یورپی ممالک نے نو آبادیوں پر قبضہ خالص معاشی فوائد کے لیے کیا تھا ۔ مگر ان ملکوں نے اپنے عوام کے سامنے اس کی مختلف تاولیں پیش کیں تھیں ۔ ان میں وطن پرستی اور سفید نسل کی برتری کا نظریہ زیادہ پیش پیش تھے ۔ ان نو آبادیوں پرقبضہ کی حمایت کرنے والوں میں فوجی افسر ، وہاں متعین عہداروں اور ان کے اہل خانہ ، سرمایادار یا کارخانہ دار اور عیسائی مشنری حامی تھے ۔ ان میں فوجی افسروں جو ان ملکوں میں فتوحات حاصل کرتے تھے اس سے انہیں فوائد حاصل ہوتے تھے ۔ نو آبادی کے عہدے دار اور ان کے خانداں والوں کو دولت کے علاوہ بے شمار فائدے حاصل تھے ۔ مشنریاں نو آبادیوں میں عیسایت کی تبلیغ کرنا چاہتی تھی ۔ سرمایاداروں کو ان نوآبادوں کی بدولت ان کے مال کی کھپت اور سستہ خام مل رہا تھا اس لیے وہ دل و جان سے ان نو آبادیوں پر قبضہ کے حامی تھے اور انہیں براہ راست معاشی فائدہ ہو رہا تھا ۔ لیکن عام لوگوں کو ان نو آبادیوں کی بدولت کی بدولت روزگار میسر تھا مگر ان کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے ۔ اس لیے پروپنگنڈا کیا جاتا تھا کہ سفید اقوام نسلاً دنیا کی رنگ دار اقوام سے برتر ہے ، ان کا فرض ہے وہ ان پر حکومت کریں اور وہ دنیا کی غیر متمدن اور پست اقوام کو اپنا تمدن سیکھائیں ۔
جب کبھی نو آبادیوں کوئی کوئی خطرہ درپیش ہوتا تو اسے قومی عزت کا مسلہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا ۔ کہ کچھ بھی ہوجائے قومی عزت پر آنچ نے آنی چاہیے ۔ اس لیے اگر کوئی محکوم قوم آزادی کے لیے مزاحمت کرے تو اس کی سرکوبی قومی فرض ہوجاتی تھی ۔ بقول پروفیسر مون کے اگر کوئی مسلمان کسی اطالوی لڑکی کو بھگا کر لے جائے تو اٹلی کو یہ حق ہے کہ وہ طرابلس پر قبضہ کرلے ۔ اگر میکسکو والے امریکہ جھنڈے کو سلامی نہیں دیں تو امریکہ بحری بیڑا ویراکرز پر قبضہ کرسکتا ہے ۔ کیوں کہ قوم کا سر ہر معاملے میں اونچا رہنا چاہیے ۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی نو آبادی کے مسلے پر دو یورپی ملکوں میں اختلاف شدد سے بڑھ جاتے تھے تو دونوں کی قومی عزت خطرے میں پڑ جاتی تھی ۔ مثلاً مراکش پر قبضہ کرنے کی جب فرانس نے کوشش کی تو جرمنی نے مخالفت کی اس سے فرانس اگر مان لیتا تو اس کی قومی عزت خطرے میں پڑ جاتی تھی ۔ اگر جرمنی اعتراض واپس لے لیتا تو اس اس کی قومی عزت کو ٹھیس پہنچتی ۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں ۔
یورپ کی آبادی کسی ایک نسل سے تعلق نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ مختلف نسلیں اس میں شامل ہیں ۔ ان میں مسلسل نسلی اختلاط اور نگ و جدل رہا ۔ یاد رہے جنگ و جدل خود نسلی اختلات کا ایک ذریعہ ہے ۔ اس لیے یورپ کی کسی خالص نسل سے خیال کرنا محض خام خیال ہے ۔ اس کے باوجود سفید نسل کی برتری کا پرچار کیا گیا ۔ جس میں سفید آدمی برتری اور اس کے بوجھ کے مفروضے پیش کیے گئے ۔ کہا گیا کہ یورپی یعنی سفید یا نارڈک یا آریائی نسل دنیا کی تمام نسلوں سے ہر لحاظ سے برتر ہے اور اس کا فرض ہے کہ دنیا کی تمام نسلوں پر حکومت کرے ۔ دوسرا یہ کہا گیا کہ نسلی اختلاط سفید نسل کے لیے حیاتیاتی اور تمدنی نقطہ نظر سے بہت مضر ہے ۔ کیوں کہ اس طرح سفید نسل خودکشی کرلے گی ۔
