ٹومیکو ہیگا کی عمر چھ برس تھی جب والدہ کا انتقال ہوا۔ والدہ خوش قسمت تھیں۔ انہوں نے آنے والا وقت نہیں دیکھنا تھا۔
جب امریکہ نے یکم اپریل 1945 میں اوکیناوا پر حملہ کیا تو جنگِ عظیم اپنے اختتام کے قریب تھی۔ ٹومیکو کے والد فوجی نہیں تھے، وہ جاپانی بھی نہیں تھے۔ وہ اوکیناون تھے۔ جاپانی سلطنت کی رعایا۔ ان کا کام کاشتکاری تھا۔ جنگ لڑنے کے لئے خوراک بھی تو چاہیے۔ کاشتکار یہ کام کیا کرتے تھے۔ حملہ ہونے کے نو روز بعد وہ گھر سے نکلے اور کبھی واپس نہیں لوٹے۔ ٹومیکو کو اپنے والد کو الوداع کہنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ یہ بھی نہیں پتا لگا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ وہ یہاں پر مرنے والوں میں شمار ہونے والا ایک عدد تھے۔ بہت بڑے اعداد میں سے بس ایک۔
گھر رہا جائے یا اس کو چھوڑ دیا جائے۔ اس گھر میں جہاں پر پیدائش سے رہی تھیں یا اس دنیا میں جس کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چھ سال کی بچی کے لئے گھر سے باہر نکلنا آسان نہیں تھا۔ لیکن جنگ میں یہ ضروری تھا۔ اپنی سترہ اور تیرہ سالہ بہنوں اور نو سالہ بھائی سمیت انہوں نے جنوب کی طرف رخ کیا۔ کہیں تو جانا تھا۔ کھانے کا جو سامان ساتھ لے جا سکتے تھے، اس کو کمر پر لادے، بڑی بہن کی قیادت میں بہن بھائیوں کا یہ قافلہ گھر سے نکلا۔ مکابے شہر میں یہ مہاجرین کے ایک گھر تک پہنچے۔ ایک ہموار فرش جہاں وہ سو سکتے تھے لیکن گھر بھرا ہوا تھا۔ مزید چار بچوں کی جگہ نہیں تھی۔ وہ اس کے باغ میں سو سکتے تھے لیکن بارشوں کا موسم تھا۔ ان کو سر پر چھت چاہیے تھی۔ انہوں نے قریب ایک غار میں سونے کا انتخاب کیا۔
اس غار میں اس رات کو ایک اونچی گرج سنائی دی۔ یہ وہ بم تھا جس نے اسی گھر کو تباہ کر دیا تھا، جہاں وہ سونے کے لئے گئے تھے۔ اس میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا۔ اس کے بعد سے وہ سونے کے لئے غار ہی ڈھونڈا کرتے تھے۔ وہ چلتے رہے۔ انہوں نے ہمدردی کو بھی مرتے دیکھا۔ جنگ میں بہت کچھ مر جاتا ہے۔ ٹومیکو کو یہ بھی پتا لگ گیا تھا آنکھ موند کر لیٹا ہر شخص، سو نہیں رہا ہوتا، کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو پھر کبھی نہیں جاگتے۔ روز بروز حالات خراب ہوتے گئے۔ وہ چلتے رہے۔
ان کو کئی سال بعد پتا لگا کہ وہ جس علاقے سے گزرے تھے، وہی تو اس جزیرے کی جنگ کا مرکز تھا۔ وہ ایسے پھر رہے تھے جیسے کوئی گمشدہ بھیڑ بھیڑیوں کے غول کے قریب پھر رہی ہو۔ وہ کومیسو کے ساحل کے پاس پہنچ گئے۔ ایک آبادی جس کا اس بچی نے کبھی نہیں سنا تھا۔ ایک آبادی جس کو وہ پھر کبھی نہیں بھولے گی۔ اس ساحل پر سر پر چھت نہیں تھی۔ انہوں نے سونے کے لئے گڑھے کھودے تھے کہ نظر نہ آئیں۔ ٹومیکو اپنے بھائی کے ساتھ کمر جوڑ کر سو گئی۔ جب اٹھی تو بھائی کے سر میں چھوٹا سا سرخ سوراخ تھا۔ نو سالہ لڑکا جو اس بچی کا بہترین دوست تھا، جس کے ساتھ یہ کھیلا کرتی تھی۔ اب دنیا میں نہیں رہا تھا۔ اتنا اچھا بھائی کہ اتنی خاموشی سے دنیا سے گیا کہ بہن کی نیند تک خراب نہیں کی۔ بہنوں نے اسے وہیں ریت کے نیچے دبا دیا۔ جگہ یاد رکھ لی۔ اگر اس جنگ سے زندہ بچ گئے تو بھائی کو ٹھیک طرح سے دفنائیں گے۔ کومیسو، وہ آبادی جس کو ٹومیکو پھر کبھی نہیں بھولی۔
