جیسے لوڈشیڈنگ کافی نہیں تھی!
جیسے سی این جی کےلئے میلوں لمبی قطاریں بے بس پاکستانیوں کو اذیت دینے کےلئے کم تھیں۔
جیسے امن و امان کا لفظ اہل پاکستان کی ڈکشنری سے ختم ہو جانا کافی نہیں تھا۔
اب بتایا جا رہا ہے کہ ریلوے کی قبر تیار ہے ریلوے کے وزیر نے جنازے کے وقت کا تقریباً اعلان کر دیا ہے۔ لٹھا خریدنے کےلئے ہرکارہ بازار جا چکا ہے۔ کافور منگوا لیا گیا ہے۔ مولوی صاحب نے صفوں کی تعداد طاق رکھنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ایک ہزار ریلوے انجن ہمارے حصے میں آئے تھے۔ آج صرف پانچ سو بیس ہیں۔ ان میں سے بھی تین سو سے کم ایسے ہیں جو استعمال میں پھینکے جانے کےلئے انتظار کر رہے ہیں یا کچرے میں پھینکے جانے کےلئے دن گن رہے ہیں۔
پونے دو سو کے قریب پل اسقدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ انکے اوپر سے ریل کو گزارنا ہی نہیں چاہئے لیکن یہ پل‘ موت کے یہ پل‘ مسلسل استعمال ہو رہے ہیں کیوں کہ ہمارے صدر ہمارے وزیراعظم‘ ہمارے وزیر‘ ہمارے عوامی نمائندے‘ ہمارے جرنیل‘ ہمارے بیوروکریٹ اور ہمارے سیاستدان ان پلوں سے نہیں گزرتے۔ وہ تو جہازوں اور جہازی سائز کی کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ رہے عوام‘ جن کے خون پسینے کی کمائی سے یہ صدر‘ یہ وزیراعظم‘ یہ عوامی نمائندے‘ یہ جرنیل اور یہ بیورو کریٹ‘ مغل شہزادوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں‘ تو یہ عوام ہی تو ان پلوں پر سے گزرتی ٹرینوں میں سوار ہیں‘ اس لئے کہ یہ عوام وہ یتیم ہیں جن کا والی وارث کوئی نہیں۔ اٹک کے علاقے میں ایسے موقعوں پر ایک محاورہ بولا جاتا ہے۔ مَا پِنے تے پتر گھوڑے گھنے‘ ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری کرتا پھر رہا ہے۔ آہ و زاری ہے ایسی ماں کےلئے اور تف ہے ایسے بیٹے پر!
تو کیا ریلوے ایک دن میں ایسی حالت کو پہنچی ہے کہ اسے آکسیجن کی نالی لگی ہوئی ہے؟ ایک مہینے میں؟ یا ایک سال میں؟ نہیں‘ ریلوے کو ایک منصوبہ بندی کے تحت‘ ایک ارادے کے تحت اور ایک باقاعدہ منظم پروگرام کے تحت اس قبر تک پہنچایا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سچ کہنے کا رواج ہے نہ سچ سننے کا‘ اگر آپ کو کسی کی بات پسند نہیں آرہی تو گھبرائیے بالکل نہیں۔ اسے وطن دشمن کہہ دیجئے‘ ہو سکے تو یہودیوں کا ایجنٹ بلکہ اندر سے مکمل یہودی کہہ دیجئے‘ مجال ہے کہ وہ آئندہ آپ کی مرضی کےخلاف کچھ کہہ جائے۔
ریلوے کے وزیر غلام احمد بلور جو متاثر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور بے چارے بات کریں تو قابل رحم لگتے ہیں۔ ایک سچ بول گئے ہیں لیکن ایسا شخص سچ بھی بولے تو کوئی نہیں توجہ دیتا۔ گذشتہ سال ایک انگریزی معاصرے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریلوے کو اس حالت تک پہنچانے کی ذمہ داری این ایل سی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی ریلوے نے بے پناہ منافع کمایا ہے اس لئے کہ بھارت نے این ایل سی جیسی کوئی تنظیم نہیں بنائی!
