اگر دو بالکل مختلف الخیال افراد یہ قسم کھا کر کسی چائے خانے میں گفتگو کرنے بیٹھیں کہ ہم اختلافی موضوع چھیڑیں گے ہی نہیں تو یقین جانئے ان کے درمیان گھنٹوں گفتگو ہونے کے باوجود بحث کی نوبت نہیں آئے گی۔ ٹھہرے پانی میں کنکر مارا نہ جائے تو ارتعاش کا کیا سوال؟۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ادب کا ہے۔ جب تک آپ بے آزار اور دل لگتی کہتے رہیں گے تب تک عافیت ہے لیکن جوں ہی آپ نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی طوفان بپا ہونا طے سمجھئے۔ مجھے لگتا ہے کہ اشعر نجمی کو عافیت پسند نہیں ہے۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اشعر نجمی کے پہلے ناول ‘اس نے کہا تھا’ پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسے ‘بولڈ’ کہا تھا۔ میرے خیال میں اشعر نجمی کا نیا ناول ‘صفر کی توہین’ ‘بولڈ’ سے بھی آگے کی کوئی منزل ہے۔ یہ ناول کوئی ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے جنہیں لکھنے کے لئے فکشن نگاری کی استعداد سے پہلے آپ کو ایک اور صلاحیت درکار ہوگی۔ اس صلاحیت کو ‘اشعر نجمی ہونا’ کہتے ہیں۔
اشعر نجمی کا پہلا ناول ‘اس نے کہا تھا’ LGBTQ کمیونٹی پر تھا۔ اب ان کا دوسرا ناول ‘صفر کی توہین’ الحاد پر ہے۔ گویا پہلا موضوع ‘شرفا’ کے نزدیک معیوب تھا اور دوسرا ‘مومنوں’ کی طبیعت مکدر کر سکتا ہے۔ اپنے پہلے ناول میں اشعر نجمی نے بیانیہ میں کچھ نئے تجربات کئے تھے جن کی وجہ سے کچھ نقادوں نے اسے غیر معمولی تخلیق بتایا جبکہ یہی تجربات کچھ قارئین کے لئے اس ناول کو پڑھنا مشکل بھی بنا گئے۔ اپنے نئے ناول میں اشعر نجمی نے ایسے قارئین کو accommodate کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ تحریر میں وہی مخصوص روانی ہے۔ اشعر نجمی کو اس قسم کے ‘اچھوت’ موضوعات کیوں بھاتے ہیں اس کا جواب ناول کے دیباچہ میں انہوں نے خود لکھ دیا ہے:
”برطانوی ناول نگار اور نقاد کنگسلے ایمس کہتا ہے کہ اگر آپ کسی کو ناراض نہیں کر سکتے تو لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دراصل شاعری یا فکشن کے بیش تر ادیب و قارئین کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انہیں وہی اچھا لگتا ہے جو ان کے تصورات کی تصدیق کرے، جب کہ ادب عموما ایسے تصورات کو چیلنج کرتا ہے۔” (ص 6)
چند سطروں پہلے میں نے عرض کیا تھا کہ ‘صفر کی توہین’ لکھنے کے لئے ‘اشعر نجمی ہونا’ پہلی شرط ہے لگے ہاتھ یہ بھی کہے دینا ضروری ہے کہ اشعر نجمی کا قاری ہونے کے لئے بھی کچھ لازم آتا ہے اور وہ یہ کہ آپ اپنے تصورات کو چیلنج کیا جانا برداشت کر سکتے ہوں۔
مذہبی حلقوں کے نزدیک الحاد وہ بدترین منزل ہے جہاں بس خسارہ و تباہی ہے۔ اب جب الحاد اس قدر ناپسندیدہ ہے تو یہ بھی فطری امر ہوا کہ مذہبی حلقوں کے درمیان رہنے والے افراد اگر خود کو ذہنی طور پر اس منزل پر کھڑا بھی پائیں تو اسے ظاہر نہ ہونے دیں۔ گویا اپنے باطن کو ظاہر نہ ہونے دینے کی جد و جہد اس قبیل کے لوگوں کا مقدر ٹھہری۔ اسی بحران کا ایک اور مرحلہ یہ ہے کہ اگر یہ راز سینے میں گڑا رہا تو پھر بھی خیر ہے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ باہر آ گیا تو مان لیجئے کہ مسائل و مصیبت کا ایک نیا باب کھلا۔ اشعر نجمی کا ناول اسی بحران اور جد وجہد کو بڑے منفرد ڈھنگ سے بیان کرتا ہے۔
