(Last Updated On: )
جب ماتحت، نوکر اور ملازم کی خرمستیاں، بدتمیزیاں اور گستاخیاں بہت زیادہ بڑھ جائیں تو بعض اوقات مالک یا آقا اسکو شرمندہ کرنے کے لیے اور اس میں احساس ندامت تازہ کرنے کے لیے سزا دینے کی بجائے اس پر مزید احسانات چڑھا دیتا ہے کہ شاید اس طرح زیربار ہو کر یہ اپنی حیثیت پہچان لے اور پلٹ آئے۔ ہمارا حرمین شریفین کی زیارت کا سفر بھی کچھ اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔
ہم ایک غیرملکی ہوائی کمپنی کے دیوہیکل جہاز پر سوار ہوئے۔ راستے میں جب اس جہاز نے اپنے قومی ہوائی اڈے پر مختصر قیام کیا تو ہم نے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احرام باندھ لیا اور لبیک اللھم لبیک کا ورد کرتے ہوئے اگلے طیارے میں سوار ہو گئے۔ بعد نماز ظہر حجاز مقدس کی سرزمین پرآن اترے۔ مقامی ایجنٹ وہاں موجود تھے، ہوائی اڈے سے نکلتے ہی ہمارے پاسپورٹ انہوں نے اپنے قبضے میں کر لیے۔ یہ رویہ غالباَ صرف پاکستانیوں کے ساتھ ہی ہے اسکی وجہ ماروطن میں زبان زد عام و خاص ہے۔ ہمیں سرزمین مکہ کے لیے ایک بس میں سوار کیا گیا،عصر کا وقت راستے میں ہی داخل ہو گیا اورڈرائیور نے ہمیں جدہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک مقام پر مسجد میں نماز ادا کروائی، ہر چند کہ ہماری خواہش تھی کہ کسی طرح حرم مکہ میں ہی یہ نماز ادا ہوتی۔ مکہ مکرمہ میں ہوٹل میں سامان رکھا اور عازم حرم ہوئے۔ یہ شہر جہاں آج بھی ایک سبز پتہ تک نہیں اگتا لیکن دنیا بھرکی ہر نعمت یہاں میسر ہے۔ یہ اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے کہ دنیا بھرکے کارخانوں سے سامان سے لدے پھندے بحری جہاز آتے ہیں اور گاہکوں سے بھرے ہوئے ہوائی جہاز پہنچتے ہیں اور دنوں ہی دنوں میں مکہ مکرمہ کی سرزمین پر یوں خالی ہو جاتے ہیں جیسے انکا وجود ہی نہ تھا۔ سڑک کے دونوں جانب دنیا کی چمک دمک دیکھتے ہوئے ہم خانہ خدا کی جانب رواں دواں تھے، ایک دروازے سے حرم محترم میں داخل ہوئے اورسامنے کعبۃ اللہ پر نگاہ پڑی، جاہ وجلال سے قدم رک سے گئے، آنکھیں تر ہو گئیں زبان سے کیا دعا کرتے بس سب دعائیں دل سے نکلتی ہو ئی آنکھوں کے راستے اظہار ہو گئیں۔
حجراسود سے طواف کا آغاز کیا، ایک جم غفیر تھا جو ہمارے ساتھ یا ہم اسکے ساتھ محو طواف تھے۔ یہ اپنے طرز کی دنیا میں واحد عبادت ہے، زمین کے سینے پر اور اس نیلی چھت کے نیچے کسی اور جگہ، مقام یا حجرہ کا طواف نہیں کیا جاتا اور فرض نمازوں کے علاوہ گزشتہ چار ساڑھے چار ہزار سالوں سے اس کمرے کا طواف جاری ہے اور کبھی اس میں توقف نہیں آیا الاماشاء اللہ۔ یہ اس عظیم کائنات کی سنت ہے کہ ہر چھوٹا اپنے سے بڑے کا طواف کرتا ہے، چاند زمین کا طواف کرتا ہے اور زمین اپنے سے بڑے سورج کا طواف کرتی ہے اور انسان اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کرتے ہوئے اسکے گھر کا طواف کرتا ہے۔ تکمیل طواف کے بعد ہم نے آب زمزم پیٹ بھر کر نوش جان کیا کہ یہی میرے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ ایک نبی علیہ السلام کے پاؤں سے پھوٹنے والا چشمہ جو گزشتہ ساڑھے چار ہزار سالوں سے جاری وساری ہے اور جس سے کروڑ ہا لوگ ہر سال آبیار ہوتے ہیں اور بھر بھر کر اپنے علاقوں میں بھی لے جاتے ہیں تب بھی اس چشمے کے بہاؤ میں کوئی رتی برابر کمی نہیں آئی اور ایسا کیونکر ہو کہ میرے آقائے نامدار ﷺ نے اس چشمے کے پانی کو منہ میں لیکر اسے ”جھوٹا“ نہیں بلکہ ”سچا“ کر کے واپس اس کوئیں میں الٹ دیا تھا اس ”سچے“ کے منہ سے ”سچا“ کیا ہوا پانی قیامت تک اپنی سچائی دنیا پر ثبت کرتا رہے گا یہ اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں جو چاہے ان کو مانے اور جو چاہے تپتی دوپہر چمکنے والے اس ماہتاب کا انکار کرکے ابو جہل کی صف میں داخل ہوجائے۔
ہم ادائے عمرہ کے لیے رکن ثانی ”سعی بین الصفا والمرہ“ کی جانب بڑھے۔ ایک مامتا کی دوڑ خالق کائنات کو کس قدر پسند آئی کہ تا قیامت اس خدا کو خوش کرنے کے لیے آسمان پر ستاروں سے اور زمین پر ریگستان کے ذروں سے سینکڑوں گنا کثیر تعداد لوگ لاکھوں روپے خرچ کر کے اور ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے تو اس ”ماں“ کی سنت کو تازہ کرتے رہیں گے اور صفا اورمروہ کے درمیان دوڑتے رہیں گے اور عین اسی طرح دوڑیں گے جیسے وہ ایک ”ماں“ دوڑی تھی، دو سبز بتیوں کے درمیان تیز تیز اور باقی سفر دھیما لیکن دھیان اور نظریں اسی کعبہ کی طرف رہیں گی جس کے جوار میں ایڑھیاں رگڑتا ہوا اس ”ماں“ کا بچہ بلبلا رہا تھا۔ کیا اب بھی کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نبیوں کا لایا ہوا دین عورت کو اسکے حقوق سے محروم کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسلام نے ہی عورت سمیت انسانوں کے تمام طبقات کو اسکے صحیح حقوق و فرائض سے آشنا کیا ہے۔ جبکہ انسانوں کے بنائے ہوئے اصولوں اور ضابطوں نے افراط و تفریط اور استحصال کے سوا کچھ نہیں دیا۔
سعی کی تکمیل کے بعد حلق کرنے کایا بال کٹوانے کا مرحلہ درپیش تھا، ہم نے اپنے بوجھے سے قینچی نکالی اور بال کتر لیے اور احرام سے آزاد ہو گئے۔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ مکمل گنج جسے اصطلاح میں ”حلق“ کہتے ہیں کرانی چاہیے تھی۔ ہم نے عرض کیا نبی آخرالزماں ﷺ نے حلق کرانے والے کے لیے دو دفعہ اور صرف بال کتروانے والے کے لیے ایک دفعہ دعافرمائی ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کی ایک دفعہ کی دعا اور وہ بھی آخری نبی ﷺ جیسی ہستی کی ایک دفعہ کی دعا ہم گنہگاروں کی قسمت بدل دینے کے لیے کافی ہے۔ یار لوگ اس پر خاموش تو ہو گئے لیکن ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ تسلی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد جتنی بار بھی عمرہ کیاہم نے بال ترشوا کر احرام اتار دیا کیونکہ کتب شریعت میں اسکی گنجائش موجود ہے۔
