صف بندی بہتر نہیں
لکھنے والوں کو لکھنا ہوتا ہے اور بولنے والوں کو بولنا۔ جن کو لکھنے اور بولنے کا معاوضہ ملتا ہے انہیں تو اپنا کام لازمی کرنا ہوتا ہے کیونکہ روزی بندھی ہے۔ میڈیا کاروبار ہے اور سوشل میڈیا بیکار لوگوں کا وہ ہتھیار جس کو وہی بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہیں جن کو اسے استعمال کرنے کی خاطر اداروں، تنظیموں اور گروہوں نے معاوضے کے عوض ملازمت دی ہوتی ہے، یوں یہ ہتھیار بیشتر بیکار لوگوں پر کارگر ہوتا ہے۔
حال ہی میں جو ہوا اس پر دسیوں طرح کی آراء دیں یا دو طرح کی یعنی حق میں اور مخالف، جس نے صلح کروائی اس کے حق میں یا اس کے خلاف، جنہوں نے اپنا کام کیا ان کے حق میں یا ان کے خلاف اور جو متاثر ہوئے ان کے حق میں یا ان کی تکلیف کا جواز پیش کرنے میں۔ حکومت کے 28 کروڑ روپے خرچ ہو گئے، مجموعی طور پر سوا ارب روپے کا نقصان ہو گیا، یہ سب درست لیکن کیا ہو رہا ہے اس سے صرف نظر نہ کی جائے تو بہتر ہوگا۔
ایک تجزیہ نگار کی دہائی ہے کہ مسلسل دھرنوں کی راہ کھل گئی۔ دوسرے تجزیہ نگار ان حالات کو آئندہ انتخابات میں جن کا ہونا تا حال مخدوش ہے، معلق پارلیمان لائے جانے کی خاطر ایک اہم ادارے کی چال قرار دے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ اگر معاہدہ نہ کیا جاتا تو مسالک کے مابین خانہ جنگی چھڑ جانے کا خطرہ تھا۔ ویسے تو اسلام کا کوئی بھی مسلک ایسا نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین نہ سمجھتا ہو تو خانہ جنگی کن کے مابین چھڑنی تھی؟ مطلب یہ کہ ہر شخص اپنی اپنی نفیری بجا رہا ہے۔
جس بات سے نگاہیں چرائی جا رہی ہیں وہ یہ کہ معاشرے میں گذشتہ چند عشروں سے جو صف بندی کا عمل شروع ہوا تھا وہ اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس کا ثبوت حالیہ دھرنا، اس کو تمام کروائے جانے کا معاہدہ اور سینے پر ہاتھ رکھ کے یہ کہنا ہے کہ " کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں"۔ جنرل صاحب نہ تو سادہ ہیں کہ انہیں معلوم نہ ہو کہ وڈیو بن جائے گی اور چل جائے گی اور نہ ہی انہوں نے اپنے طور پر کوئی بات کہی کیونکہ خارجہ اور دفاع کے اعلٰی افسران سرعام کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو ان کے اداروں کی پالیسی کی توہین کرتی ہو، نفی کرتی ہو، غچہ دیتی ہو کیونکہ وہ حکومت کے سامنے چاہے نہ سہی مگر اپنے اپنے اداروں کے سامنے ضرور جوابدہ ہوتے ہیں۔
صف بندی ہونے کی سماجی وجوہ میں کسی گروہ کا خود کو دوسروں سے ممتاز کرنا، فوقیت حاصل کرنا، راغب کرنا وغیرہ شامل ہوتی ہیں مگر اس کی سیاسی وجوہ دوسرے گروہ یا گروہوں کو نیچا دکھانا، جھوٹا ثابت کرنا، شکست دینا یا معدوم کر دینا ہوتی ہیں۔ گروہ مفادات کے تحت بنتے ہیں۔ مسالک بھی مفادات کے تحت بنتے ہیں جن کی توجیہہ دوسرے جہان میں مفاد یعنی ثواب کے معاوضے میں اجر دیا جانا قرار دی جاتی ہے لیکن اصل وجوہ دنیاوی ہی ہوتی ہیں۔ ایک بڑا مفاد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مسلک کے گرد اکٹھے کرکے مسلک کے شارحین یعنی مسلکی اشرافیہ کی تعظیم و توقیر بڑھانا ہوتی ہے۔ مسلکی تعظیم و توقیر چونکہ تقدیس سے بندھی ہوتی ہے اس لیے لوگ اپنی جان و مال نچھاور کر دیتے ہیں۔ یوں مسلکی اشرافیہ کو مادی مفاد بھی پہنچتا ہے۔ جتنے لوگ ان کے گرد ہونگے ان کی سیاسی اہمیت اتنی زیادہ بڑھ جائے گی۔
عام سیاست کرنے والے رہنما بھی مذہبی زعماء سے سیاسی مدد کے طالب رہے ہیں جن میں معروف گدیوں کے مالک زیادہ اہم ہیں۔ مختلف مسالک والوں نے اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں بنا لیں یوں ان کی سیاسی توقیر میں اضافہ ہو گیا۔ افغانستان میں جنگ کے بعد پاکستان میں ایک مخصوص مسلک سے وابستہ اہم افراد کے وسائل میں اضافہ ہوا۔ افغانستان پر امریکہ کے دھاوے کے بعد، دوسرے مسلک کو معتدل مسلک قرار دے کر اسے بھی اہمیت دی جانے لگی تو اسے بھی اپنے پٹھے اکڑا کے دکھانے کی سوجھی۔
سر عام تو حکومتی طاقت سے نبرد آزما ہونے کے لیے ڈنڈے اور چند طپنچے ہی ظاہر کیے جاتے ہیں مگر درحقیقت تمام مسالک والوں کے پاس انفرادی حیثیت میں قانونی اور اجتماعی طور پر غیر قانونی ہتھیاروں کی کمی نہیں ہے۔ ہتھیار بالآخر زمین میں دبانے کے لیے نہیں رکھے جاتے بلکہ اس سے پہلے ان کے استعمال کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
ہمسایہ ملک کے کچھ لوگ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں انتشار پھیلانے کے منصوبے کی مارچ تک تکمیل کر لینی ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کا وزیرخارجہ ایک سے زیادہ بار پاکستان کے عدم استحکام سے متعلق حدشات کا ذکر کر چکے ہیں۔ امریکہ کے ایک تجزیہ کار کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی فوج ضرورت کے تحت پچاس برس تک رکھی جا سکتی ہے کیونکہ امریکہ کو پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق تشویش ہے۔ جونہی پاکستان میں عدم استحکام ناقابل اصلاح حد تک پہنچے گا افغانستان میں موجود امریکی فوج پاکستان میں ضروری کارروائی کرے گی۔
ادھر حال یہ ہے کہ پنجاب رینجر کے سربراہ لفافے بانٹتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ کے کہہ رہے ہیں،" کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں"۔ شکریہ راحیل شریف کے بعد شکریہ باجوہ کے اشتہار سامنے آنے لگے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کہنا پڑ جائے:
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
ہمسایہ دشمن ملک اور معاند امریکہ کا کام آسان نہ کیجیے۔ صف بندی کو شہ دینا عقلمندی نہیں بلکہ آگ کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