میں ہملٹن کے جزیرے میں ہوں۔
میلبورن سے اڑھائی ہزار کلو میٹر شمال کی طرف— تین میل لمبا اور دو میل چوڑا یہ جزیرہ صرف اور صرف سیاحت کےلئے ہے اور گنتی کے چند لوگ یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ جزیروں کی ایک قطار ہے جو سمندر میں دور تک نظر آتی ہے۔ بادل نیلے پانیوں کو چُھو رہے ہیں اور جزیرے کی شفاف سڑکوں پر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ آلودگی سے بچنے کےلئے کاریں چلانے کی اجازت نہیں۔ بجلی سے چلنے والی بگھیاں ہیں جو سیاح خود چلاتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ تنکا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ تنظیم، قانون کی حکمرانی اور شہریت کا شعور۔ ان تین چیزوں نے اس جزیرے کو جنت کا ٹکڑا بنا رکھا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح آ رہے ہیں۔ آسٹریلیا اربوں ڈالر کا سالانہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ جزیرے میں کوئی پولیس کا افسر، کوئی فوجی، کوئی داروغہ نہیں دکھائی دیتا۔ گورنر ہاوس ہے نہ وزیراعظم کےلئے کوئی مخصوص رہائش، نہ کسی کےلئے کوئی مفت کھاتہ ہے نہ کوئی وی آئی پی ہے اور سچ پوچھئے تو ہر شخص وی آئی پی ہے۔ دُھند، ساحل کی ریت، شفاف نیلگوں پانی، دلرُبا ہَوائیں، سکیورٹی اور دھیما پن، اس قدر کہ کسی شخص کا چیخنا تو درکنار، بلند آواز سے بات بھی کوئی نہیں کرتا۔ احمد ندیم قاسمی نے شاید کسی ایسے ہی جزیرے کےلئے کہا تھا
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے
میں بندرگاہ کی طرف جا نکلتا ہوں۔ دخانی کشتیوں کے جھنڈ کے جھنڈ کھڑے ہیں۔ پوری دنیا کے سیاح جمع ہیں۔ میں ایک ریستوران میں کافی کا ایک کپ لے کر بیٹھتا ہوں۔ رش اس قدر ہے کہ خالی میز کوئی نہیں، سامنے والی کرسی پر ایک نوجوان رنگ اور چہرے کے نقوش سے پاکستانی یا ہندوستانی لگتا ہے۔ میں اس سے گفتگو شروع کر دیتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں کا ہے؟ وہ بتاتا ہے کہ سنگاپور کا ہے۔ اگر وہ چینی ہوتا تو میں اس کے جواب سے مطمئن ہو جاتا لیکن میں اب اُس کی ”اصل“ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ مخصوص پاکستانی سٹائل کا سوال۔ ”پیچھے سے کہاں کے ہیں؟“ اب کے اس نے جواب دیا کہ وہ پیچھے سے بھی سنگاپور کا ہے۔ میرے چہرے پر عدم اطمینان کا اضطراب دیکھ کر اُس نے مہربانی کی اور یہ خبر بہم پہنچائی کہ اُس کے ماں باپ نے مدراس (موجودہ چنائی) سے اُس وقت سنگاپور کو ہجرت کی تھی جب وہ پرائمری سکول میں پڑھتا تھا، لیکن اس نے ایک بار پھر کہا”میں سنگاپور کا ہوں۔ میرا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔“
یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں، مجھے بنگلہ دیش اور بھارت کے کئی لوگ ملے جو اپنے آپ کو سنگاپور یا فجی کے شہری کہتے ہیں اور تو اور ملائشیا میں بسنے والے چینی بھی اپنے آپ کو ملائشین کہتے ہیں! آج تک کوئی ایک چینی مجھے ایسا نہیں ملا جس نے اپنے آپ کو ہانگ کانگ کا یا بیجنگ کا یا شنگھائی کا کہا ہو۔ ملائشیا ہی ان کا وطن ہے۔
اسکے مقابلے میں آپ کراچی کے باشندوں کا جائزہ لیجئے، سالہا سال سے کراچی میں رہ رہے ہیں۔ پانی کراچی کا پی رہے ہیں، ہَوا کراچی کے ساحلوں کی ہے جس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، دھوپ کراچی کے سورج کی ہے جو ان کےلئے زندگی کا سامان بہم پہنچا رہی ہے لیکن ان میں سے کوئی اپنے آپ کو کراچی کا نہیں کہتا۔ کوئی پٹھان ہے، کوئی ہزارے کا ہے، کوئی مہاجر ہے اور کوئی شکارپور سے تعلق رکھتا ہے، چند دن پہلے ایک کالم نگار دوست کی تحریر نظر سے گزری کہ وہ ”شاہی سیّد“ سے ملنے ”مردان ہاوس“ پہنچے۔“ مردان ہاوس یا لاہور ہاوس نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر ہمیں مردان یا لاہور اتنے ہی عزیز ہیں تو ہم مردان یا لاہور ہی میں کیوں نہیں رہتے؟ ہم اپنے آپ کو کراچی ہی کا کیوں نہیں کہتے؟ فیس بُک پر ایک خاتون کا تعارف یوں تھا : پیدائش کراچی، تعلیم کراچی، تعلق (FROM) حیدر آباد، آندھرا پردیش! بندہ پوچھے بی بی آپ نے آندھرا پردیش تو دیکھا ہی نہیں، اُس سے آپ کا کیا تعلق؟