یہ حرمین شریفین کی طرف ہمارا تیسراسفرتھا۔ اس بار آغاز سفرتااختتام ہم نے تمام اسفارکے لیے دن کے اوقات چنے تھے۔ عموماَ حاجیوں کے لیے رات کے اوقات میں سفررکھے جاتے ہیں، ایک حرم سے بعد عشاء انہیں سواری میں بٹھایاجاتاہے اور اگلے حرم میں فجرسے پہلے پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ حاجیوں کو نماز حرمین کا اجر و ثواب مل سکے۔ حجازمقدس کے روشن مشاہدے کے لیے ہم نے اس کے برعکس دن کے اوقات سفرکا انتخاب کیا۔ اس دوران دو امور نے ہمیں غرطہ حیرت میں ڈالا۔ مکہ سے مدینہ سفرکے دوران ہمیں لق ودق صحراملا، کافی کافی دیربعد کہیں کہیں کھجورکا بے سایہ درخت نظر آتا تھا۔ سینکڑوں میل کے سفرمیں بمشکل کوئی اکادکا بستیاں نظرآئیں جن کے نواح میں کچھ گدڑییے اپنی بھیڑوں کے ریوڑچرارہے تھے۔ پہاڑی علاقے کے باوجود کہیں کوئی سبزہ، کوئی پانی کی آبشار اور کوئی بہتی ہوئی ندی یا کوئی دلفریب منظر نظر نہیں آیا۔ ان سب پر مستزادیہ کہ دوران سفر دوپہر کے وقت بس نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تاکہ مسافرضروری حاجات سے فارغ ہو لیں تو ہم نے سڑک کے اردگرد پڑے پتھر اٹھا کر دیکھے، ان پتھروں کو ہٹا کر سڑک بنائی گئی تھی۔ یہ پتھرانتہائی بدشکل، کالے اور بہت ہی بدصورت تھے۔ ہم بچپن میں ایک بار بلوچستان گئے تھے تووہ بھی اگرچہ ایک بے آب و گیاہ اور خشک پہاڑوں کا علاقہ تھالیکن وہاں اتنے خوبصورت نقش و نگاروالے پتھرتھے کہ ہم کچھ پتھرساتھ اٹھا لائے اورانہیں اپنے مہمان خانے کی زینت بنائے رکھا۔لیکن سرزمین حجازکے یہ پتھر دیکھنے کے قابل بھی نہیں تھے۔اس جیسی سرزمین سے اسلام جیسے باغ و بہاردین کا میسرآجانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔دوسراقابل ذکر امر اس سرزمین پر بسنے والے افرادہیں،ان کی اخلاقی حالت،ان کی تعلیمی کیفیت،اکیسویں صدی کی دہلیز پربھی اہل عرب کی بودوباش اور تہذیب و تمدن اوراکل و شرب دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ان جیسے لوگوں میں رحمۃ اللعاملین کی بعثت بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ ہے کہ وہ اندھیروں سے روشنیوں کو نکال لاتاہے اور مردہ زمین سے زندہ مخلوق نباتات اگالاتاہے۔
حرم مکہ مکرمہ میں تمام مسلمان ملکوں اور قوموں کی نمائندگی موجود تھی۔ہرقوم اپنے رنگ،زبان یا لباس سے پہچانی جاتی تھی۔ترک مسلمان عورتوں مردوں نے خاکی رنگ کے کپڑے اوربڑی بڑی جیبوں والے کوٹ پہنے ہوتے تھے اور گروہ کی شکل میں طواف کرتے تھے،انڈونیشیا اور ملائشا کی خواتین و حضرات نے سفیدلباس اور مردوں نے خاص طرز کی ٹوپی اوڑھ رکھی تھی،ایران کے لوگ اپنے اپنے گروہ کے خاص لباس میں ملبوس ہوتے تھے،کسی نے مکمل سفید لباس زیب تن کیا ہوتا تو کسی کسی گروہ نے سفید لباس پر سیاہ عبا چڑھائی ہوتی اور انکی گروہوں کے نام اور شہروں کے نام انکے کپڑوں کی پشت پر درج ہوتے۔