یہ ہر خطے میں تہذیب کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ انسانوں کے پھیلنے کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ خشکی کا کوئی بھی ایسا حصہ نہیں جہاں تک انسان نہیں پہنچا۔ یہ دو چار صدی کا قصہ نہیں۔ ایک لمبی کہانی ہے۔
دنیا ہمیشہ سے ایسے نہیں تھی۔ ساڑھے چار ارب سال انسانوں سے بالکل خالی تھی۔ اور پھر؟ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقہ زندگی کے تنوع سے بھرپور ہے۔ گریٹ ایپس کی تین انواع، چمپینزی بونوبو اور گوریلا صرف افریقہ تک محدود ہیں۔ یہیں پر فوسلز کی صورت میں موجود وافر شواہدات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے اولین باب افریقہ میں لکھے گئے تھے۔ ستر لاکھ برس قبل (یہ پچاس سے نوے لاکھ کے درمیان کی رینج ہے)، افریقہ میں تین شاخیں الگ ہوئی تھیں۔ ایک کا سفر گوریلا کی طرف رہا، ایک کا چمینزی اور بونوبو کی طرف۔ ایک تیسری شاخ تھی، جس میں چالیس لاکھ سال قبل سیدھا کھڑا ہونا آیا، جسم اور دماغ کے سائز میں پچیس لاکھ قبل اضافہ ہونا شروع ہوا۔ سترہ لاکھ سال قبل کے انسان نما ہومو ایریکٹس کا جسم انسانی جسم کے سائز کے برابر تھا لیکن دماغ ںصف سے بھی کم۔ پتھر کے اوزار تو پچیس لاکھ سال آ گئے تھے لیکن یہ بہت ہی ابتدائی نوعیت کے تھے۔ ہومو ایرکٹس اور آج کے انسان میں خاصا فرق تھا۔ ہومو ایرکٹس افریقہ سے نکلے۔ (ہمیں ان کی باقیات انڈونیشیا میں بھی ملتی ہیں)۔ یورپ میں کم از کم پانچ لاکھ سال قبل پہنچ گئے تھے۔ (ایشیا اور یورپ میں قدرتی جغرافیائی رکاوٹیں زیادہ نہیں)۔
پانچ لاکھ سال قبل ہومو ایرکٹس کے پرانے ڈھانچے بڑے، گول اور سیدھی کھوپڑیوں میں ڈھلتے نظر آتے ہیں۔ افریقہ اور یورپ میں ملنے والے پانچ لاکھ سال پرانی باقیات جدید انسان سے قریب تر ہیں۔ ان کے پتھر کے اوزار ابھی زیادہ پیچیدہ نہیں تھے۔ ایک اور نئی ٹیکنالوجی جو ان کے پاس اب تھی، جس کے بارے میں ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں، وہ آگ تھی۔ آرٹ یا ہڈیوں کے اوزار وغیرہ ان کے پاس نہیں تھے۔ جغرافیائی علیحدگی کے سبب افریقہ اور مغربی یوریشیا کی آبادی الگ ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ایک لاکھ تیس ہزار سال پہلے کے درمیان مغربی ایشیا اور یورپ میں یہ نینڈرتھال میں ڈھل چکے تھے۔ جن کے دماغ جدید انسان سے تھوڑے سے بڑے تھے۔ نینڈرتھال اپنے بیماروں کی دیکھ بھال اور مردوں کی تدفین بھی کرتے رہے ہیں۔ ایک لاکھ سال تک یہ اس علاقے میں رہتے رہے۔
ابھی تک افریقہ میں رہنے والے اور یورپ میں رہنے والے، دونوں ہی شکار میں زیادہ اچھے نہیں تھے۔ مچھلیاں بھی نہیں پکڑ سکتے تھے۔ نہ ہی نینڈرتھال کو اور نہ ہی اس وقت کے افریقی انسان نما کو مکمل انسان کہا جا سکتا ہے۔
