ناول: سفید گلاب
ناول نگار: محمود ظفر اقبال ہاشمی
تبصرہ نگار: ہانیہ احمد
مصنف کسی معاشرے کے حالات کا آئینہ دار ہوتا ہے اگر مصنف کے اندر محبت کا سمندر موجزن ہو تو عکس در عکس مراحل سے گذرتا ہوا تئیشہِ قلم سے ٹکراتا ہوا صفحہِ قرطاس پر عمدہ لفظ بکھرتے ہیں۔
محمود ظفر اقبال ہاشمی اردو ادب میں ایک نئے ادب کا آغاز ہیں۔جسے "نفیس ادب" کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ یہ ناول محض ایک ناول ہی ہوتا اگر اس میں محبت کو اسقدر دلکش انداز میں بیان نہ کیا گیا ہوتا جس کا تعلق ہر انسانی زندگی سے ہے۔"سفید گلاب" ہاشمی صاحب کی ایسی تصنیف ہے جو اپنے عنوان، جاذبِ نظر اور معنویت سے بھرپور سرورق سے ہی قاری کو پہلی نظر میں اپنی طرف متوجہ کر لے۔
اسلوب کے اعتبار سے ناول ایک سہل اور عام فہم زبان میں ہے۔اس ناول کی پہلی خصوصیت انتہائی شستہ،آسان اور پُر اثر بیانیہ ہے۔حالات و واقعات کو انتہائی مہارت کے ساتھ زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔
بہترین الفاظ وہ ہوتے ہیں جو آپکے تخیل پر اسطرح اثرانداز ہوں کہ اُسکا خاکہ آپکی بند آنکھوں کا محتاج نہ ہو کھلی آنکھوں سے اپنے ارد گرد محسوس کر سکو۔ ناول میں منظر نگاری کچھ اسطرح کی گئی ہے کہ واقعات کھلی آنکھوں سے ذہن کی اسکرین پر چلتے محسوس ہوتے ہیں۔
ناول کے بینادی موضوع میں محبت،رومانویت،لطیف انسانی جذبوں،رشتوں اور تعلقات کی باریکیوں کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔محبت کے انداز کو جس شائستگی اور سلیقے سے بیان کیا گیا ہے ذہن کسی پرگنداگی کا شکار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ قاری جب ناول پڑھنا شروع کرتا ہے تو دنیا سے بےخبر ہو کر مختلف کیفیتوں سے گذرتا ہوا کبھی روتا، ہنستا، خوف اور کبھی محبت کی سر شاری میں کھو جاتا ہے۔ اچھا ذوق رکھنے والے قاری کے لئیے یہ ناول ایک یا دو نشستوں سے زیادہ وقت نہ لگائے۔
ناول بہت سے کرداروں پر مشتمل ہے کچھ کردار ابتدا سے اختتام تک قدم بہ قدم ساتھ رہتے ہیں۔ہر کردار انتہائی خوبصورتی اور عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ مریم اور فہد کے کردار مقناطیست سی کشش رکھتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔نور بانو کا وفا میں ڈوبا حزن و ملال کا کردار ہو یا سیلمان کا خود غرض کردارہو۔ عینی کا پر خلوص کردار جس میں ہر لڑکی اپنا عکس دیکھ سکے یا فواد کا لاجواب کردار۔ ہر کردار نگینے کی طرح جگمگاتا ہوا اپنی روشنی منعکس کرتا دلوں پر اثر چھوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ناول کا اختتامیہ ایسے پیرائے میں کیا گیا ہے کہ محبت انسان سے ہر مشکل امر کروا سکتی ہے۔ محبت کے لئے انسان اپنی ہر آسائیش تیاگ کر اس کے قالب میں ڈھل جائے۔
یہ ناول وفا،خلوص اور چاہت کے رنگوں سے سجی ایسی پینٹینگ ہے جس کے کینوس پر جا بجا محبت خوش رنگ انداز میں بکھری ہے۔ بہت زیادہ دادو تحسین کے حقدار ہیں ہاشمی صاحب اس بہترین تخلیق پر۔ماوراء پبلیشرز کی عمدہ پبلیشنگ کا منہ بولتا ثبوت۔اللہ پاک عروج کی مزید راہیں ہموار کریں۔ بہت سی دعائیں اور نیک تمنائیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