چودھویں کے چاند کی ملائم چاندنی کچّے کوٹھے کے دروازے سے اندر آ رہی تھی، جہاں لالٹین کی دُھندلی روشنی پھیلی تھی۔ ایک جھلنگا چارپائی صندوق کے قریب بچھی تھی، جس پہ ایک بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھااوراس کے پاس حقّہ دھرا تھا۔ جس کی نَے ہونٹوں میں دبا کے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کش لگاتاتوکمرے کی خاموشی میں حقّے کی گڑگڑاہٹ پھیل جاتی اوروہ دھویں کو ناک اور منہ سے نکالتے ہوئے کھانسنا شروع کر دیتا۔بوڑھے کی آنکھوں میں سفید موتیا اُتر آیاتھا، جس کی وجہ سےاس کے سامنے ایک مستقل تاریکی چھائی رہتی ۔’’مکّھے ابے او مکّھے! مجھےپانی تو پکڑا،بہت پیاس لگی ہے‘‘بوڑھے کی آواز نیم روشن کمرے میں گونجی۔ کمرے میں وہ اس وقت اکیلا پڑاتھا ’’کدھر مر گیا تُو؟ ‘‘بوڑھے کی آواز میں طیش تھاکہ اس کا حلق سوکھ کے کانٹا ہو چکا تھا۔’’آج تو لگتا ہے یہ پیاس میری جان لے کر ہی رہے گی،کس کربلا میں پھنس گیا ہوں۔یہ مکھا نہ جانے کہاں چلا گیا۔لگتا ہے، کہیں باہر نکل گیا ہے، مَیں خود ہی اُٹھ کر پانی پی لیتا ہوں۔‘‘وہ دیوار ٹٹولتا صندوق تک پہنچا اورہاتھ پھیر کر صندوق کا اوپری حصّہ کھنگال ڈالا، مگرجگ کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔’’یہ جگ کہاں چلا ہو گیا؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔پھر دیوار ٹٹولتا واپس چارپائی کے قریب آیا تو اس کا پاؤں حقّے سے ٹکرا گیااور حقّہ زمین پہ جاگرا۔چِلم کچے فرش سے ٹکرائی تودہکتے کوئلے فرش پہ بکھر گئے۔ اوربوڑھے بابا، سخی سرور کا پاؤں دہکتے کوئلوں پہ آگیا۔حلق سے ایک دل دوز چیخ نکلی ۔ وہ اُچھلتے ہوئے بھاگا تو توازن برقرارنہ رکھ سکااورچارپائی سےٹھوکر کھا کے زمین پہ گرکے آہستہ آہستہ کراہنے لگا۔اتنے میںایک ہیولا کمرے کی نیم روشن تاریکی میں داخل ہوا۔ جس کے ہاتھ میں پانی کا جگ تھا ،اس نے چارپائی کی طرف دیکھا ۔چارپائی خالی پڑی تھی۔اُس کی نگاہیں اوندھے پڑے حقّے پہ پڑیں ، کوئلے نظر آئے، پھر اس کی نظریں زمین پر کراہتے بوڑھے شخص کی طرف مُڑ گئیں، جسے دیکھتے ہی اس کے پَیروں تلے زمین نکل گئی۔یہ اِس بوڑھے شخص کا جواں سال بیٹا ،مکّھا تھا۔جس کا اصل نام تو مختار تھا ،مگر بگڑ کر مکھا ہو گیا تھا۔’’ابّا …ابّا جی! آپ کو کیا ہوگیا؟‘‘ اس نے جگ زمین پہ رکھا اور بوڑھے کی طرف بھاگا۔’’تجھےپتا ہے ناں،جب سے آنکھوں کے چراغ بجھے ہیں ،اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہوں۔‘‘’’ابّا! آپ چارپائی سے اُٹھے ہی کیوں تھے؟‘‘مکھے نے باپ کوسہارا دے کر اٹھاتے ہوئے کہا۔’’پیاس کے مارے جان نکل رہی تھی۔جانے کتنی دیر تجھے آوازیں دیتا رہا، پھر خود اُٹھ کر صندوق کی طرف گیا تو ٹھوکر کھا کے گر گیا۔‘‘’’ابّا! مَیں آپ کے لیے پانی لینے گیا تھا۔جگ خالی تھاتو مَیں نے سوچاآپ کو رات کو باربار پیاس لگتی ہے، تو پیر صاحب کی خانقاہ سے پانی بَھرنے چلا گیا تھا۔‘‘ مکھا، باپ کی ٹانگوں پر مٹھیاں بھرنے لگا۔’’میرے پیروں میں بہت جلن ہو رہی ہے، ذرا وہ دتّے حجام کی ٹھنڈی مرہم ہی پیروں پہ مَل دے۔‘‘ سخی سرور نے درد بھری آواز میں کہا۔مکھےنے مرہم کی ڈبیا نکالی اور باپ کے پیروں میں ملنے لگا۔’’پانی لانے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی۔کہیں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کودنے تو نہیں لگ گیاتھا؟‘‘بوڑھے نے سوال کیا۔