سفر
ٹریفک کی ہنگامہ خیزی ، شور شرابہ ،لیکن ہم دونوں فٹ پاتھ پر خاموشی سے چلتےجارہے تھے ۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ایسا محسوس رہا تھا، جیسے لاہور کی کسی ہنگامہ خیز سڑک پر نہیں ، اداس جنگل میں سفر کررہے ہوں ۔راستے میں کیا کچھ ہوتا رہا ،لیکن ہم دونوں اپنی اپنی دنیاوں میں بدمست تھے ۔اب اس کی انکھوں سے آنسوؤں کا سلسلہ جاری تھا ۔معلوم نہیں کیوں ،میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ آنسوؤں کی دنیا سے باہر آئے۔بہت دیر کے بعد میں نے کہا، دوست کہاں جانا ہے؟ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا اس طرف ۔پھر ہم دونوں گالف روڈ کی طرف چل پڑے۔گالف روڈ میری زندگی میں اس لئے اہمیت رکھتی تھی کیونکہ یہاں ایک سال پہلے میرے ساتھ حادثہ ہوا تھا ،اس حادثے میں میرے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں ٹوٹ گئیں تھی ۔حادثے کی جگہ پر پہنچتے ہی میری ہنسی نکل گئی ۔آنسو برساتا داست دوست اچانک گھبرا گیا، کہا ،کیا ہوا ؟میں نے کہا، دوست ہر زخم بھر جاتا ہے ،آج سے ایک سال پہلے اسی جگہ پر میرے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا ۔یہ سالی انگلیاں ٹوٹ گئیں تھی ۔آج ان انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں ،یہ دوبارہ میرے ہاتھ سے باتیں کررہی ہیں ۔ہر زخم بھر جاتا ہے ۔کبھی کبھی اداس یادیں بھی انسان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں ۔جس دن میرے ساتھ حادثہ پیش آیا ،اس دن لگا جیسے زندگی ختم ہو گئی ۔لیکن آج اسی حادثے کی جگہ سے دلفریب خوشی جھلک رہی ہے ۔میں نے سوچا تھا شاید عمر بھر ان انگلیوں سے محروم ہوگیا ہوں ۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔آنسو بہاتے دوست نے کہا ،انسان کی شناخت اس کی سوچ نہیں ہوتی ۔اس کے خیالات نہیں ہوتے ۔نہ ہی انسان کی شناخت اس کے نظریات ہوتے ہیں ۔سوچ،خیالات اور نظریات میں زندگی نہیں ہوتی ۔خواب اور حقیقت پسندی بھی انسان کی شناخت نہیں ۔انسان کی شناخت اس کے احساسات ہیں ۔یہ جو تمہاری مسکراہٹ ہے ،یہی تمہاری شناخت ہے ۔اس نے کہا زندگی ایسا سفر نہیں، جو صرف خیالات ،نظریات خوابوں اور حقیقتوں میں گزار دیا جائے ۔خیالات کا سفر اچھا ثابت ہوسکتا ہے ،لیکن حقیقی سفر انسانی احساسات ہیں ۔انسان صرف دماغ یا زہن کا نام نہیں ،انسان احساس کانام ہے ۔باتیں کرتے کرتے وہ خاموش ہوگیا ۔اس کی آنکھوں سے آنسو اچانک رک گئے ۔پارک کا گیٹ سامنے تھا ،ہم دونوں پارک میں داخل ہو گئے ۔سبزے سے لہلہاتے میدان میں ایک درخت کے نیچے آکر ہم بیٹھ گئے۔کرکٹ کا میچ جاری تھا ۔اس نے کہا چلو کچھ دیر میچ دیکھتے ہیں ۔کرکٹ میچ میں بلے باز شاہد آفریدی بنا ہوا تھا ۔وہ چھکے پر چھکے مار رہا تھا ۔کچھ دیر پہلے آنسو بہاتا دوست اب زندگی کو انجوائےکرتا نظر آیا ۔وہ مسکرا رہا تھا ۔میں نے کہا دوست مجھے لگا جیسے تم زندگی کے دشمن ایک اداس انسان ہو،لیکن اب ایسا نہیں لگ رہا ؟اس نے کہا میں زندگی کے خلاف نہیں ہوں۔میں انجوائمنٹ کے خلاف بھی نہیں ہوں ۔میں اس لائف اسٹائل کے خلاف ہوں جو آج کے انسانوں کا ہے ۔انسان زندگی کو انجوائے نہیں کررہا ۔زندگی کو انجوائے کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔انجوائمنٹ کے خواب دیکھ رہا ہے۔اسی لئے یہ انسان تکلیف میں ہے ۔ہم انسان امید کے پیچھے دوڑتے جارہے ہیں ۔امید انجوامنٹ نہیں ۔امید تو دھوکہ ہے جو انسان کا زہن و دماغ اسے دے رہا ہے۔معلوم نہیں کیوں انسان ایسا کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے آج تکلیف اور دکھ ہے تو کل ایسا نہیں ہوگا ۔زندگی انجوائے کرنے والا انسان آنسوؤں کو بھی انجوائے کرتا ہے اور کرکٹ دیکھ کر بھی مسکراتا ہے ۔کیونکہ زندگی آج ہے ۔زندگی یہی ہے۔انسان کو زندگی کے ہر لمحے کا لطف لینا چاہیئے ۔چاہے وہ لمحہ آنسوؤں کا ہو یا پھر مسکراہٹ کا ۔اس نے کہا میرا مذہب جشن ہے،آنسوو ہیں ،اس نے کہا ،میرا مذہب خوشی و غم ہے ۔میں اس مذہب کے پیچھے زندگی ضائع نہیں کرسکتا جو خوشی اور جشن منانے سے روکتا ہے ۔دوست نے کہا انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خوشی اور غم دن دونوں کو پوشیدہ رکھتا ہے ۔انسان کو ایک معصوم بچے کی طرح زندگی کو انجوائے کرنا چاہیئے ۔وہ ڈانس کرے ،ںغمے گائے اور آنسو بہائے ،لیکن ایک معصوم بچے کی طرح ۔لیکن ہم انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ،عیسائی ،ہندو ،سنی ،وہابی بنکر زندگی گزارتے ہیں ۔ہم نظریات اور خیالات کی وجہ سے فطرت کو بھول چکے ہیں ۔پرندوں ،درختوں ،پھولوں ،سورج،چاند اور ستاروں کو بھول چکے ہیں ۔انسان کے علاوہ تمام کائنات زندگی کا لطف لیتی نظر آرہی ہے ۔لیکن انسان ہے کہ خوشی اور غم کی وجوہات تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔جو انسان ہر لمحے زندگی کا لطف لیتے ہیں، وہی تو ہیں جو زندگی کو جانتے ہیں ۔خیالات زندگی کا حقیقی سفر نہیں ہیں ۔ہم نے ان کو حقیقی سفر بنالیا ہے اسی وجہ سے انسانیت مسائل میں ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