مغرب کے نسل پرستی کے بارے میں مختف نظریات ہیں ان میں (۱) مذہبی نظریہ ۔ اس کے مطابق تمام بنی نوع انسان حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حام ، سامی اور یافت کی نسل سے ہیں ۔ یہ نظریہ امریکہ کی دریافت کے اہم نہیں رہا اور اس میں زرد اور شرق الہند کی نسلوں کا بھی ذکر نہیں ہے ۔
(۲(سفید رنگ یا یورپین ہونے کا نظریہ ۔ اہل یورپ کا رنگ عام طور سفید ہے اور وہ سفید رنگ کو ایک علحیدہ نسل سمجھتے تھے ۔ حالانکہ کچھ ترک و ایرانی اور یہودی کی یورپیوں کی طرح سفید رنگ کے ہوتے ہیں ۔ اس نظریہ کے مطابق یورپ کے لوگ اپنے کو دوسری رنگ درار نسلوں سے برتر قرار دیئے گئے ۔ یہاں تک کہ بہت سے یورپی ملکوں کے قانون میں بھی اسے استعمال کیا گیا ۔ مثلا انگلستان کی سول سروس میں صرف ایسے برطانوی باشندے اہل تھے جو یورپین نسل سے ہوں ۔ امریکہ میں بسنے کے لیے سفید یا یورپین ہونے کی شرط تھی ۔ انگلستان کی لبرل پارٹی نے بھی یورپین نسل کی حمایت کی تھی ۔ جنگ عظیم اول میں برطانیہ کے وزیر اعظم نے کوشش کی کہ ترکی کا وجود یورپ میں باقی نہ رہے ۔ اب بھی اسی اصول کے تحت یورپین کامن مارکیٹ میں ترکی کو رکنیت نہیں دی جارہی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سی یورپی اقوام مثلاً فن ، استھونی ، ہنگری اور باسک آریائی زبانیں نہیں بولتی ہیں ۔ جو قومیں آریائی زبانیں نہیں بولتی ہیں وہ اپنے یورپین یا سفید کہتی ہیں تھیں ۔ ایچ اے ایل فیشر نے اپنی تاریخ یورپ میں لکھتا ہے کہ ہم آسانی سے پیکنگ ، بنارس اور طہران کے لوگوں کے مقابلے میں یورپین آدمی کو پہچان سکتے ہیں۔ مگر فیشر شاید یہ بھول گیا کہ بہت سے ہندوستانیوں کو اٹلی ، اسپین اور یونان کے باشندے سمجھنا اور پرتگالی باشندوں کو ایشیا اور یورپ کے باشندے سمجھنا یورپ میں عام بات ہے ۔ کیوں کہ پرتگال ، اسپین ، یونان ، اٹلی اور جنوبی فرانس کے بہت سے لوگوں کا رنگ گندمی ہے ۔ نسلی ملاپ کی بنا پر کوئی جغرافیائی خط حدود بندی نہیں کی جاسکتی ہے ۔ اس طرح بہت سے مصریوں ، شامیون ، عربوں اور الجرائر اور تیونس کے بربر باشندوں کا رنگ اتنا صاف ہوتا ہے کہ ان اور یورپین باشندوں کو کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا ہے ۔
(۳) آریائی نسل کا نظریہ ۔ پہلے پہل جب لسانیات کا تقابلی مطالعہ کی گیا تو یہ درریافت ہوا کہ یورپ کی زبانیں اور ہند آریائی زبانیں ایک گروہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اس لیے آریائی نسل کے نظریہ نے جنم لیا ۔ اس میں ایک بڑا نقص یہ تھا کہ بہت سی رنگدار قومیں جن میں روس کے جارجین ، آرمینا ، ایران ، افغانستان اور برصغیر کی قومیں آریائی زبانیں بولتی ہیں اور ان کا بھی آریا ہونے کا دعویٰ ہے ۔ اس لیے ایشیائی قوموں کو مخلوط قراد دیا گیا ۔