اگلی رات کو انہیں مہاجرین کا ایک بڑا گروپ ملا۔ ان کے ساتھ چلتے چلتے ٹومیکو نے بڑی بہن کا دامن پکڑ لیا۔ کہیں الگ نہ ہو جائیں۔ خوف اور کنفیوژن سے بھرا یہ اس انسانی ریلا گھنٹوں اکٹھے چلتا رہا۔ جب صبح ہوئی اور بچی نے روشنی میں دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ دامن تو کسی اور کا تھا۔ دیر ہو چکی تھی۔ بچی اپنی بہنوں سے بچھڑ گئی تھی۔ وہ اب اکیلی تھی۔ بہنوں کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ اب اپنی زندگی کا ہر انتخاب اس کو خود کرنا تھا۔ ایک چھوٹے بچے کی معصوم نگاہوں سے دنیا کو بغیر کسی اور کی مدد کے دیکھنا تھا۔ شاید اس روز اس کی ساتویں سالگرہ تھی۔
اس کے بھائی نے کبھی اس کو بتایا تھا کہ چھپن چھپائی کے کھیل میں کبھی کسی ایسی جگہ نہیں چھپتے جہاں دوسرے ہوں۔ ورنہ سب کے ساتھ پکڑے جاتے ہیں۔ اب وہ ہر غار میں اپنی بہنوں کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ایک غار میں اس کو ایک پیارا سا ہنستا ہوا شیرخوار بچہ ملا۔ اس جنگ کو شروع ہونے کے بعد اس نے کسی کو اتنا کھلکھلاتے نہیں دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ کھیلنے لگی۔ اس کی ماں نے پوچھا، “کیا تم خودکشی میں ہمارے ساتھ شامل ہو گی؟ ہم تھک چکے ہیں۔ امید ہار چکے ہیں۔ ایک بم دھماکے کے ذریعے خودکشی کرنے لگے ہیں۔ کیا تم بھی حصہ بنو گی؟” ٹومیکو نے زندہ رہنے کا انتخاب کیا۔
ایک اور غار میں اس کو ایک اور ماں اور بچہ ملے۔ یہ بچہ رو رہا تھا۔ شاید اس کے پیٹ میں درد ہو۔ اندر فوجیوں کو اس کا رونا پسند نہیں آ رہا تھا۔ “اس کو سن کر امریکی یہاں پہنچ جائیں گے، اس کو چپ کرواوٗ۔ اگر اس نے رونا بند نہ کیا تو ہم تم دونوں کو مار دیں گے۔” بچہ روتا رہا۔ فوجیوں نے اس کو چپ کروا دیا۔ وہ پھر کبھی نہیں رویا۔ ٹومیکو نے ان فوجیوں سے اپنی بہنوں کا پوچھا۔ انکار پر وہ آگے بڑھ گئی۔
ایک اور غار میں اسے ایک فوجی نظر آیا جو اپنے کراہتے زخمی ساتھی کو کٹانہ سے قتل کر رہا تھا۔ اس کا کراہنا امریکیوں کو متوجہ کر سکتا تھا۔ ایک اور غار میں جا کر جب اپنی بہنوں کو آواز دی تو ایک غصیلا فوجی تلوار لہراتا ہوا آ گیا۔ “تم نے شور مچایا ہے۔ میں تمہیں مار دوں گا۔” اس کا ذہنی توازن شاید ٹھیک نہیں رہا تھا۔ وہ بھاگی، فوجی پیچھے بھاگا۔ اس میں بچی کا پاوٗں چٹان کے کنارے سے نیچے پھسل گیا۔ بے ہوشی کے بعد جب آنکھ کھلی تو ایک درخت نے اس کو بچا لیا تھا۔ اس کی شاخوں نے کپڑے تار تار کر دئے تھے۔ جسم پر خراشیں ڈال دی تھیں۔ یہاں پر اس نے انتخاب کیا کہ اب وہ غاروں میں نہیں جائے گی۔
