یہ کراچی ہے۔ صبح کا وقت ہے۔ پی آئی اے کی پرواز پی کے 370سات بجے روانہ ہونی ہے۔ مسافر جہاز میں بیٹھے ہیں۔ سات بج جاتے ہیں۔ روانگی کے آثار کہیں نہیں!
اس پرواز کو مسافر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ نو بجے اسلام آباد پہنچ جاتی ہے۔ لوگ دفتروں‘ سفارت خانوں‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں‘ وزارتوں میں کام نمٹاتے ہیں اور شام کی پرواز سے واپس آ جاتے ہیں۔
سات سے آٹھ بج جاتے ہیں۔ پھر ساڑھے آٹھ پھر نو… عملہ ایک ہی بات بتاتا ہے۔ ’’ٹیکنیکل وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے‘‘ عملہ کے ایک رکن کے منہ سے سچی بات نکل جاتی ہے… ’’ایک وی آئی پی کا انتظار ہو رہا ہے‘‘…
دو اڑھائی گھنٹے بعد ایک سینیٹر صاحب اپنا ٹرالی بیگ لڑھکاتے نظر آتے ہیں۔ شان و شوکت سے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ پہلے وزیر تھے۔ ولایت کے باسی ہیں۔ اب بھی پیش منظر پر ہیں؛ تاہم شور سن کر‘ صورتحال بھانپ کر ٹرالی بیگ لڑھکاتے واپس چلے جاتے ہیں۔
اس سے چند منٹ پہلے بھی ایک عوامی نمائندہ آیا تھا۔ نشست پر بیٹھ گیا تھا۔ پورے جہاز کے مسافروں نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ وہ بھی دو گھنٹے تاخیر سے آیا تھا۔ ’’میں تو یہیں باہر بیٹھا تھا‘‘۔ اس نے جان بچانے کے لیے کہا۔ مسافروں نے پوچھا… ’’وہاں باہر کیوں بیٹھے ہوئے تھے؟ باقی سارے مسافر تو جہاز کے اندر بیٹھے ہیں‘‘… اُسے بھی جہاز سے نکال دیا گیا۔
تبدیلی آ نہیں رہی۔ تبدیلی آ چکی ہے۔ عمران خان فرشتہ نہیں… انسان ہے۔ انسان مرکب ہی دو چیزوں سے ہے۔ خطا اور نسیان۔ عمران خان سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ وہ بھول بھی سکتا ہے۔ طالبان اور قبائلی جرگہ سسٹم کے حوالے سے اُس کی رائے سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن پچھلے ایک ماہ سے عوامی فکر میں جو تبدیلی وہ لایا ہے اس سے انکار صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے بارے میں سعدی نے بہت عرصہ پہلے کہہ دیا تھا؎
گر نہ بیند، بروز، شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
چمگادڑ بیچاری دن کو دیکھنے سے معذور ہے۔ بھلا اس میں سورج کا‘ جو روشنی کا منبع ہے‘ کیا قصور!!
تبدیلی! ایسی تبدیلی جس کا چند ماہ پہلے تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا! خاکروب بھی ٹیکس چور ٹیکس چور کے نعرے لگاتا پھرتا ہے۔ باورچیوں‘ مالیوں اور ریڑھے دھکیلنے والے مزدوروں کو بھی اعداد و شمار معلوم ہو چکے ہیں کہ لندن میں کس کی کتنی جائداد ہے؟ جدہ میں کس کے کتنے کارخانے ہیں؟ برطانیہ میں گزشتہ برس کس نے کتنے کروڑ روپے ٹیکس میں ادا کیے اور اپنے ملک میں کس نے کتنے سو روپے ٹیکس والوں کو دے کر قوم پر احسانِ عظیم کیا۔ کس نے کس کس موقع پر کون کون سے جھوٹ بولے؟ کس نے کس کو گریبان سے پکڑنے اور گھسیٹنے کی دھمکیاں دیں۔ پھر کوچوان بن کر خدمت پر مامور ہوا اور دسترخوان قابوں سے بھر گیا!!؎
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی!