عرب اقوام کے لوگ اپنی”توپ“میں ملبوس ہوتے اور انکی خواتین سرسے پاؤں تک سیاہ عبایا میں ڈھکی ہوتی تھیں حتی کی ہاتھ بھی سیاہ دستانوں میں چھپے ہوتے تمام اقوام کے گروہ کسی ایک امام کے پیچھے ایک آواز میں اسکی اقتداکرتے اور مناسک طواف و عمرہ ادا کرتے۔چند ہفتوں کے نومولود سے چند ہفتوں کے منتظر بزرگوں تک ہر عمر کے لوگ کعبۃ اللہ کے گرد نظر آتے تھے۔ان میں اکثریت ایرانیوں کی تھی جوایک منظم قوم کا نظارہ پیش کرتے تھے۔ہم برملا یہ بات کہتے ہیں کہ آفرین ہے ایران کے اثنا عشری علماء کو جو ایک مختلف مکتب فکرکے امام کے پیچھے خود بھی نمازیں ادا کرتے تھے اور اپنی قوم کو بھی اپنے ساتھ نمازیں ادا کرواتے تھے۔انکی نماز اور انکی نمازوں کے اوقات بھی بہت مختلف ہیں لیکن انکی اعلی ظرفی اور وسیع القلبی کے ہم عینی شاہد ہیں۔ایک بار نہیں متعدد بار ہمارے دائیں بائیں اہل تشیع نمازی ہی تھے جو نماز کے اختتام پر خوشی سے دونوں جانب کے مسلمانوں سے مصافحہ بھی کرتے تھے اور ہم نے کبھی ان میں اجنبیت محسوس نہیں کی۔ہم دعا گو ہیں اللہ تعالی یہ ظرف امت کے تمام مکاتب فکر کو عطا کرے۔
صرف پاکستانی مسلمان ہی تھے جنہوں نے رنگ برنگ لباس اور طرح طرح کی اوڑھنیاں اوڑھ رکھی تھیں،باقی سب اقوام کے افراد گروہوں کی شکل میں ہوتے تھے جبکہ پاکستانی کثیرتعداد میں ہونے کے باوجودبکھرے ہوئے ہوتے اور باقی اقوام کے لوگ اپنے مقامی علماء کے پیچھے پیچھے چلتے اور ہم دیکھتے کہ انکے علماء طواف یا عمرہ شروع کرنے سے پہلے انہیں ایک طویل درس دیتے اور جملہ مسائل بتاتے اور انکے سوالات کے جواب دیتے اور پھر دوران مناسک بھی وہ علماء اپنے گروہوں کے یمن و یسار ہوتے جبکہ پاکستانیوں کے لیے ایسی کوئی سہولت نہ تھی اور غلطیوں پر غلطیاں کرتے تھے یا پھر کتابوں سے پڑھنے کی کوشش کرتے جہاں سے ہر الجھن کا جواب تو ممکن نہ ہوتاتھا۔اگرچہ یہ عمرہ کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قافلوں کی صورت میں لوگوں کو روانہ کریں اور ہر قافلے کے ساتھ ایک عالم دین ہو جو انکی راہنمائی کرتا رہے تاہم حجاز مقدس میں پاکستانی حکومتی مشن بھی چاہیں تو جہاں دیگر مختلف محکموں کے لوگ تعینات کیے جاتے ہیں وہاں علماء کو بھی تعینات کر کے تو حاجیوں کی راہنمائی کافریضہ سرانجام دیا جائے۔
