افسانہ:سفید خرگوش اور کالے دیو
جادوئی پُل پر کبھی نہ جانا۔‘‘
’’لیکن کیوں۔۔۔؟‘‘سفید خرگوش جذباتی لہجہ میں پوچھ بیٹھا۔
’’اس کیوں کا میں کیا جواب دوں۔‘‘ماں آہ بھرتے ہوئی بول پڑی۔’’جب کچی عمر سے نکلو گے توخود ہی پتہ چلے گا۔‘‘
ماں کی جان سفید خرگوش کی سلامتی میں اٹکی ہوئی تھی۔جادوئی پُل دوپہاڑوں کے درمیان بنایا گیا تھا۔ پل کے نیچے گہری کھائی تھی۔شام ہوتے ہی کھائی سے عجیب وغریب بین کرتی آوازیں آتی تھیں اور ساتھ ہی کالے دیوؤں کی خوفناک چیخیںپُرامن فضا میں ارتعاش پیدا کردیتی تھیں‘ جس کی وجہ سے جادوئی پُل جھولنے لگتا تھا۔یہ آوازیں نہ صرف خرگوشوں کی بستی میں ماتم کا سماں باندھتی تھیں بلکہ سفید خرگوش کی ماں کو بھی اداس کردیتی تھیں۔خرگوشوں کی یہ بستی سرسبز وشاداب وادی میں پھیلی ہوئی تھی۔ وادی کے اطراف واکناف میں پہاڑ ہی پہاڑ تھے ۔پہاڑوں کے سرے برف کی سفید چادروں سے ہمیشہ ڈھکے رہتے تھے ‘ جس کی وجہ سے ایک تو وادی میں ٹھنڈے پانی کی فراوانی ہوتی تھی اور دوسرا موسم بھی خوشگوار رہتا تھا۔ وادی کی خوشگوار فضا گردوپیش کے چرندوں و پرندوں پر سحر طاری کردیتی اور وہ اپنے اپنے گرم علاقوں سے ہجرت کرکے بہار کا لطف جنت نشاں وادی کے سکون بھرے ماحول میں اٹھاتے رہتے ۔ اس خوشگوارماحول میںبین کرتی آوازیںاور کالے دیوؤںکی خوفناک چیخیںکبھی کبھی بانسریوں کے اداس سُروںکاروپ دھار کر وادی کی فضا کو سوگوار بنا دیتے۔ بانسری کی یہ اداس آوازیں خرگوشوں میں اضطراب برپا کرتیں اور وہ مایوس کُن آنکھوں سے بار بار آسمان کی طرف دیکھتے رہتے کہ جیسے کسی حسین شہزادی کو بدصورت دیو نے قید کررکھا ہو اور وہ صبح وشام آسمان کی طرف امید بھری نظریں اٹھائے رہائی کی دعا کرتی ہو۔
شام کے دھندلے سائے پھیلتے ہی جب جادوئی پُل کی کھائی سے بین کرتی آوازیں اور کالے دیوؤں کی خوفناک چیخیں فضا میںارتعاش پیدا کرنے لگیں تو سفید خرگوش سہم کر ماں سے پوچھ بیٹھا :
’’ یہ خوفناک آوازیں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘
’’یہ کھائی میں خرگوشوں کی بے چین روحیں بین کرتیں ہیں‘‘ماں نے بچے کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’اور بین کے کرب ناک سحر سے کالے دیو ؤں کی روحیں آگ سے سلگ اٹھتی ہیں اور وہ کالے غاروں میں چیختے چلاتے منہ سے آگ کے شعلے برساتے رہتے ہیں۔‘‘
’’لیکن ان بین کرتی آوازوں میں چند آوازیں کیوں میرے دل پر زیادہ اثر ڈالتی ہیں۔‘‘
’’کیونکہ ان میں تیرے اپنوں کی آوازیں بھی شامل ہیں ‘خاص کر تیرے باپ کی آواز۔۔۔؟‘‘
’’میرے باپ کی آواز۔۔۔؟‘‘بچہ حیران ہو کر بولا۔
’’ہاں ‘تیرے باپ کی آواز‘‘ماں گلوگیر آواز میں بولی’’وہ بھی سفید خرگوش تھااور کالے دیوسفید خرگوشوں کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں‘ اس لئے وہ جادوئی پُل پر سفید خرگوش کو دیکھتے ہی غاروں سے نکل کر حیوانی کھیل کھیلتے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ آوازیں کہاں سے آتی ہیں اگر سفید خرگوش ماردئے جاتے ہیں۔‘‘
’’مرنے کے بعد ان کی مظلوم روحیں کھائی میں بے چین رہتی ہیں اور وہ بین کرنا شروع کردیتی ہیں۔‘‘
’’وہ کیوں بین کرتی رہتی ہیں۔۔۔؟‘‘
’’تاکہ وادی کالے دیوؤں کی خوفناک آوازوں سے آزاد ہوجائے اور سفید خرگوش جادوئی پُل
کو بلاخوف پار کرسکیں۔‘‘
’’لیکن یہ کالے دیو کہاں کون ہیں جو جادوئی پُل پر قبضہ کر بیٹھے ہیں۔۔۔؟‘‘
بچے کا تجسس بھانپ کر تھوڑی دیر کے لئے ماں خاموش رہیں اور پھرلرزتے ہونٹوں سے داستان الم شروع ہوگئی۔