دن گزرتے رہے، وہ گھومتی پھرتی رہی۔ کھانے کی تلاش میں اس نے مردہ فوجیوں سے دوستی کر لی۔ وہ ان سے ایسے باتیں کیا کرتی جیسے وہ اس کے خاندان کے افراد ہوں۔ یہ مردہ فوجی اس کو کھانا بھی دیا کرتے تھے۔ وہ راشن، جو ان کے بیگ میں ہوا کرتا تھا۔ وہ ان کا شکریہ ادا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ مردہ فوجی زندہ فوجیوں سے زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے اس کو دریا سے پانی پینا پڑتا، وہیں پر جہاں لاشیں پڑی ہوتیں۔ کیڑوں کو وہ ہاتھ سے الگ کر لیتی تھی۔ پانی فلٹر ہو جاتا۔
ایک مہینہ اس طرح رہنے کے بعد اس نے سوچا، “بہت ہو گیا” ویسا ہی خیال جیسے اس غار میں ماں کے ذہن میں آیا تھا۔ لیکن جس وقت اس کی قوتِ ارادی جواب دے رہی تھی، اس نے ایک خوشبو سونگھی۔ ویسی خوشبو جیسی اس وقت آتی تھی جب اس کی ماں کھانا دیا کرتی تھی۔ اس خوشبو سے اس کے ذہن میں گزرے دنوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ کیا یہ خواب ہے؟ اس کی ماں تو زندہ نہیں تھی۔ لیکن ایک بھوکی چھوٹی بچی کو اس خوشبو نے کھینچ لیا۔ اس کے پیچھے جانا شروع کر دیا۔ یہ ایک غار سے آ رہی تھی۔ میسو ۔۔ ہاں، یہ میسو کی خوشبو تھی۔ اس نے اپنے آپ کو اس غار کے تنگ سوراخ سے نیچے اتارا۔ اتنے تنگ سوراخ سے جہاں سے کوئی بڑا شخص گزر نہیں سکتا ہو گا۔ اندر ایک کونے میں دو بوڑھے اوکیناون میاں بیوی تھے۔ یہاں پر وہ اپنے اچار اور میسو رکھا کرتے تھے تا کہ گرمی میں جلد خراب نہ ہوں۔ اب یہ ان کا گھر اور ان کا مقبرہ بن چکا تھا۔ یہ بمباری سے بچنے کے لئے آئے تھے۔ بمباری سے غار کا دہانہ بھی بند ہو چکا تھا۔ واحد کھلی جگہ وہ تنگ سوراخ تھا جہاں سے یہ چھوٹی بچی بمشکل گزر سکی تھی۔
انہوں نے اپنے نام نہیں بتائے۔ بچی ان کو دادا اور دادی کہتی تھی۔ دادا اپنے بازووٗں سے اور ٹانگوں سے معذور ہو چکے تھے۔ وہ بھی دھماکے کا نشانہ بن گئے تھے۔ اس میں کیڑے پڑ رہے تھے۔ دادا اپنی موت کا انتظار کر رہے تھے۔ دادی نابینا ہو چکی تھیں۔ یہ اچھے لوگ تھے۔ ٹومیکو جو کر سکتی تھی، کرنے لگی۔ دن کے وقت وہ دادا کے زخموں سے کیڑوں کو صاف کرتی۔ وہاں پڑے نمک سے زخم بند کرنے کی کوشش کرتی۔ ان کا جسم دبا دیتی۔ شیلف سے دادی کو کھانے کی چیزیں اتار کر دے دیتی کہ دادی کھانا بنا سکیں۔ اپنے منہ سے بونیٹو فلیک کو چبا کر دادا دادی کو دے دیا کرتی کیونکہ ان کے منہ میں بہت سے دانت نہیں تھے۔ ٹومیکو ایک اچھی پوتی تھی۔ جن چند دنوں میں وہ ان کے پاس رہی، اس کے لئے نارمل زندگی واپس آ رہی تھی۔ ویسی زندگی، جس کی اسے سمجھ آتی تھی۔ ویسی زندگی، جو وہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کی عادی ہو، جنگ واپس آ گئی۔ اس بار یہ لاوٗڈ سپیکر کی شکل میں آئی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی جاپانی زبان میں ایک فقرہ اونچی آواز میں دہرایا جا رہا تھا۔ “اوکینوا کے لوگو! ہتھیار ڈال دو۔ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا”۔ یہ الفاظ سن کر اس کے دادا دادی نے اس کے لئے ایک آخری اور سب سے اہم انتخاب کیا۔ اس کے دادا نے جسم پر جو سفید کپڑا پہنا ہوا تھا، وہ اتار کر اس کو مثلث کی شکل میں پھاڑ دیا۔ اس کو ایک غار کے دہانے کے قریب پڑی ایک ٹہنی کے ساتھ باندھ دیا۔ روتی ہوئی اور اس سہمی ہوئی بچی کے ہاتھ میں یہ تھما دیا۔ اس کے دادا دادی کی آخری الفاظ اس کو بار بار دی جانے والی ہدایت تھی، “ٹومیکو! جھنڈا اوپر کر کے رکھنا۔ یہ تمہیں محفوظ رکھے گا”۔ وہ انہیں چھوڑنا نہیں چاہتی تھی لیکن انہوں نے ٹومیکو کو اس کی مرضی کے خلاف زبردستی اپنے اس نئے گھر سے نکال دیا۔
وہ اس غار سے رینگتے ہوئے نکلی۔ جھنڈا جتنا اونچا اٹھا سکتی تھی، اتنا اونچا اٹھا کر چلنے لگی۔ اس نے بہادری کا انتخاب کیا۔ اب وہ انہی آوازوں کی طرف چل پڑی جن سے وہ بھاگتی آئی تھی۔ اس کا سامنا ایک فوجی سے ہوا جس کے پاس ویسے ہتھیار تھا جیسا اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس فوجی نے ہتھیار کا رخ بچی کے چہرے کی طرف کر دیا۔ اس کو پتا لگ گیا تھا کہ وہ اب مرنے لگی ہے۔ جھنڈے نے کام نہیں کیا تھا۔ زندہ فوجی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے اپنا ہاتھ چہرے کے آگے کر لیا۔ شاید ہاتھ اس ہتھیار سے بچا لے۔ اس کے پاس کچھ اور تھا بھی تو نہیں۔ فوجی نے ٹرگر دبا دیا۔ اس میں سے دھماکے کی نہیں، ایک کلک کی آواز آئی۔ اس کی کھینچی ہوئی تصویر اوکیناوا کی مہم کا سب سے یادگار لمحہ بن گیا۔ ایک علامت، کہ یہاں پر کیا ہوا تھا۔
جب ٹومیکو کو مہاجر کیمپ میں لے جایا گیا اور آبادیوں کے لحاظ سے لوگوں کو الگ کیا گیا تو اسے دور سے دو لڑکیاں نظر آئیں۔ یہ اس کی بہنیں تھی۔ ایک معجزہ کہ وہ بھی اس سب سے بچ گئی تھیں اور واپس مل گئی تھیں۔
ان میں سے کسی کو اپنے بھائی کی تدفین کرنے کا موقع نہیں ملا۔ نہ ہی اپنے والد کی۔ نہ ہی ٹومیکو کو اپنے اس غار کے دادا دادی کا پھر پتا لگا۔ اوکیناوا کی ایک چوتھائی آبادی سے زیادہ ختم ہو گئی تھی۔ ایک مرتے ہوئے بوڑھے آدمی کے جسم کا کپڑا لہرانے والی یہ بچی ان مرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ یہ اعداد و شمار کا حصہ نہیں بنی۔
ساتھ لگی یہ تصویر 25 جون 1945 کو کھینچی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحرالکاہل کے جنگی تھیٹر میں اوکیناوا کی جنگ گیارہ ہفتے جاری رہی۔ اس میں بیس ہزار امریکی فوجی اور ایک لاکھ کے قریب جاپانی فوجی مارے گئے۔ ایک لاکھ کے قریب سویلین ہلاکتیں ہوئیں۔ 22 جون 1945 کو یہ جنگ ختم ہو گئی۔ یہ اعداد و شمار ٹھیک ہیں۔ لیکن اعداد و شمار بہت کچھ نہیں بتاتے۔
ہر جنگ اور خانہ جنگی ایسی بہت سی کہانیاں لئے ہوتے ہے۔ کم ہی لوگ اپنی کہانی دوسروں تک پہنچا پاتے ہیں۔ یہ جنگ کا چہرہ ہے۔
ٹومیکو ہیگا نے اپنی زندگی کی آپ بیتی 2013 میں لکھی۔ اس کو پورا تفصیل سے پڑھنے کیلئے یہ کتاب
The Girl with the White Flag: Tomiko Higa & Doroty Britton
اوکناوا کی جنگ کے بارے میں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...