مکھے نے مرہم لگا کے زمین سے جگ اٹھایا اور پانی کا پیالہ بابے سخی سرور کو پکڑا دیاکہ وہ شش و پنج میں تھا کہ اصل بات اپنے باپ کو بتائے یا نہیں۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا۔’’ابّا !مَیں یہاں سے نکلا کہ گاؤں کے نلکے سے پانی بھرلاتا ہوں، پھر خیال آیا، پیر صاحب کی خانقاہ کے کنویں کا پانی بہت میٹھا اور ٹھنڈا ہےتو وہاں چلا گیا، آپ کو تو پتا ہے کہ خانقاہ تھوڑی دُور ہے وہاں پہنچا ہوں تو بالکل ویرانی تھی۔ مجھے بڑا عجیب لگاکہ خانقاہ پہ توہر وقت لوگوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔خیر ،مَیں نے پانی بھرا۔جگ وہیں کنویں کے پاس رکھ کے مزار کے اندر چلا گیا۔ فاتحہ خوانی کی اور کافی دیر وہیں بیٹھا رہا۔جب مجاور ،گلو فقیر واپس لوٹا تو میں بھی واپس آگیا۔‘‘ مکھے نے ایک جھوٹی کہانی گھڑی ۔سخی سرور اس چھوٹے سے گاؤں ،رسول پور کا رہایشی تھا۔موتیا اُترنے سے پہلے تک ساراسارا دن پیر صاحب کے دربار پہ مجاور بنا بیٹھا رہتاتھا۔اللہ لوک آدمی تھا،دن رات ذکر اذکار میں مصروف رہتا۔مگراس درویشی سے پہلے وہ خاصادنیا دار تھا۔ تھوڑی سی زمین تھی، جس پہ کھیتی باڑی کرتا ۔برادری میں ایک لڑکی پسند آگئی اور شادی کرلی۔زندگی بہت خوش گوار گزر رہی تھی ۔شادی کے کوئی دو برس بعد اُن کے ہاں مختار کی پیدائش ہوئی، مگر دورانِ زچگی اس کی بیوی فوت ہو گئی۔ سخی سرور تو جیسے دنیا داری ہی بھول گیا۔اس نے بیوی کی محبّت میں دوبارہ شادی بھی نہیں کی اور مختار کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا۔وہ مکھے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہیں دیکھنا چاہتا تھا، اسی لیے لاڈ کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتااور اس کے سنہرے مستقبل کے خواب بُنتا رہتا۔وہ چاہتا تھا، مکھاپڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔اپنی بیوی،شاداں کے جانے کے بعد سخی سرور دنیاداری سے دُور اور تصوّف سے قریب ہوتا چلاگیا۔ لیکن اس کی آنکھیں مکھے کے سنہرے مستقبل کے خواب ضروردیکھتی تھیں۔اُن لوگوں کے دن غربت میں گزررہے تھے، وہ چاہتا تھاکہ اس کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔ وہ اپنی ساری جمع پونجی مکھے کی تعلیم پہ خرچ کررہا تھا ۔جب سے وہ خانقاہ سے وابستہ ہوا تھا ،اس نے زمین ٹھیکے پر دے دی تھی۔زمین سے جو آمدن ہوتی، وہ آدھی تو مکھے کے تعلیمی اخراجات میں نکل جاتی اور جو کچھ بچتا، اس سے بمشکل وہ گھر کا خرچ چلا پاتا۔اسی دوران اس کی آنکھوں میں موتیا اُتر آیا۔اس کی آنکھیں ،جو اپنے بیٹے، اپنے جگر گوشے کے روشن مستقبل کے خواب دیکھتی تھیں، آہستہ آہستہ بے نور ہوتی چلی گئیںکہ یا تو وہ ٹھیکے کے پیسوں سے اپنا موتیے کا علاج کروا تا یا مکھے کی فیس ادا کر تا۔سو،ایک باپ نےاپنی آنکھوں کی روشنی اکلوتے بیٹے کے مستقبل پر قربان کر دی ۔مکھے سے باپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی ۔وہ بہت دن تک پریشان رہا۔وہ کسی نہ کسی طریقے سے پیسے کمانا چاہتا تھا تا کہ اپنے باپ کی آنکھوں کا علاج کروا سکے۔وہ کبھی سوچتا کہ پڑھائی ہی چھوڑ دے، تا کہ ان پیسوں سے باپ کاآپریشن ہوجائے ۔پھر خیال آتا کہ اُسے اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا ہی تو اس کے باپ کا خواب ہے، وہ اُس کا خواب کیسے توڑ دے۔آخر بہت سوچ بچار کے بعد اس نے اسکول سے واپس آنے کے بعد کھیتوں پہ مزدوری شروع کر دی،تاکہ سخی سرور کے آپریشن کے لیے پیسے جمع کر سکے۔