آج مغرب کی انسان دوستی ، آزاد خیالی ، ہمدردی اور وسعت نظری کی مثال بنے ہوئے ہیں اور ہمارا دانشور طبقہ ان کی تعریفیں کرتا ہوا تھکتا نہیں ہے ۔ اس کی نسبت مشرقیوں کو نہایت تنگ نظر خیال کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ انہوں نے ماضی کے تمام مسلم فاتحین کو آج کے پیمانے پر تولتے ہیں ۔ انہیں لٹیرے اور بہت کچھ کہا جاتا ہے ۔ حلانکہ ان کا موازنہ کرنا ہے تو اس دور سے کیا جائے ، ناکہ آج کے دور سے ۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے مغرب آج کی نسبت پہلے نہایت تنگ نظر تھا اور انہوں نے اخلاخیات کے اپنے ہی پیمانے بنائے ہوئے تھے ۔ مغرب کی تعریقفیں اور انہیں برا کہنے والوں نے مغرب کے کی کرنے والے مغرب اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ کل تک ان کے اخلاقیات کے پیمانے کیا تھے ۔ جہاں نہایت معمولی معولی باتوں پر بچوں تک کو پھانسی چڑھا دیا جاتا تھا ۔ خود برطانیہ جس میں بیسویں صدی کی ابتدا تک ۱۰۲ جرم کی سزا سزائے موت تھی اور بیسویں صدی کی پہلی ڈھائی میں ایک دس سال کی بچے کو پھانسی دی گئی تھی ۔ جس کا جرم یہ تھا اس نے ایک چاندی کا چمچ چرایا تھا ۔ اس طرح کی سزاؤں کا مشرق کبھی تصور پیدا نہیں ہوا ۔ مغرب کی آزاد خیای کی تصویر آج کی بات ہے ، ورنہ مغرب میں گزشتہ صدی کے وسط تک وسعت نظری پیدا نہیں ہوئی تھی اور ان کے اخلاقیات کے پیمانے آج سے مختلف تھے ۔ گزشتہ صدی کے ساتویں ڈھائی تک امریکہ اور جنوبی افریقہ میں کالوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہوتا تھا اس کی مغرب کی تعریف کرنے والے تاویل پیش کریں گے ۔ یہ ایک بڑی حقیقت جس سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں ان کل کی تنگ نظری اور آج کی وسعت خیالی کے پیچھے بھی معاشی و سیاسی مفاد ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے ۔ ان کی نسل پرستی کے وہ پہلو ہیں جن کی مشرق مثال پیش نہیں کرسکتا ہے ۔ لہذا مغرب کے نسل پرستی کے پہلو پر کچھ بات ہوجائے ۔
اٹھاویں صدی عیسویں کی ابتدا میں دنیا کی دولت اور نو آبادیوں پر چار ملک چھائے ہوئے تھے ۔ جو ۱۷۶۳ء تا ۱۸۲۵ء کے دوران یا تو مٹ چکی تھیں یا ان میں بڑی تبدیلی آچکی تھی ۔ ۱۷۶۳ء میں انگلستان نے امریکہ میں فرانس کے مقبوضات پر قبضہ کرلیا تھا ۔ ۱۷۷۶ء میں امریکہ کے اعلان آزادی کے بعد برطانوی حکومت کو سخت صدمہ پہنچا تھا ۔ ۱۸۱۰ء تا ۱۸۲۵ء کے درمیان امریکہ میں اسپین کی نو آبادی کا خاتمہ ہوگیا اور ۱۸۲۲ء میں پرتگال کے قبضے سے برازیل نکل گیا ۔
اس لیے اور یورپ کے صنعتی انقلاب کے باعث یورپ اور خصوصاً انگلستان کے ماہرین معاشیات نے تجارتی نظریہ زر کے بجائے آزادنہ تجارت کی اہمیت پر زور دیا ۔ نگلستان میں جمیز مل اور مالتھس وغیرہ آزاد تجارت کے حامی تھے ۔ وہ دنیا کے دور دراز حصوں پر مقبوضات کے خلاف تھے جنانچہ کابڈن Cabdan نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمت علمی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ قدرت اپنے قوانین کی برتری قائم رکھے گی اور سفید چمڑی والوں کو اپنے ملکوں میں واپس آنا پڑے گا ۔ یہی حال ایک حد تک فرانس تھا اور جرمنی میں بسمارک نے تو نو آبادی کے جھگڑوں میں الجھنا پسند نہیں کیا ۔ چنانچہ جب فرانس نے اپنی شکست فاش کے نتیجے میں الساس لورین کے بدلے کوچین اور چائینا جرمنی کو دینا چاہے تو بسمارک انکار کر دیا ۔ اگرچہ بعد میں بسمارک کی حکمت علمی بدل گئی ۔
