(چھٹا اور آخری حصہ)
امریکہ میں آباد کاری کے وقت بہت احتیاط کی گئی تھی کہ ایشیائی یا رنگ دار ، یہود اور مسلمان باشندے میں آباد نہ ہونے پائیں ۔ دوسری طرف امریکہ میں وسیع عریض زمینیں خالی پڑیں تھیں اور انہیں استعمال میں لانے کے لیے افرادی قوت کی شدید ضرورت تھی ۔ افرادی قوت کو پورا کرنے کے لیے افریقہ سے غلاموں درآمد کیا گیا ۔ اس احتیاط کے باوجود امریکہ میں چینیوں اور جاپانی کی بڑی تعداد غیر قانونی راستوں سے امریکہ آگئی تھی ۔ ان لوگوں کا معیار زندگی نسبتاً پست تھا اور وہ بہت کم معاوضہ پر مختلف کام انجام دیتے ہیں ۔ اس سے مقامی لوگوں یعنی سفید فاموں کی بے روزگاری کا خطرہ تھا ۔ اس کو روکنے کی ایک صورت یہ تھی کہ امریکہ میں مزید ایشیائیوں کو آباد نہ ہونے دیا جائے ۔
دو عالمی جنگوں کے باعث یورپ سے بڑی تعداد میں یہودی ، روس اور مشرقی یورپ سے باشندے امریکہ آئے تھے ۔ ان میں سے جو مالدار تھے ان کو خوش آمدید کہا گیا تھا ۔ مگر آنے والوں میں مفلوک الحال لوگوں کی تعداد زیادہ تھے ۔ اس سے بھی بہت سے امریکیوں کو اندیشہ تھا کہ اس کا اثر ملک کی خوشحالی اور عام معیار زندگی پر پڑے گا ۔ اس لیے امریکہ میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی گئیں جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ملک میں غیر نسل یا مشرقی نسل اور مسلمانوں کے باشندوں کی آمد سے ملک میں تعصب پھیلے گا اور اس کا اثر ملک پر بھی پڑے گا ۔ ان کتابوں میں سب سے زیادہ متعصبانہ کتاب امریکہ کے ایک شخص Medlson Grant نے The passing of the great race کے نام سے لکھی تھی ۔ اس کتاب لکھنے پر میڈیسن گرانٹ کو نیویارک کی زوالاجکل سوسائیٹی کا صدر ، امریکن میوزیم آف نیچرل ہسڑی کا ٹریسٹی اور امریکن جغرافیائی سوسائیٹی کا مشیر مقرر کردیا گیا ۔
اسی میڈیسن گرانٹ کے شاگرد لوتھراپ اسٹوڈارڈ The Rising Tide of Color لکھی ۔ اس کتاب کا مقدمہ میڈیسن گرانٹ نے لکھا جس میں تاریخ کو بری طرح مسخ کیا گیا ۔ اگر ان کا حوالہ دیا جائے گا تو بات بہت لمبی ہوجائے گی ۔ اس کے لیے ایک مثال کافی کہ حضرت عیسیٰ کو بھی ناردک قرار دیا گیا اور لکھا تھا کہ ایشیائیوں اور مشرقی یورپ کے باشندے جو کہ بیحد غریب ہونے کی وجہ سے بہت پست معیار زندگی گزار رہے ہیں اور اس وجہ سے مقابلے میں نارڈک یا سفید آدمی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ۔
امریکہ میں ابتدا سے ہی رنگدار باشندوں کو آباد ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ کیوں کہ اندیشہ تھا کہ انہیں اجازت دی گئی تو بڑی تعداد میں امریکہ آجائیں گے ۔ اس سے ایک طرف امیریکہ میں سفید فام اقلیت میں ہوجائیں گے اور معیار زندگی کی پستی کے باعث وہ کم معاوضہ میں کام کریں گے ۔ اس طرح بہت جلد ملک میں چھا جائیں گے ۔ اس سے ملک سفید فام باشندوں کی خوشحال پر اثر پڑے گا ۔ یہ صورت حال امریکہ میں یورپ کے ان باشندوں سے بھی پیدا ہوئی جو کہ جنگ کے باعث تباہ ہوچکے تھے ۔ اس لیے مزید احتیاط کی ضرورت تھی ۔ اس لیے امریکہ کے نام نہاد محقیقین نے نارڈک نسل نسل کو سفید نسل یا آریائی نسل کی جڑ قرار دیا اور اس امر پر زور دیتے رہے کہ صرف نارڈک نسل کے باشندوں کو امریکہ آنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔
معاہدہ ورسائی میں سرحدیں زیادہ تر نسلی بنیاد پر ملکوں کی سرحدیں مقرر کی گئیں تھیں ۔ اس بنا پر چیکو سلاوکیا کی مملکت قائم کی گئی ، سربیاکو بڑھا کر یوگوسلافیہ بنایا گیا ۔ بالٹک کی رہاستوں آزادی دی گئی ۔ لیکن بہت امریکی میڈی سن گرانٹ اور ان کے ہم خیال بہت امریکی نازیوں کی طرح اس معاہدے کے مخالف تھے ۔ کیوں کہ ان کے خیال میں اس طرح نارڈک نسل کو کمزور کردیا گیا اور اس سے ایشیا کو یورپ پر حملہ کرنے کا موقع ملے گا ۔ واضح رہے ایشیا سے مراد ان کی اشتراکی روس تھا ۔
