسی میں بدل گیا۔
اور جب ہم خوشذائقہ پھلوں اور ان سے تیار کردہ مشروبات سے لطف اٹھا رہے تھے امامہ کراچی سے آن لائن ہمارا معلوم نہیں کیا کیا مفصل تعارف اپنے چچا کے گوش گزار کر رہی تھیں۔
صدیقی صاحب آئے تو تعارفی سلسلہ دوبارہ چلا ۔ ہم اور جویریہ تو فیس بک کی برکت سے قدرے معتبر بنے بیٹھے تھے ۔ تیمیہ غالبا نیند کے جھولوں میں تھی۔ ہم نے ذرا اسکی اہمیت بڑھانے اور اسے جگانے کو اسکے بیان کردہ تعارف میں دو چار لقموں کامزید اضافہ کیا اور پھر موقع بموقع گھر سے نکلنے تک اس شغل کو جاری رکھے رہے ۔اس لقمیاتی سرگرمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیقی صاحب کے ذہن میں تیمیہ کا جو ملغوباتی تعارف تیار ہوا اس کی شکل ککر میں تیار کردہ کھچڑی جیسی بن گئی۔
اروی سو چکی تھی اور عمار میاں پھلوں اور مشروب سے سیر ہونے کے باوجود صدیقی صاحب کے خاص طور پر عمار کیلیے منگوائے گئے آموں سے انصاف کر رہے تھے۔
کچھ ادبی اور کچھ خاندانی گفتگو کے دوران صدیقی صاحب کے صاحبزادے عمار بھی آ گئے جو خود بھی شاعری کرتے اور اردو ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ بہت سے دیگر افراد کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر قیصر شہزاد اور ڈاکٹر عزیز ابن الحسن کا خصوصی ذکر خیر بھی ہوا ۔جن سے ملاقات نہ ہو سکنے کا ہمیں قلق تھا۔
اس ساری گفتگو کے دوران اگرچہ ہم کافی چاق و چوبند ہو کر بات چیت کر رہے تھے بلکہ تینوں خواتین میں سے زیادہ گفتگو ہم ہی فرما رہے تھے مگر ذہن ہنوز نیم خوابیدہ تھا۔اسکا اثر تھا یا ہماری قسمت؛ کہ جب بھی ہم کچھ معتبر بن بیٹھیں ایسے مواقع کی تاک میں بیٹھی حماقت ہم سے سرزد ہو ہی جایا کرتی ہے ۔
جب گفتگو کافی لمبی ہو گئی اور شام کے سائے بھی لمبے ہونے لگے تو ہم نے ایک نظر سوئے ہوئے بچوں اور ان سے کیے گئے پارک کے وعدے پر ڈالی اور اجازت کے لیے تمہید باندھنے لگے۔ صدیقی صاحب نے ہمیں اپنا کتب خانہ کی زیارت کروانے کی خاطر بیٹی کو آواز دی ۔ پنکھے کے شور میں ہماری سماعت لفظ " کتب "کو نہ چھو سکی اور " خانے " کی "خ "اس قدر حلق سے ادا ہوئی تھی کہ ہم نے اسے " کھانے " کی پرخلوص آفر سمجھتے ہوئے جھٹ مہذب زنانہ انداز میں انکار شروع کر دیا : " نہیں نہیں ! کھانا تو پہلے سے عطاءالرحمن صاحب کے گھر میں طے ہے ، اس تکلف کی ہر گز ضرورت نہیں "۔ ساتھ بیٹھی خاتون نے ٹہوکا مار کر ہمیں درمیان میں روکنا بھی چاہا ۔سامنے بیٹھی نے آنکھیں دکھائیں ، مگر جوش خطابت بھی آخر کسی جذبے کا نام ہے ۔ تب صاحب خانہ کو وضاحت کرنا پڑی کہ " کتب خانہ " دراصل لائبریری کو کہتے ہیں اور وہاں پیٹ کی بجائے دماغ اور روح کی سیرابی ہوتی ہے ۔