مگر یورپ کے صنعتی انقلاب نے یورپ میں ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اسے اپنی حکمت عملی بدلنی پڑی ۔ کیوں کہ نئی نئی ایجادات کی وجہ سے کارخانوں میں کثیر مقدار میں مال تیار ہونے لگا اور اس مال کی کھپت کے لیے نئی منڈیوں کی بہت شدید ضرورت تھی ۔ اس کے علاوہ کارخانوں کو اپنے مال کی تیاری کے لیے سستے خام مال کی بھی شدید ضرورت تھی ۔ اسی زمانے میں ذرائع آمد نے نہایت ترقی کرلی تھی اور ریل ، دخانی جہاز ، تاربرقی کی ایجاد نے دور دراز کے علاقوں تک رسائی کو آسان کردیا تھا ۔ اس لیے تیار شدہ مال کی کھپت اور خام مال کے حصول کے لیے صرف ایشیا اور افریقہ کے علاقہ تھے جہاں قبضہ سے یورپی ممالک کو زیادہ آمدنی کی توقع تھی ۔ اس لیے یورپی ممالک نے نو آبادیوں پر قبضہ کرنے کی ڈور شروع ہوگئی ۔ ان معاشی اسباب کی بنا پر وطنیت کا ایک نیا تخیل پیدا ہوا اور اس نے تجارتی نظریہ زر کو ایک نئے روپ میں دوبارہ زندہ کر دیا ۔
وطن پرستی سے مراد کسی ایک علاقہ لوگ جو ایک ہی زبان بولتے ہیں یا ایک ہی نسل سے ہیں یا جن کا تمدن اور تاریخی روایات ایک ہیں اور ایک آزاد ریاست میں الگ رہنا چاہیے ہیں ہیں ۔ مگر اس کے برعکس وطن پرستی معنیٰ یہ قرار کہ کسی یورپ کی ریاست کے لوگ ملکی تجارتی اور معاشی مفادات میں رنگدار لوگوں پر حکومت کریں ۔
اگرچہ اس کے وطنیت Partriotism زیادہ مقبول نہیں ہوا اس کی جگہ قومیت یا قوم پرستی Nationalism نے لے لی جس کے معنیٰ بھی یہی تھے ۔ اس کے بعد یورپ ممالک کی نو آبادیاں حاصل کرنے کی یا ان پر قبضہ کرنے کی ڈور شروع ہوگئی ۔ اس ڈرو میں برطانیہ سب سے آگے تھا ۔ فرانس اور ہالینڈ بعد میں شامل ہوئے اور فرانس کے ملکی حالات نے کچھ زیادہ ساتھ نہ دیا ۔ پھر بھی اسے نے افریقہ میں ایک بڑا علاقہ حاصل کرلیا ۔ جرمنی چوں کہ بعد میں شریک ہوا اس لیے اس کے ہاتھ افریقہ میں کچھ علاقہ ہی ہاتھ آیا ۔ اسپین نے اس مرتبہ نو آبادیوں کے لیے کوئی کوشش نہیں کی ۔ اٹلی بہت بعد میں جاکر افریقہ کے کچھ حصہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا ۔
نو آبادیوں پر قبضہ کرنے کی اس ڈور میں بعض ملکوں کو زیادہ اور بعض کو کم حصہ ملا ۔ لیکن تقریباً پوری دنیا انیسویں صدی کے آخر تک یورپی ملکوں کے حلقوں میں بٹ گئی ۔ اس تقسیم سے محروم ملکوں میں شکایات پیدا ہوگئی تھی ۔ لہذا لینن نے بہت پہلے کہا تھا کہ دنیا کی یہ تقسیم قطعی نہیں ہے اور مزید علاقوں پر قبضہ کے لیے ملکوں کے درمیان جنگیں ہوسکتی ہیں ۔ لینن کی بات درست نکلی اور دنیا میں میں دو بڑی جنگیں مقاصد کے لے لیے جنگیں لڑیں ۔ (جاری)
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...