کچھ دنوں کے بعد ہوٹل والوں نے ہمیں مدینہ منورہ روانہ کیا۔ہم علی الصبح بس میں سوار ہوئے ہمارا خیال تھا ظہر کی نماز جوار نبوی ﷺ میں ادا کریں گے لیکن تاخیر کے باعث ہم بروقت نہ پہنچ سکے۔ یہ وہ شہرمقدس ہے جہاں دنیا کی تاریخ نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ آج ہر فن کی تعلیم اسکے بانی کے ذکر سے شروع کی جاتی ہے لیکن افسوس کی انسانیت کی تعلیم اسکے بانی کے ذکر سے خالی ہے۔ یہ شہرمقدس انسانیت کی اولین آماجگاہ ہے اور اس شہر کا بانی انسانیت کا بانی ہے۔ محسن انسانیت ﷺ سے پہلے کسی ریاست کے تحریری دستورکا تصور ہی نہ تھا، دوردورتک یہ خیال ہی نہ تھا کہ جنگی قیدی کو بھی زندگی کا حق حاصل ہے، دشمن کی معافی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اور اسی بار ہمیں ایک دوست نے مکہ مکرمہ میں وہ مقام دکھایا جہاں بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا،غلام اورحقوق دو متضاد الفاظ تھے یہ اس شہر مقدس میں برپاہونیوالے معاشرے کا کمال ہے کہ انسانوں کو انسانیت میسر آئی۔
مدینہ منورہ کا ایک ایک ذرہ مقدس زیارت گاہ ہے۔ ہمیں میدان احد لے جایا گیاجہاں سیدالشہداکی قبر مبارک پر فاتحہ کی سعادت نصیب ہوئی، میدان خندق کا نظارہ کیا جہاں عوام نے ایک پتھر اور قیادت نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے، کھجوروں کے باغات دکھائے گئے جو ڈیڑھ ہزارسال کے بعد آج بھی تروتازگی کا زندہ شاہکار تھے، بئرعثمان کوتو ڈھانک دیا گیا ہے لیکن وہ جگہ ہم نے بس میں بیٹھے بیٹھے دیکھی۔ جنت البقیع میں چار شہزادیوں اور امہات المومنین کی قبروں کی زیارت کی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ روزانہ شام کے اوقات میں ہم اپنے دوستوں کے ساتھ حضور ﷺ کے قدموں کی جانب رات گئے تک بیٹھے رہتے کہ ان قدموں کے صدقے اور انکے طفیل اور انہیں کے توسط سے ہی دارین کی کامیابی و کامرانی ممکن ہے۔
کم و بیش ایک ہفتہ کے بعد ہم بوجھل قدموں سے جانب مکہ مکرمہ عازم سفر ہوئے۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کیا لیکن سچی بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے بچھڑنے پر ایک ڈیڑھ دن تک طبیعت بہت سوگوار رہی اوراداسی وپژمردگی سی مزاج پر طاری رہی تاہم ایک بار پھر کعبۃ اللہ نے ہمارا دھیان اپنی طرف کھیچ لیا اور اب چونکہ واپسی کا سفر سرپرسوار تھا اس لیے توجہ تقسیم در تقسیم ہو تی چلی گئی۔ سعودی حکومت نے حرمین کے انتظام و انصرام پر پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے۔حاجیوں کی ہرتکلیف کا فوری ازالہ وہاں موجود ہے، صفائی تو حرمین پر ختم ہے چوبیس گھنٹے دن رات چاک و چوبند عملہ صفائی پر مامور ہے۔ زمزم کے سینکڑوں نہیں ہزاروں کولر موجود ہیں اور کبھی کوئی خالی نہ ملا۔ وہاں کی ٹریفک حاجیوں کو دیکھ کر ہارن نہیں بجاتی بلکہ رک انہیں راستہ دیتی ہے۔ حرم کعبہ کے دو اطراف میں توسیع حرم کا کام دن رات زوروشور سے جاری ہے ہمارا اندازہ ہے کہ حج تک یہ کام تکمیل یافتہ ہو چکے گا۔ آخری رات ہم نے آخری طواف کیا اور دعامانگی کہ اے بار الہ ہمیں ایک بار پھر اس گھر میں لانا کہ سفر ندامت ابھی نامکمل ہے۔