ان طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے بہت سے نظرے اپنائے یا انہیں غلط معنیٰ پہنائے گئے ۔ اس کے لیے ڈارون Darwin کا نظریہ ارتقاء کی غلط تشریح کی گئی اور اس کے ذریعہ لسانی ، مذہبی ، اخلاقی اور نفسیاتی دلائل دئیے گئے ۔ اس طرح اس نظریہ کو غلط رنگ میں پیش کرکے نسلی ، مذہبی اور تمدنی تعصبات پیدا کئے گئے اور یورپی نسل اور یورپی تمدن کو دنیا کی سب سے بہترین نسل قرار دیا گیا ۔
۱۷۷۵ء میں جے ایف بلومن باخ J F Blumenbach نے قاف والی نسل Cancassian race اصطلاع استعمال کی ۔ جس سے اس کی مراد یورپین نسل تھی ۔ اس کے پاس یہ قدیم کھوپڑی قاف واقع جارجیا سے آئی تھی اس لیے اس نے یہ نام تجویز کیا تھا ۔ بلو من باخ کا خیال تھا کہ تمام بنی نوع انسان کی نسل ایک ہی ۔ نہ صرف بلکہ دماغی حد تک سب ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اگر کوئی فرق ہے تو درجہ کا ہے نوع یا قسم کا نہیں ۔ تمام نسلیں ایک دوسرے سے درجہ بدرجہ ملی ہوئیں ۔ بلومن باغ کا نام تو مشہور ہوگیا ، مگر اس کے نظریے کو مصنفین اور محقیقن نے عمداً فراموش کردیا ۔
فرانسیسی مصنف گلابی نو نے مختلف نسلوں پر ۱۸۵۵ء میں Essau Sur Einegalite das raecs human ines کتاب لکھی ۔ جس میں نام نہاد آریائی نسل کی برتری کا قصہ الاپا ۔ اس کے بعد لاپوژ Lapouge نے آریائی نسل اور نسل اور نارڈک نسل کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کی ۔
۱۸۵۹ء میں چارس ڈاون کی کتاب Origin of Species شائع ہوئی ۔ ۱۸۷۱ء میں اس کی دوسری کتاب Descent of Men شائع ہوئی ۔ نسل پرستوں نے ڈارون کے نظریے کو ٹور مروڑ کر ارتقاء کے نظریہ کو مسخ کرکے عوام کو طرح طرح سے سفید نسل انسان کی سب سے ترقی یافتہ صورت ہے اور دوسری نسلیں ابھی ارتقاء کی کمترین منزلیں طہ کر رہی ہیں ۔ گویا وہ ابھی سفید نسل اور بندر کی درمیانی کڑیاں ہے ۔ گو اس کی قسم کی کوئی بات ڈاون نے نہیں کی تھی ۔ مگر یورپ نے علم و فنون میں جو ترقی کی اور دنیا کے بڑے حصہ پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی اس کی بنیاد پر انہوں نے یہ فرض کرلیا تھی ۔ وہ جان بوجھ کر تاریخ کو بھول گئے تھے کہ کس طرح عربوں ، ترکوں ، ہنوں اور منگولوں نے یورپ پر حکومت کی تھی اور ایشیا نے دنیا کو جو تہذیب و ترقی کے سبق دیئے تھے وہ صرف محقیقن کو یاد تھے ۔ جب کہ عوام و الناس کا خیال تھا کہ یون سے تہذیب و تمدن کی ابتدا ہوئی ہے اور یورپ کے علاوہ دنیا کے دوسرے حصے جاہل اور وحشی رہے ہیں اور اب بھی جاہل ہیں ۔ یہاں تک چین اور قدیم ہندوستان کے عظیم انشان تمدنوں کی داستانیں یورپ کے مدارس کی عام کتابوں میں شامل نہیں تھیں ۔ (جاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...