بہت ہی خوبصورت اور پیارا ہے جس کا ہر حصہ قابل دید و نمائش ہے جہاں جائے خوش نما مناظر استقبال کرتے ہیں انہیں حسین و جمیل ٹکڑوں میں سے ایک حصہ ہے وادی کشمیر کا علاقہ ہندواڑہ جو کہ کپواڑہ کے بلکل بغل میں آتا ہے اس سے جڑے کچھ یادگاری لمحات
_______
یہ خوبصورت علاقہ اپنے تمام حسن شباب کے ساتھ پہاڑوں کے دامن میں بیچ میں ہر کسی کا مسکراتے ہوئے استقبال کرتا ہے سوپور سے جائیں یا بارہمولہ سے جائے جگہ جگہ دھان کے کھیت خوبصورت باغات آپ کے استقبال کے لئے استادہ و چشم براہ ہیں ہاں سرما میں گر برفباری ہوئی تو سفید چادر اوڑھے یہاں کا چپہ چپہ آپ کو اپنی طرف مائل کرنے میں کوئی کمی نہ ہونے دے گا کچھ یوم قبل میں نے اس جانب جانے کا ارادہ باندھ لیا اور چل پڑا سوپور سے سومو میں سوار ہوکر ہندواڑہ کے بس اسٹینڈ میں اترا چلتے چلتے بیچ بازار کے کچھ اپنی زلفوں کو لہراتے ہوئے نوجوان خوبصورت عینک کے پیچھے نگاہیں چھپا کر کن اداؤں سے چلتے جارہے ہیں کچھ تو کانوں میں تار کے ٹکڑے لگائے چلتے چلتے ناچ رہے تھے جیسے
پر کچھ انتہائی سادہ لباس میں اپنے علاقہ کی تہذیب گم گشتہ کی یاد دلا رہے تھے کچھ ایسے بھی کہ باریش اور سر پر ٹوپی اور باتیں پہاڑی زبان میں یہ لوگ مجھے سب سے پیارے لگتے ہیں جن کا ظاہر و باطن اکثر یکساں ہی ہوتا ہے خواتین قدرے اچھے لباس میں اپنی اپنی منزلوں کو چلی جارہی تھیں پر میں تب مسرور ہوا جب ساتھ چل رہی ایک ضعیف عمر کی اماں کے فون کی گھنٹی بجی اور سنائی دیا کوئی پرانا فلمی گانا اماں نے فون نکالا اور ہائے کرکے محو گفتگو ہوگئیں ہر طرف دکانات سجے سنورے ہوئے جیسے دلہن بنے ہوں پر جیب میں رقم کم ہونے کے سبب کچھ خریداری نہ کی ورنہ للچائی ہوئی نظریں تو ان کا طواف کرتی رہیں پر ہم چلتے رہے سر شام لوگ مسکراتے ہوئے سڑکوں کے کناروں پر اپنی کابینہ سجائے محفل مذاکرات میں محو کوئی کسی طرف تاک جھانک نہیں کر رہا ہے پر کچھ لوگ کشمیری سدری پہنے بڑے ہی ناز سے چلتے ہوئے اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کے لئے ہر ایرے غیرے کو آواز دینا نہیں بھولتے
کہیں پر وہی استادہ فرمان روا اوے ہوئے کی بولیاں بولتے ہوئے مزہ کرکرا کرتے ہوئے ہٹو بچو رکو چلو کے اجازت نامے سڑکوں پر چسپاں کئے مجھ غریب کو بھی تیکھی نظروں سے دیکھتے رہے کہیں کہیں پر مسکان بکھیرتے ہوئے اور ہم اپنی ننھی سی جان کی امان پانے کے فراق میں بڑی سادگی سے چلتے رہے کہ صاحب کی بری نظر سے مولا بچائے دل سے دعا کرتے ہوئے
گاڑیاں چل رہی تھی اور اس سرسبز اور شاداب علاقہ کے جنگلوں میں اپنا دھواں پہنچانے کے لئے کہیں کہیں پر اینٹ کے بھٹوں کا تصور یاد دلانے کے لئے دھواں بکھیر کر معطر کرنے کی سعی کر رہی تھیں کچھ سال قبل بھی جانا ہوا تھا تب نعیم بھائی اور خادم الطاف نے خوب سیر کرائی تھی بہت گومے تھے
چلتے چلتے