‘صفر کی توہین’ ایک سفر کی داستان ہے۔ ایک ایسا سفر جس پر نکلنے سے پہلے مسافر کو تذبذب بھی ہوتا ہے اور جھجک بھی۔ وہ خود چاہتا ہے کہ کوئی معمولی سا ہی بہانہ مل جائے کہ یہ سفر ٹلے:
"تبدیلی آسان نہیں ہوتی لیکن اگر ایک بار شروع ہو جائے تو پھر اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں جانتا تھا مجھے روکا نہیں جا سکتا لیکن رخصت ہونے سے ٹھیک پہلے میں چاہتا تھا کہ مجھے روک لیا جائے، دل لوٹنے کے امکانات تلاش رہا تھا۔” (ص 33)
یہ ناول جن مسافروں کا فسانہ ہے ان سب کے قدم سفر کی شام ٹھٹکے تھے۔ اشعر نجمی نے اپنے ناول کو ایک نظام شمسی کی صورت سجایا ہے۔ انہوں نے الحاد کو سورج بناکر اس کے مرکز میں رکھا جبکہ اس کے مدار میں کتنے ہی موضوعات کو قائم کیا۔ دلت ڈسکورس سے لے کر انسانی مساوات، شدت پسندی، مشرقی عظمت اور مغربی گمراہی کے تصورات، مذہبی عصبیتیں اور جعلی روشن خیالی جیسے حساس مباحث آپ کو ٹھہر کر سوچنے پر آمادہ کر ہی دیتے ہیں۔
‘صفر کی توہین’ کے کردار جب بولنے پر آتے ہیں تو فکر کو انگیز کئے بغیر نہیں رہتے۔ ان کرداروں کو سنئے تو جہاں ایک طرف ان کی باغیانہ روی الجھن میں ڈال دیتی ہے وہیں دوسری جانب دین و دنیا کے تئیں ان کی بصیرت میں ایک نیاپن بہرحال جھلکتا ہے:
"۔۔۔خداؤں کے ساتھ یہاں صرف لین دین کا رشتہ ہے، آپ ہمیں یہ دیں، ہم آپ کو یہ چڑھاوا پیش کریں گے یا اتنی عبادت کریں گے۔ لین دین کاروبار ہے جو صرف انسانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ انسان نے خداؤں جیسا بننے کے بجائے خداؤں کو بھی اپنے جیسا بنا لیا ہے۔” (ص 146)
اشعر نجمی کے اس ناول کو پڑھنا بغاوت اور بصیرت کے سمندر میں تیرنے جیسا ہے۔ یہاں کمزور دل تیراکوں کو گمراہی کے بھنور کا خطرہ ہے۔ میرے خیال میں اشعر نجمی کے فکشن کا بنیادی سروکار شناخت کا assertion ہے۔ وہ بھی ایسی شناخت کا جسے قبول کرنے میں سماج کو تامل ہو۔ آپ اور میں ان کے موضوعات اور اس میں درج خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اپنے سروکار کے لئے ان کے commitment کا اعتراف بہرحال بنتا ہے۔
چلتے چلتے ایک بات اور سمجھ لیجئے۔ یہ لوگ جو دین کے بجائے الحاد کو قبول کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے انتخاب کا اعلان کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں؟۔ یہ سوال اس لئے بھی کیا جانا چاہئے کہ ہمارے آس پاس ایسے بھی لوگ ہیں جو دل ہی دل میں الحاد کو قبول کر چکے ہیں لیکن بظاہر وہ اپنی مذہبی شناخت کو ہی سامنے کئے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا تو ان افراد کے پاس اپنے فیصلے کا مناسب استدلال نہیں ہوتا جس کی مدد سے وہ بتا پائیں کہ وہ یہاں سے وہاں کیوں گئے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان افراد کے پاس اپنے موقف کا استدلال تو ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا معاشرہ دلیل پر مروجہ تصورات کو ہی فوقیت دے گا اور اس لئے وہ دلیل کی طاقت سے اپنا مقدمہ کبھی منوا ہی نہیں سکیں گے۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...