کراچی کے مسئلے کا حل فوج ہے نہ رینجرز، یہ سب عارضی حل ہیں۔ یہ ڈسپرین سے بخار کو چند گھنٹوں کےلئے دبانے والی بات ہے۔ اصل علاج اینٹی بیاٹک ہے اور وہ یہ کہ کوئی مردان کا ہو نہ آندھرا پردیش کا، مانسہرے کا ہو نہ اٹک کا، شکار پور کا ہو نہ لاڑکانے کا نہ لاہور کا، سب کراچی کے ہوں۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ اے این پی میں سارے پٹھان ہیں اور ایم کیو ایم میں سارے لوگ ایک اور لسانی پس منظر سے ہیں! کراچی کو ایسی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے جو لسانی اور علاقائی حوالوں سے اپنا تعارف نہ کرائیں۔ ایسی سیاسی جماعتوںکی ضرورت ہے جن میں ساری زبانوں اور ساری قومیتوں کے لوگ شامل ہوں۔
ایک بار پھر سنگاپور کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس کالم نگار نے کئی سال پہلے تجویز پیش کی تھی کہ کراچی کے ہر محلے اور ہر حصے میں ملی جُلی زبانوں اور نسلوں کے لوگ رہائش رکھیں۔ سنگاپور میں آج تک نسلی فسادات نہیں ہوئے اسکی وجوہ بہت سی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شہر کے ہر حصے میں یہاں تک کہ ہر بلاک میں مختلف نسلوں کی رہائش لازم ہے۔ آپ بھارتی تامل ہیں تو آپ کا پڑوسی بھارتی تامل نہیں ہو سکتا۔ وہ چینی ہو گا یا ملائے، یہ قانونی تقاضا ہے اور اسکی خلاف ورزی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
چنانچہ سنگا پور میں کوئی علاقہ ایسا نہیں جو چینیوں کا ہو یا تامل کا یا ملائے کا! کوالالمپور کی مثال لے لیجئے، 1969ءمیں وہاں چینیوں اور مقامی باشندوں (ملائے) کے درمیان نسلی فسادات ہوئے۔ ملائشیا کی سیاسی قیادت سرجوڑ کر بیٹھی، قیادت میں اتنا وژن تھا اور ایسی صلاحیت تھی کہ اُس نے اپنے فیصلوں سے ملک کی قسمت بدل ڈالی۔ بیالیس سال ہو گئے ہیں کہ نسلی فسادات کا شائبہ تک نہیں گزرا۔ صرف دو فیصلے دیکھئے۔ چینیوں اور ملائے کے درمیان باہمی شادیاں رچانے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ مالی فائدے پہنچائے گئے اور یوں دونوں نسلیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسرا فیصلہ یہ تھا کہ چینی کارخانہ دار، مقامی لیبر کے لئے منافع میں حصہ رکھیں گے۔
غالباً اصلی اور بڑا پاکستانی وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی تاریخ سے تو کیا، اپنی تاریخ سے بھی کوئی سبق نہ سیکھے۔ مشرقی پاکستان میں یہ ہولناک غلطی کی گئی کہ اردو بولنے والے اصحاب مقامی آبادیوں میں گھل مل کر رہائش پذیر نہ ہو سکے۔ محمد پور اور میرپور کے نام سے الگ بستیاں بسائی گئیں۔ جب فسادات ہوئے تو ان الگ بستیوں کو تباہ و برباد کرنا بہت آسان ثابت ہوا! اب یہ غلطی کراچی میں دہرائی جا رہی ہے۔ سہراب گوٹھ فلاں کا ہے، کٹی پہاڑی فلاں کی ہے اور ناظم آباد فلاں کا ہے۔ کراچی کے حکام میں وژن ہوتا تو لیاری کے باشندوں کی مالی مدد کر کے انہیں پورے شہر میں پھیلا دیتے۔ یوں لیاری پر ایک مخصوص چھاپ نہ رہتی، لیکن جو قیادتیں لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا نہ رکھتی ہونے، اُن سے کس وژن کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ آج کراچی کا ہر مظلوم باشندہ زبانِ حال سے دعا مانگ رہا ہے کہ
اِن ظالموں پہ؛پ۰قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
نمرود کی شکل میں آئے یا کسی اور صورت میں۔ قہرِ الٰہی نے آنا ہے اور ضرور آنا ہے۔ کراچی سے اربوں کھربوں کے حساب سے سرمایہ باہر منتقل ہو رہا ہے۔ کاروبار کرنےوالے ملائشیا اور کینیڈا کو ہجرت کر رہے ہیں اور ملک کے وزیراعظم کا ارشاد ہے کہ میں تو اتنے سال سے کراچی میں لاشیں گرتی دیکھ رہا ہوں! !
ہملٹن کے جزیرے پر بادل اُتر آئے ہیں۔ سمندر دھند میں گم ہو گیا ہے۔ کشتیوں کے سفید بادبان برآمدے کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ میری بیوی مصرع پڑھتی ہے…. ع
سفید صبح کو منظر وہ بادبانوں کا
اور پوچھتی ہے ”تمہارے اس شعر کا پہلا مصرع کیا ہے؟ “
لیکن میں تو ہملٹن کے ساحل پر بیٹھا کراچی کیلئے رو رہا ہوں اور دور سے۔ بہت دور سے۔ پہلا مصرع پڑھ کر اور زور سے رونے لگتا ہوں…. ع
سفید چادرِ غم تھی۔ سفید طائر تھے!