ہم نے ہلکا سا کھسیاتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے میزبان جناب احمد حاطب صدیقی تھے جن کی اپنی گفتگو چٹکلوں ، لطیفوں اور ظرافتوں سے آراستہ ہوتی ہے اگر ہم نے اس مزیدار محفل میں ایک آدھ کا جلی طور پر (خفی طور پر نجانے کن لطیفے سرزد ہوئے ہونگے) اضافہ کر دیا ہے تو اسمیں شرمندگی کاہے کی ۔ اور سر اٹھائے کتب خانے کی جانب جاتی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ جہاں متنوع موضوعات پر رکھی کتب کے بیچ میں ہماری بہن کا افسانوں کا مجموعہ بھی رکھا ہوا تھا ۔ صدیقی صاحب کی زمانہ طالبعلمی کی یادداشتیں ۔مختلف فائلوں اور ڈائریوں کی شکل میں محفوظ تھیں اور ہمارے بچوں کے لیے انکی لکھی نظموں کا مجموعہ اور کہانیوں کی کتابوں کے سیٹ بمع مصنف کے دستخط کے بطور تحفہ پیش کیے جانے تھے۔
چراغ راہ اور سیارہ کی فائلوں کو دیکھ کر ہمیں بھی ذرا شیخی بگھارنے کا موقع مل گیا جسے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ہاں موجود مختلف مجلوں کی قدیم مجلد فائلوں کے بارے بھی بتایا ۔ ایک بھرپور ،دلچسپ اور یادگار ملاقات کے بعد شام ڈھلے وہاں سے رخصت ہوئے اور مغرب کی ادائیگی کے لیے تیمیہ کے گھر جا اترے کہ اب اس سے بھی رخصتی کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
بچوں کی قسمت کا چکر کہیے یا ماوں کی ، نماز مغرب کے بعد جو پارک کا رخ کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ بچوں کی دلچسپی کا حصہ مغرب کے بعد بند ہو جاتا ہے ۔سو گاڑی میں بیٹھتے ہی ہر" درد کی دوا "منزہ کو فون کھڑکایا ۔ مسئلہ سنتے ہی چٹکی بجاتے ہوئے بولی : " آپ سیدھے میری طرف چلے آئیے ، بچوں کے لیے بھی حل نکال لیتے ہیں " ۔
ہم نے تسلی و دلاسے کا یہی پھاہا بچوں کے غمزدہ سینوں پر رکھا اور خدا کے آسرے پر چلتے منزہ کے دروازے پر آ اترے ۔
استقبال کے لیے رنگ برنگی پریاں قطار اندر قطارپرے باندھے کھڑی تھیں ۔ کھانا تیار تھا اور گھر تو یقینا اپنا ہی تھا ۔ اس لیے ہر طرح کے تکلفات کے چولے اتار کر ہم کچھ دیر بیٹھے پھر دندناتے پھرے۔ بچوں کو بھی صدیوں بعد شاید کوئی " گھر " دیکھنے کو ملا تھا جہاں بچے تھے کھلونے تھے کتابیں تھیں اور ہر چیز بلا روک ٹوک اپنی تھی۔ اس لیے کچھ دیر کیلیے پارک انکے ذہنوں سے بالکل محو ہو گیا ۔
اور وہ دوڑنے ، بھاگنے بلکہ رسی تک پھاندنے میں مگن ہو گئے۔
اگرچہ ہم نے مختصر سے ناشتے کے بعد باقاعدہ ظہرانہ گول کر کے ادھر ادھر کی بطور ضیافت پیش کردہ چیزوں کو" چرنے چگنے" پر ہی اکتفا کیا تھا مگر بھوک ابھی بھی اپنی شدت کے ساتھ نہ بھڑکی تھی نیند البتہ سارے دن سے ہلکی ہلکی لو دئیے چلی جا رہی تھی۔