کوئی مانے یا نہ مانے‘ کسی کی رعونت والی رگ پھڑکے یا سوئی رہے‘ کوئی اس گستاخی پر میان سے تلوار کھینچ کر اٹھ کھڑا ہو یا بیٹھے بیٹھے ہی تالی بجا دے‘ سچی بات یہ ہے کہ ریلوے کو زندہ درگور کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری این ایل سی (نیشنل لاجسٹک سیل) پر عائد ہوتی ہے! یہ ادارہ اگست 1978ءمیں بنایا گیا۔ اس وقت ایک خاص صورت حال تھی۔ کراچی کی بندرگاہ پر سامان اتنا زیادہ جمع ہو گیا تھا کہ بحری جہازوں کو سامان اتارنے کےلئے ایک ایک مہینہ انتظار کرنا پڑتا تھا اور حکومت کو لاکھوں روپے جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ریلوے کی مدد کی جاتی۔ نئے انجن خریدے جاتے نئی پٹڑیاں بچھائی جاتیں یا کوئی اور عارضی بندوبست کیا جاتا۔ لیکن حکومت فوجی آمر کی تھی۔ یہ کام فوج کے سپرد کر دیا گیا۔ این ایل سی بنائی گئی جو بظاہر تو منصوبہ بندی کمیشن کے تحت تھی لیکن عملی اختیار فوجی افسروں کے ہاتھ میں تھا۔ ظلم یہ کیا گیا کہ اس ادارے میں کام کرنےوالے ہر شخص کو تنخواہ کے علاوہ آدھی تنخواہ کے برابر الائونس بھی دئیے گئے۔ پھر یہ بھی نہ ہوا کہ ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد اس ادارے کو ختم کر دیا جاتا۔ اسے مستقل کر دیا گیا۔ مرسڈیز ٹرکوں کی فوجی ظفر موج درآمد کی گئی اور این ایل سی کے حوالے کر دی گئی۔ جو جرنیل اس ادارے کا سربراہ تھا۔ مرد مومن مرد حق نے ریلوے بھی اس کے ماتحت کر دی۔ گویا بلی کو دودھ کی رکھوالی پر لگا دیا گیا۔
این ایل سی کو مضبوط تر کرنے کےلئے ریلوے کی ایسی تیسی کر دی گئی اور سالہا سال تک کی جاتی رہی۔ جب قوی ہیکل ٹرکوں نے شاہراہوں کو توڑنا شروع کر دیا تو مرمت کا کام اور سڑکیں بنانے کا کام بھی این ایل سی کو دےدیا گیا اور یوں این ایل سی انجینئرز کے نام سے ایک اور سفید ہاتھی وجود میں آگیا۔
این ایل سی کے ادارے کا اس بھوکی ننگی قوم پر تازہ ترین احسان یہ ہے کہ اس نے غیر قانونی طور پر‘ اس وقت کے وزیراعظم کے منع کرنے کے باوجود‘ چار ارب روپے سٹاک ایکسچینج کی ”سرمایہ کاری“ میں جھونک دئیے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ان چار ارب میں سے دو ارب روپے قرض لے کر یہ شوق پورا کیا گیا تھا؟ اور اس ”سرمایہ کاری“ میں ملازمین کا پنشن فنڈ بھی ڈال دیا گیا تھا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور اسکے صدر چودھری نثار علی خان کے بے پناہ شور مچانے کے باوجود اس نقصان کے ذمہ دار یا تو گالف کھیل رہے ہیں یا اعلیٰ سے اعلیٰ تر ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
این ایل سی ریلوے کو بدستور کھا رہی ہے۔ دو ہفتے پہلے کراچی کی خشک گودی (ڈرائی پورٹ) کا انتظام بھی ریلوے سے لےکر این ایل سی کو دےدیا گیا ہے۔ ریلوے اس گودی سے فی ٹرین ایک کروڑ روپے منافع کما رہی تھی۔ یہ درست ہے کہ ریلوے کے پاس انجنوں کی کمی تھی لیکن کیا اس کا حل یہ نہیں تھا کہ ریلوے کو نئے انجن خرید کر دئیے جاتے؟ جس این ایل سی نے قوم کو چار ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے‘ اسے بند کرنے کے بجائے ریلوے کا مزید کام بھی اسے سونپا جا رہا ہے!
ریلوے کےساتھ یہ کھیل بھی کھیلا گیا کہ اس کا بزنس زیادہ کرنے کے بجائے لاہور میں اسکی اربوں کی زمین پر گالف کلب بنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل ریلوے کا وزیر تھا۔ ایک سو اکتالیس ایکڑ ریلوے کی زمین کلب بنانے کےلئے دے دی گئی۔ نرخ جو ہونا چاہئے تھا وہ باون روپے فی مربع گز تھا لیکن چار روپے فی مربع گز پر یہ سونے سے زیادہ قیمتی زمین دےدی گئی۔ اس ”فیاضی“ سے سرکاری خزانہ چار ارب بیاسی کروڑ روپے سے محروم ہو گیا۔ قانون توڑنے پر غرور اس قدر زیادہ تھا کہ آڈیٹر جنرل کا محکمہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن خطوں اور یاد دہانیوں کا جواب تک نہیں دیا گیا۔
ریلوے پوری دنیا میں ”کارگو“ سے یعنی سامان برداری سے نفع کماتی ہے۔ مسافروں والا شعبہ کبھی بھی نفع آور نہیں ہوتا۔ جب کارگو کا یعنی سامان ڈھونے کا کام این ایل سی کو دے دیا گیا اور کئی دوسرے ٹرک مافیا کو فائدے پہنچائے گئے تو ریلوے کی مال گاڑیاں زمین بوس ہو گئیں۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ مسافر گاڑیاں بند ہو جائیں گی۔ چنانچہ بند ہو رہی ہیں۔ ریلوے قبر کے دہانے ایک دن میں نہیں پہنچی۔ نہ ایک ماہ نہ ایک سال میں‘ اس میں پورے 33 سال لگے ہیں۔ سفید لٹھا خریدنے کےلئے ہرکارہ بازار جا چکا ہے۔ آپ بھی جنازے میں شرکت کیجئے۔
http://columns.izharulhaq.net/2011/07/blog-post_26.html?m=1
“