مودہ انسان چوتھے برفانی دور میں ارتقاء پزیر ہوا ہے ۔ اس سے پہلے کئی انسان نما نسلیں وجود میں آئیں اور فنا ہوگئیں ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ انسان کا جنم کہاں ہوا تھا ۔ البتہ جس وقت موجودہ انسان وجود میں آیا اس وقت کرہ ارض پر چوتھا برفانی دور چل رہا تھا اور یورپ سیکڑوں فٹ اونچی برف میں چھپا ہوا تھا ۔ اس لیے زیادہ امکانات انسان کے جنم لینے کے وسط ایشیاء یا افریقہ میں ہیں ۔ چوتھے برفانی دور کے خاتمے پر کئی نسلیں وجود میں آگئیں تھی ۔ جو یورپ ، ایشیاء اور افریقہ میں پھیل چکی تھیں ۔ انسان نما نوع کے فنا ہوجانے اور موجودہ انسان کے باقی رہ جانے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو فطرت نے دنیا کے مختلف جغرافیائی آب و ہوا براشت کرنے صلاحیت دی ہے ۔ وہ خط استوا اور بحر منجمد شمالی کے موسم اور آپ و ہوا کو برادشت کرسکتا ہے ۔ اس کے لیے اسنے اپنی عقل و فہم کے ذریعہ مصنوعی ذرائع مثلاً گھر بنانا ، کپڑوں اور آگ کا استعمال اور شکار کے لیے ہتھیار کا استعمال سیکھ لیا ہے ۔
یہ نسل انسانی جو کہ انسان عاقل کہلاتی ہے دنیا کی تمام نوع نسلیں اسی شاخیں ہیں ۔ اس لیے جو ہکسکے ایک ہی نام انسانی گروہ Ethnic group تجویز کیا ہے ۔ انسان کی شکل و صورت ، جسامت اور قطع وٖضع میں تبدیلی اس کے رہن سہن اور جغرافیائی خطوں کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ مثلا خطہ استوا کے باشندوں کا سیاہ اس لیے ہوتا ہے کہ اسے قدرت نے گرمی کو براشت کرنے کے لیے صلاحیت ہوتی ہے یا چینی باشندوں یورپ سے شکل و صورت ، آنکھوں اور سر کی ساخت میں مختلف ہیں تو اس وجہ جغرافیائی حالات کا اثر ہے ۔ یورپ کے باشندے نسلی لحاظ ایشیا اور افریقہ کے باشندوں سے مختلف ہیں ۔ یورپ میں جو نسلی گروہ آباد ہوئے وہ کچھ یوں ہیں ۔
بضیر روم کی نسل یا میڈیٹری نین ۔ جسے Elliot Smith نے گندمی نسل لکھا ہے ۔ اس گروہ کا رنگ سفیدی مائل سے گندمی بلکہ خاصا گہرا رنگ ہوتا ہے ۔ اس گروہ کے کے بحیرہ روم کے چاروں طرف یعنی یورپی ملکوں کے علاوہ افریقہ اور ایشیا میں بھی آباد ہوا ہے ۔ ایلیٹ اسمتھ کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی قدیم باشندوں کی ہڈیوں کی جو ساخت تھی وہ بحیرہ روم کے باشندوں کی ہے ۔ سامی نسلوں کا تعلق اسی گروہ سے ہے ۔
شمالی یا نارڈک گروہ ۔ اس گروہ کی جلد سرخی مائل سفید ہے اور بال سیدھے ہیں ، بالوں کا رنگ پیلا ، بھورا یا سنہرا ہوتا ہے ، آنکیھیں نیلی یا بھوری ہوتی ہیں ، قدر اکثر اونچا ہے ۔ اس گروہ کے نمونے اسکینڈی نیویا ، شمالی روس اور جزائر برطانیہ میں زیادہ ملتے ہیں ۔ اس گروہ کا اصل وطن وسط ایشیا بتایا جاتا ہے ۔ نسل پرستوں کا کہنا ہے کہ آریائی زبانیں اسی گروہ کی تھی اور اس نے اپنایا ہے ۔
یوریشیائی یا آلپائینی گروہ ۔ اس گروہ کا سر چوڑا اور رنگ سفید ہوتا ہے ۔ یہ گروہ ہمالیہ کے شمال سے لے کر ایشیائے کوچک ، بلقان اور یورپ کے وسطی پہاڑوں پر آباد ہیں ۔
آلپائینی ۔ اس گروہ کا سر چوڑا ، بال سیاہی مائل ، ناک ذرا چوڑی اور قد اوسط ہوتا ہے ۔ اس گروہ کے لوگ روس سے لے کر وسط فرانس تک پائے جاتے ہیں ۔ اس گروہ کی مغربی شاخ سلاف کہلاتی ہے ۔
یوریشائی یا دنیاری Dinarie گروہ کہلاتی ہے ۔ یہ بحیرہ اڈریاٹک کے شمالی سواحل پر عام طور پر پائی جاتی ہے ۔ جنوبی پولینڈ اور جرمنی کے بعض حصوں میں اس نسل کے لوگ ملتے ہیں ۔ ان کا قد اونچا ، بال سیا ، رنگ گندمی مائل اور چہرہ لمبا ہوتا ہے ۔
مشرقی گروہ ۔ اس گروہ کا قد میانہ ، چہرہ چوڑا اور ہڈی دار ، جلد سفید ، بال اکثر راکھ کے رنگ کے ، ناک اٹھی ہوئی ۔ اس گروہ میں فن ، سفید روسی ، یوکرینی ، پول اور ایستھونی شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ یورپ ترکی گروہ کے لوگ بلقان ، کریمیا اور ہنگری میں ملتے ہیں ۔
اس تفصیل سے ایک سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ان میں کسی خاص نسل کو یورپی نسل نہیں کہے سکتے ہیں اور نہ ہی یہ سب نسلیں سفید رنگ کی کی ہیں ۔ یورپی علاقہ کبھی بھی ایشیا اور افریقہ سے جدا رہے ہیں ۔ ایشیا اور یورپ میں ، نسلی اختلاط و ربط ہجرت اور جنگ و جدل کی صورت جاری رہا ہے ۔ یاد رہے جنگ بھی نسلی اختلاط کا ایک ذریعہ ہے ۔ اس کے باوجود یورپ میں نسل پرستی کے تمام نظریوں کی بنیاد اس مفروضہ پر تھی کہ ایک یورپ طبعاً اور فطرتاً دنیا کی تمام نسل سے برتر ہیں اور انہیں ان پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے ۔ (جاری)
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...