اسے بھگانے کی خاطر ہم نے باتوں کی آنچ تیز کی اور جویریہ کے سامنے اپنےاور منزہ کے تعلق کی تہہ در تہہ پرتیں کھولنے لگے ۔ جملہ حاضرین ہماری رواں تقریر سے خوب متاثر نظر آنے لگے تو جوش جذبات میں ہم نے صاحب خانہ کا پورا نام بمع سابقہ و لاحقہ لینا مناسب سمجھا۔ منزہ نے نظر اٹھا کر اچنبھے سے ہمیں دیکھا ۔ ہم پر اعتماد تھے بلکہ دن میں جناب احمد حاطب صدیقی کے سامنے بھی اسی لاحقے کے ساتھ میزبان کا تذکرہ کیا تھا۔ اس سے قبل کہ ہم مزید فصاحت کے دریا بہاتے ۔ منزہ نے مارے مروت کے قدرے منمناتے ہوئے تردید کی " ہمارے میاں کا پورا نام یہ نہیں ہے " ۔
اب عین کلائمکس پر مقررکو ٹوک کراسکے دعوی کو جھٹلانے کی جسارت کس قدر حکمت اور آداب کے خلاف ہے اس نظرئیے کے پیش نظر ہم نے بھی جوابا انہیں جھٹلانے کی کوشش کی۔ جسے اب تک مودب بیٹھی اور ہماری تقریر سے کسی حد تک مرعوب نظر آتی جویریہ نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا : " دیکھیے ! انکے میاں ہیں ، اتنی معلومات میں تو انہیں برتر تسلیم کرنا ہی چاہیے"۔ اور تم جانو کہ ہماری تقریر کا سارا طلسم ہی ٹوٹ گیا۔
کھانے کے بعد بچوں کی یادداشت واپس لوٹ آئی ۔اور " باہر چلیں نا " کی رٹ شروع ہو گئی۔ منزہ کی دس سالہ جڑواں بچیوں نے اقبال کا شکوہ جواب شکوہ سنا کرخوب داد سمیٹی اور ہمارے بچوں نے صرف اودھم مچا کرمنزہ خالہ سے " میرا اقبال " کی سی ڈی بطور تحفہ وصول کی۔
اب سب گاڑی میں لد کر سینٹورس کو روانہ ہوئے کہ ساون رات کے اس سمے ان ڈور کے علاوہ کوئی بہتر چناو بچوں کی خاطر ممکن تھا۔
گاڑی بچوں کے پر رونق اور خوش باش چہروں سے روشن تھی منزل آنے سے پہلے ہی انہیں مزہ آ رہا تھا ۔ جلدی جلدی بھاگ بھاگ کر گرتے پڑتے سب سے اوپر پہنچے ۔ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ وقت ختم ہو چکا تھا اور دروازے بند ۔
ہمیں ہنسی اور بچوں کو رونا آ گیا۔ مگر بھلا ہو برقی سیڑھیوں کا ۔ اترنے کا جھولا ہی سہی۔ وہیں فرحت باجی اور انکے بچوں سے دوبارہ ملاقات ہو گئی۔
مگرتھکاوٹ اور نیند نے ہمیں ایسا نڈھال کر دیا تھا کہ اس ملاقات کا وہ لطف نہ آیا۔
واپسی پر میزبان خاندان نے ناکردہ گناہ کے کفارے کے طور پر سب بچوں اور بڑوں کو اپنی اپنی پسند کی آئس کریم کھلائی اور ہمیں گیسٹ ہاوس لا اتارا۔
بچے تو پڑتے ہی سو گئے ۔ہمیں ابھی نماز، ہوائی سفر کا ٹکٹ کی فراہمی اور دیگر اسباب کو باندھنا تھا۔
" نیند اے نیند ہمیں اب نہ جگانا لوگو" کا ترانہ پڑھتے ہم سو تو گئے مگر ذمہ دارانہ نیند ۔
دوسری صبح جب ہم الارم پر فورا اٹھے ، خود نماز پڑھ کر جویریہ کو جگایا تو بڑا دل مچلا " کوئی وڈیو کیمرہ ہوتا اور ہماری کارکردگی براہ راست مس تیمیہ صبیحہ تک نشر کرتا" ۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