(۴) نارڈک نسل کا نظریہ ۔ یہ اصل میں آریائیں نسل ہی ہے مگر ایشیا میں آباد آریاؤں کو مخلوط النسل بتایا گیا اور یورپیوں کو خالص آریائی اور اس فرق کو واضح کرنے کے لیے یورپیوں نارڈک نسل کہا گیا ۔ اس نظریہ کے مطابق یورپ کی سفید نسل اصل میں نارڈک یعنی سفید سنہرے بالوں والی دراز قد نسل تھی ۔ جس کا وطن اسکینڈی نیویا یا جنوبی روس تھا ۔ یہی نسل میڈی ٹرے نین نسل اور یوریشیائی نسلوں سے ملی اور ان کے رنگ کو سفید کر دیا ۔ یہ نسل جس کے خالص نمونے شمالی یورپ اور خصوصاٗ اسکینڈی نیویا ، جرمنی اور انگلینڈ میں نظر آتے ہیں ۔ یورپ کے مفکروں کے مطابق یہ بنی و نوع انسان کی عظیم نسل ہے ۔ یہ نظریہ جرمنی میں سرکاری طور پر رائج رہا ۔ جرمنی کے علاوہ امریکہ میں نارڈک نسل کے نظریہ کو پھیلانے کی کوشش کی گئی مگر اس قدر کامیابی نہیں ہوئی ۔ اس نظریہ کی بنا پر جرمنی اور امریکہ کے نسلی اختلاط کا مدار ہے ۔
جرمنی میں اس نظریہ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی تھی ۔ اسی زمانے جرمنی جو پہلی جنگ کی تیاری کر رہا تھا ۔ اسے اس طرح کے نظرے کی بڑی ضرورت تھی ۔ چنانچہ گستاف کوزی نا نے اپنی کتاب اسی موضع پر لکھی اور اس نے کوشش کی کہ نارڈک یا آریائی نسل کا اصل وطن بالٹک کو قرار دے ۔ جب کہّ آریاؤں کا اصل وطن وسط ایشیا تھا اور آثار قدیمہ کی تحقیق سے ثابت ہوچکا تھا کہ یہاں میڈی ٹرے نین نسل آباد تھی ۔ بہرحال نارڈک نظریہ جرمنی میں بہت مقبول ہوا اور نسل پرست نازی پارٹی کا راستہ رفتہ رفتہ صاف ہوگیا ۔
جرمنی کی کوشش تھی کہ تمام جرمن بولنے والے باشندوں کو ایک ہی مملکت کے تحت لایا جائے اور دوسرے اس کے محکوم ہوں ۔ یہ حکمت عملی ابتدا میں بسمارک کی تھی اور بعد میں ہٹلر نے اسے وسیع پیمانے پر پھیلایا ۔ اس نے نو آبادیوں کے بجائے جرمنی کی بہتری دیکھی کہ یورپ میں ایک طاقت ور ریاست قائم کی جائے ۔ چنانچہ جب فرانس سے اس نے الساس اور لورین اور ڈنمارک سے شلیگ ہول اشٹاین چھینا ۔ اگرچہ بعد میں بسمارک نے جرمن تاجروں8 اور سرمایاداروں کے زیر اثر اس نے نو آبادی مقبوضات کی کوشش ضرور کی مگر اس کی حثیت ثانوی رہی ۔ قیصر ولیم ثانی اور اس کے بعد ہٹلر اسی حکمت علی کو آگے بڑھایا ۔ کیوں کہ سفید نسل یا یورپین نسل کی برتری کا نظریہ اس کے لیے کافی نہیں تھا ۔ اس کے لیے نارڈک نسل کے نسل کے دعویٰ کو آگے بڑھایا گیا اور اس کے مطابق جرمنوں کو دنیا کی دوسری نسلوں بلکہ یورپ کی تمام نسلوں سے برتری کا دعویٰ کیا گیا کہ صرف یورپین یا سفید نسل ہونا کافی نہیں ہے بلکہ نارڈک ہونا ضروری ہے ۔ (جاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...