پچھلے ایک ماہ سے وہ کھیتوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ خوب دعائیں مانگ رہا تھاکہ اُس کے ابّا کی آنکھیں پھر سے روشن ہو جائیں۔ آج رات بھی وہ چوہدری رسول بخش کے کھیتوں کو پانی دینے گیا تھااورجاتے جاتے جگ بھی ساتھ لے گیا تھا تا کہ کنویں سے پانی بھی بھرسکےاور بہانہ بھی بنا دے کہ خانقاہ گیا تھا۔اگر وہ سخی سرور کو یہ بات سیدھی سیدھی بتا دیتا کہ وہ اس کے موتیے کے علاج کے لیے محنت مزدوری کررہا ہے، تووہ کبھی اُسے کام نہ کرنے دیتا کہ وہ تو چاہتا تھا کہ مکھا سارا دھیان صرف اپنی پڑھائی پر دے۔مگر نہ جانے کیوں مکھے کا دل جھوٹ بولنے پر بوجھل سا تھا۔’’ابّا! مجھے معاف کر دے، مَیں نے ایک جھوٹ بولا ہے۔‘‘مکھے کی آواز میں لرزش تھی اور پھر اس نے اپنے باپ کو ساری حقیقت بتا دی۔ سچ جان کر سخی سرور نے بیٹے کا ماتھا چوم لیا اور پھردونوں باپ ،بیٹا خوب روئے۔رات مکھا یہی دعائیں مانگتے مانگتےسو گیا کہ کہیں سے کوئی صورت نکل آئے، جس سے اس کے والد کی آنکھوں کے آپریشن کے لیے پیسوں کا بندوبست ہو جائے۔آنکھ کُھلی تو صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔مکھےنے اپنے اور اپنے ابّاکے لیے ناشتا بنایا۔ پھر تیار ہو کے اسکول کی طرف چل دیا۔رات کی دُعا کے الفاظ مسلسل اس کے لبوں پہ تھے۔ جیسے جیسے وہ اسکول کی طرف بڑھ رہا تھا،اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی ۔ پتا نہیں، اُسے کیوں لگ رہا تھا کہ شاید آج اُس کے باپ کی آنکھوں کے علاج کے لیے پیسوں کا بندوبست ہو جائے۔اُس روز ’’ فادرز ڈے‘‘ تھااور اسی مناسبت سے ایک این جی او اس کےاسکول میں ایک پروگرام کر وا رہی تھی، جس میں مضمون نویسی کا مقابلہ بھی ہونا تھا۔انعام کی رقم اچھی خاصی تھی کہ اس سے سخی سرور کی آنکھوں کا علاج بخوبی ہو سکتا تھا۔ مکھاپڑھائی میں بہت اچھا تھا ، مگر آج سے پہلے اُس نےکبھی کسی مقابلے میں حصّہ نہیں لیا تھا۔ مقابلے کا آغاز ہوا تو اس نے اپنے باپ کے لیے الفاظ نہیں، گویااپنے جذبات و احساسات کاغذ پر بکھیرکے رکھ دئیے۔ اس نے محبت کے پھولوں سےالفاظ کے چہرے نکھارے تھے۔مضمون نویسی کے مقابلے کے بعد کچھ ٹیبلوز پیش کیے گئے اور تقریری مقابلہ بھی ہوا۔ آخر میں مضمون نویسی کے مقابلے کے نتائج کا علان شروع ہوا۔مکھے کے دل کی دھڑکن تیز تر ہو تی جا رہی تھی۔ سب سے پہلےتیسری پوزیشن ، پھر دوسری پوزیشن کا اعلان ہوا ۔ وہ دونوں ہی پوزیشنز حاصل نہیں کر سکا تھا،وہ مایوس ہو گیا۔ یوںبھی اُسے انعام کا لالچ نہیں تھا،وہ تو اپنے باپ کی آنکھوں کی روشنی واپس لانے کا خواہش مند تھا۔وہ اپنے مالی حالات، باپ کی طبیعت، لاچارگی کاسوچ سوچ کر آنسوؤں پہ قابو نہ رکھ پا رہا تھاکہ اچانک ہی اُس کا نام پکارا گیا۔اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ مضمون نویسی میں پہلا انعام اس نے جیت لیا تھا۔تالیوں کی آواز سے پوراپنڈال گونج رہاتھا۔ مکھے کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھاکہ کئی مہینوں سے اُسے جس کرامت کا انتظار تھا، وہ رونما ہو چکی تھی۔ اس نے تشکّر آمیز نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور بڑی متانت سےآہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا اسٹیج کی طرف چل دیاکہ جیسے وہ انعام لینے نہیں، اپنے ابّا کی آنکھوںکی روشنی لینے جا رہا ہو۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...