آج سے قریبا پچاس ہزار سال سے ایک لاکھ سال کے درمیان کسی وقت میں انسانی تاریخ نے ایک نیا بڑا موڑ لیا۔ یہ ایک “عظیم چھلانگ” تھی۔ اس چھلانگ کے اچھے ثبوت ہمیں مشرقی ایشیا کی سائٹس میں نظر آتے ہیں جہاں پر سٹینڈرڈائزڈ پتھر کے اوزار اور سیپ سے بنے زیورات ملتے ہیں۔ ہمیں جلد ہی مشرقِ قریب اور جنوب مشرقی یورپ تک پھیلتے نظر آتے ہیں اور چالیس ہزار سال قبل یہ جنوب مغربی یورپ تک پہنچ گئے تھے۔ یہاں پر ہمیں آرکیولوجیکل سائٹس میں محفوظ کچرے میں دلچسپ چیزیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس میں اب کوئی شک نہیں رہتا۔ یہ ہر لحاظ سے جدید انسان تھے۔
کرومیگنن کے کچرے کے ڈھیر میں نہ صرف پتھر کے بلکہ ہڈی سے بنے اوزار بھی ہیں۔ اوزاروں کی کئی طرح کی شکلیں ہیں۔ سوئیاں اور کانٹے، کھودنے کے لئے اوزار اور موچیوں کے سوے۔ کئی ٹکڑوں سے ملا کر بنائے گئے اوزار۔ نیزے پھینکنے والے، تیرکمان اور ہارپون۔ اب دور کھڑے ہو کر بڑے جانور شکار کئے جا سکتے تھے۔ ہاتھی اور گینڈے بھی۔ اس کے ساتھ پھر ریشے سے بٹی گئی رسیوں، جال اور پھندوں کے اضافے نے خوراک میں مچھلیوں اور پرندوں کا اضافہ کر دیا۔ سلے ہوئے کپڑے اور رہائش گاہیں جن سے سردی سے محفوظ رہا جا سکتا تھا۔ زیورات اور مرنے والوں کا احتیاط سے دفن کئے جانا یہاں پر اب نظر آتا ہے۔
پچاس ہزار سال قبل ہونے والی یہ عظیم چھلانگ دو بڑے سوال چھوڑ جاتی ہے کہ یہ کیوں ہوا اور یہ کہاں ہوا۔ اس میں غالب رائے یہ ہے کہ اس وقت ہونے والی تبدیلی دماغ کی آرگنائزیشن کی تھی۔ اس میں دماغ کا سائز تو تبدیل نہیں ہوا لیکن سٹرکچر کی تیررفتار تبدیلی آئی۔ جدید زبان بھی غالبا اسی سے ممکن ہوئی۔
کیا یہ تبدیلی صرف ایک ہی جگہ پر آئی یا کئی جگہوں پر الگ الگ؟ یہ ابھی کھلا سوال ہے۔ مائیٹوکونڈرئیل ڈی این اے کی مالیکیولر سٹڈی سے پہلے یہ خیال افریقہ کے بارے میں تھا لیکن اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ابھی حل طلب سوال ہے۔
چالیس ہزار سال قبل اس جدید انسان (کرومیگنن) نے بہتر ہتھیاروں کے ساتھ اور زیادہ ایڈوانسڈ تہذیبی خاصیتوں کے ساتھ یورپ کا رخ کیا۔ یورپ میں پچھلے لاکھ سال سے بسنے والے نینڈرتھال اس سے اگلے چند ہزار سال کے بعد باقی نہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عظیم چھلانگ کے ساتھ انسانوں کی زمین پر پہنچ کی رفتار بھی بڑھی۔ تقریبا چالیس ہزار سال قبل آسٹریلیا اور نیو گنی میں پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد اس پورے برِ اعظم پر پھیلنا شروع کیا اور قسم قسم کے ماحول میں بسنے لگے۔ نیو گنی کے اونچے پہاڑوں سے خشک اندرون اور گیلے جنگلوں تک۔ برفانی دور میں سمندر کی سطح چند سو فٹ نیچے تھی۔ ایشیا اور آسٹریلیا اتنے دور نہیں تھے جتنے آج ہیں لیکن یہاں پہنچنے کے لئے بیچ میں پانی کی آٹھ گزرگاہوں سے سفر کر کے جانا تھا جس میں سے سب سے وسیع پچاس میل چوڑی تھی۔ آسٹریلیا اور نیوگنی کو ان میں سے گزر کر آباد کرنا انتہائی بڑا کارنامہ تھا۔ درخت کے تنوں کو کھوکھلا کر کے ٓآپس میں جوڑ کر بنائی جانے والی کشتیوں سے نامعلوم جگہوں پر پہنچنے کے لئے کئے جانے والے اتنے لمبے سفر، جہاں افق نظر نہیں آتا، یہ پولینیشیا میں بسنے والوں کی مہارت کا اور انسان کی مہم جو فطرت کا منہہ بولتا ثبوت ہیں۔ پینتیس ہزار سال قبل یہاں کے ان جزائر کو آباد کر لیا گیا جس میں سو میل کا سمندری سفر درکار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمال کی طرف بھی سفر جاری تھے۔ یہاں پر سرد علاقے تھے۔ بیس ہزار سال قبل سائیبیریا میں انسان پہنچ چکے تھے۔ امریکاز انسانوں سے خالی تھے۔ یہاں تک پہنچنے والے الاسکا کے راستے چودہ سے پندرہ ہزار سال قبل داخل ہوئے تھے۔ میکسیکو تک تیرہ ہزار سال قبل پہنچ گئے تھے۔
بارہ ہزار سال قبل جنوبی امریکہ کے جنوب تک آباد ہو کر انسان نے ایک اور بڑا سنگِ میل حاصل کر لیا گیا۔ اینٹارٹیکا کے سوا تمام برِاعظموں تک انسان پہنچ چکا تھا۔ کئی جزائر ابھی خالی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحیرہ روم کے جزائر جیسا کہ قبرض، کریٹ، سارڈینیا وغیرہ میں چھ سے دس ہزار سال قبل آبادی ہوئی۔ پولینیشیا اور مائیکرونیشیا کے جزائیر میں ایک سے اڑھائی ہزار سال قبل، مڈغاسکر میں ڈیڑھ ہزار سال قبل اور آیس لینڈ میں بارہ سو سال پہلے۔ قطبِ شمالی کے قریب ہائی آرکٹک میں انیوٹ (اسکیمو) نے چار ہزار سال پہلے بسیرا جمایا۔ بحرِ اوقیانوس اور بحرِ ہند میں دور دراز جزائر جیسا کہ سیکلز اور ایزورس میں یورپی مہم جو پہنچے۔ انیسویں صدی میں اینٹارٹیکا پہنچا گیا۔ بیسویں صدی میں چاند پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی ہر جگہ پر تہذبیں بنیں، ابھریں اور ختم ہوئیں۔ آبادیاں بسیں اور مٹیں، اجڑی اور اجاڑی گئیں۔ کہیں شکست و ریخت کا شکار ہوتے معاشرے، کہیں ایک دوسرے سے ہونے والے تصادم۔ بیماریاں اور مصائب، قربانیاں اور کامیابیاں، جنگیں، فتح، شکست، ایجادات اور ٹیکنالوجی، آنسو اور خون، تعمیر اور ترقی۔ سفر ہی سفر۔ عالمی انسانی تاریخ، سینکڑوں علاقوں کی ہر زمانے میں اپنی رنگا رنگ ہچکولے کھاتی تاریخ سے رنگی ہوئی ہے۔ اس بے چین مخلوق کی اپنے سیارے کی تسخیر کی کہانی، دو چار صدی کا قصہ نہیں۔ ایک لمبی کہانی ہے۔
اس تاریخ کو تفصیل سے پڑھنے کیلئے۔
The Third Chimpanzee by Jared Diamond