مسلح افواج کے ایک بہت ہی سینئر افسر راوی ہیں۔ ملتان میں ایک صاحب کی گاڑی کا نمبر ایسا تھا جس سے ایک اعلیٰ شخصیت کے نام کے تین حصوں کے ابتدائی حروف بنتے تھے۔ اعلیٰ شخصیت اُس نمبر کی گرویدہ ہو گئی۔ گاڑی کا مالک بھی اکڑ گیا۔ منت سماجت کی نوبت آ گئی۔ آخر میں جانے کیا ہوا لیکن اس سے ایک خاص مائنڈ سیٹ کا۔ ایک خاص ذہنی سطح کا پتہ چلتا ہے۔ فلاں فون نمبر لینا ہے۔ زائد جتنے پیسے لگتے ہیں لگا دو۔ گاڑی کا فلاں نمبر لینا ہے۔ منہ مانگے دام حاضر ہیں۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے‘ یہی وہ ابکائی لانے والی ذہنی سطح ہے جو اس طبقے کو پروازیں موخر کرانے پر اُکساتی ہے۔ کیا جاہ و جلال ہے کیا طمطراق ہے۔ اڑھائی سو انسان مکھیوں‘ چیونٹیوں‘ بلیوں‘ مرغیوں کی طرح دو دو گھنٹے جہاز کی نشستوں پر بندھے‘ انتظار کرتے ہیں۔ پھر ایک وی آئی پی نمودار ہوتا ہے۔ اس وی آئی پی کو یہ تربیت ہی نہیں ملی کہ وہ تاخیر کا سبب بننے پر معذرت کرے۔ یہ تو اس کا حق ہے ع
تفو بر تو اے چرخِ گرداں! تفو
ایک سابق وزیراعظم کے‘ جو ایک زمانے میں سپیکر تھے‘ گھر کے کسی فرد کی خاطر دارالحکومت سے لاہور جانے والی پرواز تاخیر کا شکار ہوئی۔ کشور ناہید بھی مسافروں میں تھیں۔ انہوں نے جہاز کے اندر‘ نشستوں کے درمیان جو تنگ سی پگڈنڈی بنی تھی‘ اُسی پر احتجاجی جلوس نکال دیا۔ لیکن چند ہی مسافروں نے ساتھ دیا۔ وہ زمانے لد گئے۔ اب اس قوم کو احتجاج کرنا آ گیا ہے۔ یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں! یہ وہ قوم ہے جو تندرست گردہ نکالنے والے قصاب صفت ڈاکٹروں کو یہ کہہ کر معاف کر دیتی تھی کہ تقدیر میں یہی لکھا ہے۔ آج طاقتور‘ قانون سے بالا‘ ارکانِ پارلیمنٹ کو شیم شیم کے نعروں کے ساتھ جہازوں سے باہر نکالا جا رہا ہے‘ کل کو اور بھی بہت کچھ ہوگا! ؎
بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا
یہ بد نہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے
تین سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد سے پی آئی اے کی پرواز بنکاک کے لیے تیار تھی۔ ایک اعلیٰ شخصیت کے اعلیٰ لختِ جگر کی اُسی وقت تشریف آوری تھی یا رخصتی تھی۔ اس کی خاطر بنکاک والی پرواز تاخیر کا شکار ہوتی گئی یہاں تک کہ تاخیر حدو حساب سے باہر ہو گئی۔ جہاز بنکاک پہنچا تو مسافر بے یارومددگار تھے۔ جس نے ہانگ کانگ جانا تھا‘ اس کا جہاز بھی جا چکا تھا‘ جس نے سنگاپور جانا تھا‘ اس کا بھی اور جس نے سڈنی جانا تھا اس کا بھی۔ پریشان حال‘ دربدر مسافروں نے ایسی ایسی بددعائیں دیں کہ بنکاک کا نام ہی اس ایئرلائن کی فہرست سے چھن گیا۔ طاقتور باریاں لینے والی سیاسی جماعتوں نے اس کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے! حالت یہ ہے کہ اس سے عبرت بھی کوئی نہیں پکڑتا۔
احتجاج! احتجاج! اپنا حق لینے کے لیے احتجاج! اور ہاں! قوم پارلیمنٹ سے اظہار افسوس ضرور کرے کہ یہ جو عوام کو جوتے کی نوک پر اور قانون کو جوتے کے نیچے رکھنے والے معزز ارکان کو جہاز سے نکالا گیا ہے تو یہ ’’آئین‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کی عزت پر حملے کے مترادف ہے!! اے معزز ارکانِ پارلیمنٹ! اے محافظانِ جمہوریت و آئین! ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“