انیسویں صدی عیسویں میں یورپ میں اس خیال نے جنم لے لیا تھا کہ سفید نسلی اعلٰ نسل ہے اور اس اعلیٰ نسل کا فرض ہے کہ وہ دنیا کی غیر متمدن اقوام یعنی ایشیا اور افریقہ کے باشندوں کو تہذیب سکھائے ۔ فرانسیسی ادیب ژذل فیری نے کہا تھا کہ اعلیٰ نسلوں کا فرض ہے کہ وہ پست نسلوں کو تہذیب سکھائیں ۔ فرانس اس کے لیے ایک مثالی حثیت رکھتا ہے ۔ جرمن اور آگے بڑھ گئے انہوں نے جرمن تہذیب کو افریقہ کے جنگلوں کے علاوہ ہوسکے تو دوسرے یورپی ملکوں کی نو آبادیوں میں بھی ۔ مشہور انگریز شاعر لارڈ کپلنگ نے اس کے لیے سفید آدمی کے بوجھ کی اصطلاح ایجاد کی ۔ اس کی نظم کا یہ حصہ دیکھیں ۔
Take up the white man,s burden……..
Send forth the best ye breed……..
Go bind your sond to exile…….
To serve your captive,s need.
To wait in benvy haness…….
On fluttered fold and wild…….
Your new caufht Sullen peopies
Half-devil and half child.
جہاں متمدن سفید آدمی کو اپنے فرض کا احساس تھ کہ وہ غیر متمدن ایشیائی اور افریقی دیسی باشندوں کو بقول کپلنگ نیم طفل اور نیم شیطان ہیں تربیت دے اور انہیں تمدن سکھائے ، وہاں اس یہ بھی یقین تھا کہ یہ غیر متمدن لوگ طبعاً اور فطرتاً پست ہیں اور کبھی متمدن نہیں ہوسکتے ہیں ۔ کپلنگ نے بھی لکھا ہے ہے ۔
For East ai East and West is West.
And never th twins shalaa meet,
ساتھ ہی اے یقین تھا کہ دنیا کے تمدن سارا نظام ، انسانیت اور آزادی کے تمام تر تخیلات سفید آدمی کے دم سے وابستہ ہیں ۔ اس لیے کپلینگ کہتا ہے ۔
There.s but one Task for all,
one life for each to gibe,
What stands if freedom fall?
Who dies if England live,
اگرچہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ غیر متمدن دیسی اقوام سفید آدمی سے پست تر ہیں اور پست تر رہیں گیں ، کبھی ان کا تمدن اچھی طرح اختیار نہ کرسکیں گیں اور سفید اقوام ہی تمدن کی اصل بانی اور اصل نگہبان ہیں پھر بھی ( معلوم نہیں کیوں ؟ ) ان کا فرض یہ ہے کہ قربانی کرکے سفید آدمی کا بوجھ ( یعنی رنگ والی غیر متمدن اقوام کو فائدہ پہنچانے کی کوششوں کا بوجھ ) برابر اٹھاتی رہیں ۔ ان نیم ظفل نیم وحشی قوموں کی تربیت پھر بھی سفید آدمی کا فرض ہے اور کپلنگ کہتا ہے کہ
Take up the white man,s burden
with patience to abide
To veil the threat of terror
And chedk the show of pride
By ope speech and simple
An hundred times made plain
To seek another,s profit
To work another,s gain
حیرت ہے کہ سفید آدمی اس سخت بوجھ کو اٹھائے رہنے پر کیوں مصر ہے ۔ بقول فارسٹر E M Forster اور زیادہ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ جب کوئی اور سفید آدمی کا یہ بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے ( یا جنگ کرکے اس سے بوجھ چھین لینا چاہتا ہے ) تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتا ہے اور بعض اوقات انہیں وحشی غیر متمدن انسانوں کو اپنے مخالف سفید آدمی سے لڑنے کے لیے میدان جنگ میں لاتا ہے ۔ پست نسلوں پر سفید رنگ کے آدمی کی گرفت مظبوط رکھنا چاہتے تھے ۔ (جاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...