(Last Updated On: )
سفر پسند کبھی تھا نہ ہوں کہ چلتا رہوں
وہ بے گھری ہے مگر جوں کی توں کہ چلتا رہوں
تمہارے ساتھ سے مطلب ہے منزلوں سے نہیں
قدم قدم پہ ہے ایسا سکوں کہ چلتا رہوں
نہ رنجِ آبلہ پائی نہ خوفِ دربدری
الگ ہی دُھن ہے کوئی ان دنوں کہ چلتا رہوں
کہیں پہنچنا بھی ہے اور چلنا بھی مشکل
عجیب مخمصے میں ہوں رکوں کہ چلتا رہوں
یہ گمرہی تو کبھی ختم ہونے والی نہیں
سو زہزنوں سے بھی ملتا چلوں کہ چلتا رہوں
پتے کی بات کھڑے پانیوں سے سیکھی ہے
طرف کوئی بھی ہو بہتا رہوں کہ چلتا رہوں
نہ رہبروں سے شکایت نہ رہزنوں سے گلہ
مری تو اپنی بھی چاہت تھی یوں کہ چلتا رہوں
نہ سنگِ میل ، نہ نقشِ قدم ، نہ قطب نما
نہ ضو فگن ہے فلک نیلگوں کہ چلتا رہوں
کٹھن ضرور ہے مانا یہ زندگی کا سفر
شکستہ پا ہوں پر اتنا تو ہوں کہ چلتا رہوں
تلاشِ ذات بھی کاشر عجب مصیبت ہے
تھکن سے چور ہوں لیکن جنوں کہ چلتا رہوں