اس سربز وشاداب وادی کے آزاد پرندے خوشگوار فضاؤں میں چہچہاتے گنگناتے اڑان بھرتے رہتے تھے ۔ہر طرف امن وسکون کا دور دورہ تھا۔خوشحالی ہی خوشحالی تھی۔اس خوشحال اور پُرامن ماحول پر اچانک کرگسوں کے منحوس سائے پڑ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آزاد پرندے بے بس ہوکر اپنے پر سمیٹنے کے لئے مجبور ہوگئے۔کرگسوں کی بدبودار سانسوںسے جب وادی کا خوشبودار ماحول خراب ہونے لگا اور پرندوں کا دم گھٹنے لگا تو پرندوں اور خرگوشوں نے یک جٹ ہوکر کرگسوں کو بھگانے کی مہم چھیڑ دی لیکن کرگس طاقت کے بل پر ہر مقابلے میں بازی جیتتے نظر آرہے تھے۔اسی دوران وادی کی پہاڑیوں سے اچانک شاہینوں کے غول امنڈ آئے اور کرگسوں پر جھپٹ پڑے۔اس لپٹ جھپٹ میں کرگسوں کو منہ کی کھانی پڑی اور وہ وادی چھوڑ کر بھاگ گئے۔وادی میں جب حالات قدرے بہتر ہوئے تو سفید خرگوشوں کے سردار بھورے خرگوش نے شاہینوں کی موجودگی کوبھانپ لیا اور ان سے خلاصی کے لئے ناگوں کی بستی میں جاکر بین بجائی۔ناگ پہلے ہی سے تاک میں بیٹھے تھے کہ انہیں کسی طرح وادی میں گھسنے کا موقع ملے۔وہ بھورے خرگوش کی بین پر رقص کرنے لگے اور راتوں رات کالے دیوؤں کو وادی کی طرف کوچ کرنے کا اشارہ کردیا۔کالے دیو جونہی وادی میں داخل ہوئے تو شاہینوں کے ساتھ دوبدو ہوگئے اور کئی مہینوں کی خون ریزی کے بعد کالے دیوؤ ں کا قبضہ وادی پر ہوگیا۔امن قائم ہونے کے بعد اگرچہ کالے دیو غاروں میں چھپ گئے لیکن ناگوں نے پوری وادی کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔کچھ عرصہ بعد جب سفید خرگوشوں نے بھورے خرگوش کو دوبارہ بین بجانے کے لئے کہاتو ناگوں نے کالے دیوؤں کی مدد سے بین کو ہی پٹاری میں بند کروادیا اور بھورا خرگوش اپنی نادانی پر ہاتھ ملتے رہ گیا۔ جب سفید خرگوشوں نے کالے ناگوں کی بے وفائی دیکھی تو وہ بین کو واپس لانے کی جدوجہد میں جُٹ گئے۔ تب سے سفید خرگوشوں اور کالے دیوؤں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے اور آج تک سینکڑوں سفید خرگوش جادوئی پل پر چڑھ کر بین کو کالے دیوؤں کی پٹاری سے نکالنے کے لئے اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ اس لئے شام ہوئے ہی پُل کی کھائی سے بین کی آوازیں آتی رہتی ہیں تاکہ وادی کے پرندے اور خرگوش اپنامشن یاد رکھ سکیں۔
ماں کی زبانی داستان الم سن کر سفید خرگوش کے ذہن پرحیرت انگیز سحر چھاگیا۔وہ جب بھی بین کرتی آوازیں اور خوفناک چیخیں سنتا تھا تو اسے داستان کے سبھی کرداررقص کرتے دکھائی دیتے تھے۔بہت عرصہ یوں ہی گزر گیا ۔ایک دن اچانک وادی کے کئی خرگوش کالے دیوؤں کو للکارنے لگے۔ہرطرف ماتم کی دھنیں بجنے لگیں ‘ان ہی دھنوں میں اسے اپنے باپ کی بین کرتی آواز سنائی دی۔آواز نے بدن میں ایک اضطراب پیدا کردیا اور ذہن پر ایک سحر ساچھا گیا۔ ایک وجد انی کیفیت سے پاؤں میں رقص کے گھنگرو بجنے لگے اور بجتے گھنگرؤں کے ساتھ ساتھ پاؤں تھرکنے لگے ۔ گھنگروں کی حیرت انگیز جھنکار سے جادوئی پل جھولنے لگا۔پُل جھولنے کے ساتھ ہی غاروں میں زلزلہ آیا ۔ کالے دیوپریشاں ہوکر غاروں سے باہر نکل آ ئے اور جادوئی پُل پرسفید خرگوش کا رقص دیکھ کر آگ بگولہ ہو کر دوڑ پڑے۔وہ جتنا قریب آتے گئے‘ رقص اتنا ہی تیز ہوتا گیا۔انہوں نے جونہی اپنے پنجے خرگوش کی ملائم جلد میں گاڑ دئے تو وہ درجن بھر دیوؤں کو اپنے ساتھ لیکرگہری کھائی میں بین کرتے ہوئے کود پڑا۔پرندے فضائے بسیط میں پرواز کرنے لگے اور ساری وادی بین کی آوازوں اور خوف ناک چیخوں سے گونج اٹھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