میڈی سن گرانٹ کے شاگرد لوتھارپ اسٹوڈارڈ جو کتابیں لکھیں ان میں سے دو تین بہت مشہور ہوئیں ۔ ایک کتاب اس نے پان اسلامزم کی ڈھمکی کے متعلق لکھی ، تمدن کی بغاوت Revolt aginst Civilazatin لکھی ۔ ایک کتاب رنگ کی بڑھتی ہوئی فوج The Rising Tide of Color میں اس نے لکھا کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امور انسانی میں خاص چیز سیاست نہیں نسل ہوتی ہے ۔ اس نے سفید فاموں کو خبررار کیا تھا کہ رنگدار نسلوں میں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے اگر یہ شرح قائم رہی تو دنیا میں سفید ملوکیت کو بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ نسلیں جلد ہی سفید فاموں کے ملکوں میں آباد ہونے کی کوشش کریں گیں ۔ مشرق بعید میں جاپان کی بڑھتی ہوئی طاقت نے ۱۹۰۵ء میں جاپان نے روس کو شکست دی ۔ اس بعد جنگ عظیم دوم میں جاپان نے امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملہ کیا اور تیزی سے مشرقی بعید میں برماتک قبصہ کرلیا تھا ۔ اس سے سفید اقوام کی نسلی برتری پر ضرب پڑی اور امریکی سفید فام خوفزدہ ہوگئے ۔ جاپان کی فتوحات اتنی مستحکم تھیں کہ اسے شکست دینا محال ہوچکا تھا ۔ اس لیے اس بڑھتی ہوئی قوت کو روکنے کے لیے چاپان پر ایٹمی حملہ کرنا پڑا ۔
امریکہ جہاں پہلے ہیں افرادی قوت کی کمی تھی وہ جاپان کے حملے کی وجہ سے جنگ میں حصہ لینے پر مجبور ہوگیا تھا ۔ اسے اپنی فوجوں میں اضافہ کرنا پڑا تاکہ جنگ میں محوری قوتوں کے خلاف کاروائیاں کرسکے ۔ فوج میں امریکی جوانوں کے شامل ہونے کی وجہ ملک میں کام کرنے والے افراد کی شدید کمی ہوگئی تھی ۔ اس لیے امریکی خواتین کو کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ ورنہ اس سے پہلی امریکہ خواتین میں گھریلو امور انجام دیتی تھیں ۔ جنگ ختم ہوگءٰی مگر افرادی قوت کی کمی برقرار رہی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ نے جنگ کے بعد بھی اپنی فوجوں میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کیا ۔ کیوں کہ امریکہ نے کمنسٹوں کے خلاف مزاحمت کے لیے یورپ بلکہ پوری دنیا میں ایسے اڈے قائم کئے جہاں اس کی فوجیں موجود رہتی تھیں اور وہ دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا تھا ۔ ان میں خاص طور پر وہ اڈے شامل تھے جہاں پہلے برطانوی فوجیں ہوا کرتی تھیں ۔ اب وہاں امریکہ نے اپنی فوجیں تعینات کردیں تھیں ۔ یورپ سے امریکہ تارکین وطن آرہے تھے مگر وہ محدود تعداد میں تھے ۔ دوسری طرف امریکہ میں شرح پیدائش جنگ کے بعد بہت گر گئی تھی اور امریکہ میں کام کرنے والوں کی نہایت کمی تھی ۔ دوسری طرف مشرقی وسطیٰ میں تیل کی دریافت سے وہاں بھی امریکہ جوانوں کی ضرورت تھی ۔ مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں تیل کی دریافت کی وجہ سے دولت کی ریل پیل ہوئی تو عرب ملکوں نے اس دولت سے امریکہ اسلحہ کی خریدار میں دلچسپی ظاہر کی ۔ ان اسلحہ کے کارخانوں میں کام کرنے کے لیے لوگوں کی شدید ضرورت تھی ۔ اس لیے امریکہ مجبور ہوگیا کہ وہ تارکین وطن کے لیے ملک کے دروازے کھولے اور اپنی پالیسی میں نظر ثانی کرے ۔ لہذا اب رفتہ رفتہ رنگدار جن میں ایشیا ، لاطنی امریکہ اور افریقہ کے محدود لوگوں کو اجازت دیتا رہتا ہے ۔ دوسری طرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے امریکہ میں جانا ایک سہانا سپنا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ قانونی یا غیرغانونی طور پر امریکہ چلے چائیں ۔ آخر میں ایک اہم بات کہوں گا تاریکین وطن کا کسی اور ملک میں آباد ہونا حملے کی ایک قسم ہے ۔ اس سے وہاں تسلی اختلاط بڑھتا ہے ۔ یہ نسلی اختلاط رفتہ رفتہ سفید فاموں کا اثر بہت کم کردے گا ۔ کیوں سفید فاموں میں شرح پیدائش اتنی گرچکی ہے کہ وہاں معاشرے کو قائم رکھنا ایک اہم مسلہ بن چکا ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...