مومنہ اور حرا جیسی فرشتہ صفت اور فرض شناس عکاس بھی اپنے گھر کی ہو چکی تھیں۔
فضا مکمل خاموش تھی ۔ بچے ہی کیا ، ہم خود بھی مزید سونا چاہتے تھے لیکن ۔۔۔ تیمیہ کو اب گھر بیٹھے بھی چین نہیں تھا۔ " باہر نکلو ، ڈرائیور چیک کرو ۔ نہیں آیا تو اسے جگاو، ناشتے کے لیے لیاقت اٹھا یا نہیں۔ " سو ہماری تعمیلانہ بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ اول دروازوں پر ڈھول بجانے کے بعد
آنکھیں ملتے لوگوں سے باری باری پوچھ رہے ہیں ۔ " لیاقت صاحب آپ ہیں؟ ناشتہ بنائیے "
سمیع صاحب آپ ہیں ؟ گاڑی نکالیے"۔
اس لمحے ہمیں پطرس کی " سویرے جو کل آنکھ" شدت سے یاد آئی۔
بعینہ وہی رویہ لیاقت صاحب ، اور سمیع صاحب نے ہمیں لالہ جی سمجھ کر روا رکھا ۔ ہم بھی انہیں فرض شناس سمجھ کر آ بیٹھے ۔ تا آنکہ فون پھر کھڑکا ۔
اور ہم پھر باہر کو بھاگے ۔ نئے سرے سے ڈھول اور تعارف۔
انسان کتنا ہی کامیاب مقرر کیوں نہ ہو ۔ صبح ہی صبح خاموش رہنا چاہتا ہے پھرہم تو اب کافی دیر خاموشی کا ریاض کرنا چاہتے تھے کہ آواز بھی اس وقت کوئل کی سی بھاری ہو رہی تھی ۔ اس لیے آپس میں ہم نے صرف ناگزیرضرورت کے تحت گفتگو کی ۔ " یہ بیگ میں لے جاوں ؟ یہ بچہ تم لے آو " ۔
اور جب ہم گاڑی میں سامان رکھ کراس ہو کے عالم سے باہر نکلنے کو تھے تو ایک بار پھر انہی صاحب سے ، جنہیں ہم نے ڈھول پیٹ پیٹ کر خواب غفلت سے جگایا تھا، پوچھ بیٹھے : " لیاقت صاحب کون ہیں ؟ "
کچھ شرما کر یا شاید جھنجھلا کر عرض کیا : " جی ! میں ہی ہوں ۔"
" اچھا تو پھر یہ ورقہ اسماعیل صاحب کو دے دیجیے گا" ۔
اور ہم ہوائی اڈے چل پڑے۔ سورج آہستہ آہستہ اوپر چڑھ رہا تھا خاموشی بھی ہولے ہولے ٹوٹنے لگی تھی۔ بچے انگڑائی لیتے شہر کو دیکھ رہے تھے ۔ ہم دونوں اس سارے سفر میں اپنی خاص مشترکہ دلچسپی کے موضوعات پر بات کرنے کوپہلی بار اکیلے ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا جہاں سے ہماری دوستی کا آغاز ہوا تھا ، کتابیں اور تحریریں ۔۔۔ ہائے ! کتنے موضوع قطار باندھے کھڑے تھے ابھی ابھی تو ہمارا ذہن جاگا تھا مگر ہوائی اڈہ آ گیا ۔
گاڑی سڑک کے کنارے پر سرکی اور رک گئی ۔ جویریہ کی لوٹی ہوئی کتابوں کا بھاری کارٹن اندر لے جانے کیلیے ٹرالی درکار تھی ۔ میلوں پھیلے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آدھے گھنٹے کی خواری اور تلاش کے بعد ٹرالی کی شکل نظر آئی بلکہ جویریہ ہی کہیں سے بازیاب کروا کر لائیں ۔ جس کے ٹائر بہت دھکا لگانے سے حرکت پر مجبور ہوتے تھے ۔ ڈرائیور نے کتابیں ٹرالی پر لادیں ۔ ہم نے ابراہیم میاں اور انکی اماں کو خدا اور ہوائی اڈے کی انتظامیہ کے حوالے کیا ۔اور قافلے والے اپنے دلوں میں ایک ہی شعلے کی بھڑک لیے دو مختلف سمتوں کو چل پڑے۔
(تمت بالخیر)