وادی بنگس یہاں کا مشہور سیاحتی مقام ہے کچھ سال قبل یار لوگوں نے اس کی تعریف و توصیف کچھ اس انداز سے کی کہ جانے کو دل مچلنے لگا اور چل پڑا بس سے اب تک ان کو دل کرتا ہے وہیں پہنچا کر پانچ دن رکھوں اور ان سے کہوں لو جی یہ ہے تمہاری منزل گاڑی تقریبا چار میل پہلے ہی چھوڑنی پڑی اور اب پیدل سفر شروع ہوا یار لوگ کہتے رہے اس کے افسانے دل جھوم رہا تھا دونوں طرف جنگل اور بیچ میں کچی سڑک کہیں کہیں پر آدم زاد بھی نظر آئے جو کہ سبز سونے کا قیمہ بنا رہے تھے ورنہ اکثر راستہ سنسان ہی تھا دل ڈوب رہا تھا کہ کہیں سے محترم جنگل کے بادشاہ یا جناب بھالو صاحب تشریف لے آئے تو مجھ سا ناتواں کیا خاک ان سے اپنا تعارف کرائے گا وہ تعارف کرانے کی فرصت بھی نہیں دیتے ہر آواز پر کان بجنے لگتے تھے اللہ اللہ کرکے ایک مقام پر پہنچ گئے تو سامنے ایک بڑی پہاڑی جس پر چڑھنا شروع کردیا جس نے قدموں کے ساتھ ساتھ جسم کا بھی کچو مر نکال دیا سانسیں پھولنے لگیں پر وہ یار لوگ افسانے سناتے رہے اب پہاڑی کی چڑھائی ختم کیا ہوئی سامنے ایک سنسان سا میدان جس میں کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ سیاحتی مقام ہے دوستوں سے پوچھا بھئی ابھی کتنی دور ہے تو ان کا فرمان کہ یہی ہے سنتے ہی بیٹھ کر قسمت کو کوسنے لگا کہ ان کو گر مجھے مارنا ہی تھا پر کم سے کم یہاں لاکر تو ہرگز بھی نہیں پر مقام تھا بڑا خوبصورت حد نگاہ تک پھیلا ہوا گھاس کا سبزار مست تھا اور دور ایک جھونپڑی جس کے مکین ایک گلاس لسی کے ۳۰ روپے مانگتے ہوئے بھی دوستی کا احساس دلا رہے تھے جونہی واپسی کا فرمان ہوا تو جان میں جان آگی
خیر
چلتے چلتے علاقہ ہندواڑہ کے ماور نامی ایک حصے جسے قلم آباد کہا جاتا ہے پہنچ گیا یہاں کی جو چیز مجھے سب سے پیاری لگی وہ تھی اپنے ہمدم بھائی خادم الطاف کے ساتھ گزارے کچھ لمحات جو ہم نے ایک خوبصورت ندی کے کنارے گزارے اور اسی ندی کے کنارے عید گاہ میں نماز مغرب ادا کی
ایک مسجد جو مجھے انتہائی پیاری لگی خادم الطاف کے ساتھ اس میں بھی ایک نماز ادا کی جو کہ پرانے طرز تعمیر کا شاہکار کہلانے کے لائق ہے ہر نماز میری طرف تجسس سے دیکھ رہا تھا یہ اور بات ہے کہ میں مولوی کم اور پردیسی زیادہ انہیں محسوس ہوا
لوگ انتہائی شاندار مزاج کے ہر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی سے دعوت چائے نوشی دینا ان کا امتیازی وصف محسوس ہوا یہ اور بات ہے کہ خادم الطاف نے پینے کا تو کہا سب سے پر پینے کے لئے کہیں گئے نہیں اس بات کو سوچ سوچ کر خادم الطاف پر غصہ آنا تو قدرتی بات ہے پر پی لیا میں نے
پر وہاں سے واپسی پر بس میں سوار ہونا میرے لئے ایسا ہی تھا جیسے بیل گاڑی میں چڑھ کر کوئی خواہش کرے کہ سکرات میں تڑپ رہے کسی یار کت جنازے پر جلد پہنچ جاؤں گا جو کہ ناممکنات میں سے ہے
بات وبا کی کریں تو یہاں شاید لوگوں نے اسے مار مار کر بگادیا ہے ایسے ان کے چلنے پھرنے کی اداؤں سے محسوس ہوا جنہیں اس کی تعریف یا تنقید کرنے کی فرصت ہی نہ تھی سب خوش و خرم سے محسوس ہوئے اور اپنے کام میں مشغول
“