صدیقہ بیگم کا نام اہل ادب کے لیے یقینا کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے لیکن قابل توجہ معاملہ یہ ہے کہ دنیائے اردو ادب سے وابستہ صدیقہ بیگم نام کی دو بہت ممتاز اور معروف شخصیات ہیں۔ ایک صدیقہ بیگم کا تعلق ہمسایہ ملک بھارت سے ہے جبکہ دوسری صدیقہ بیگم کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جبکہ سن ولادت کو مدنظر رکھا جائے تو دونوں کا تعلق برٹش انڈیا یا متحدہ ہندوستان سے بنتا ہے۔ بہت سے لکھنے والوں نے دونوں شخصیات کے کوائف کو گڈ مڈ کردیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اردو ادب کی سب سے بڑی ویب سائیٹ ریختہ پر بھی جو معلومات دستیاب ہیں وہ صدیقہ بیگم پاکستانی کی تصویر کے ساتھ ہیں اور معلومات میں تاریخ ولادت صدیقہ بیگم ہندوستانی کی جبکہ تاریخ وفات صدیقہ بیگم پاکستانی کی درج ہے۔ یہی نہیں بلکہ ریختہ پر تو صدیقہ بیگم پاکستانی کے بلاگ میں ادب لطیف کے مختلف شماروں کو صدیقہ بیگم کی مرتبہ کتب کے طور پر جبکہ صدیقہ بیگم سیوہاروی (ہندوستانی) کے افسانوں کے مجموعوں کو صدیقہ بیگم پاکستانی کی تصانیف کے طور پر پیش ڈسپلے بلکہ اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ٹائٹل یا کور پیج پر صدیقہ بیگم پاکستانی کی تصویر کے ساتھ یہ معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ صدیقہ بیگم ۱۹۲۵ ۔ ۲۰۱۹ لاہور ۔ پاکستان ۔ معروف افسانہ نگار اور مشہور ادبی جریدے ادب لطیف کی مدیر۔ بےشک اس میں لاپرواہی ریختہ کو معلومات فراہم کرنے والے کی بھی ہوسکتی ہے اور نااہلی بھی۔ لیکن اس سے یعنی ریختہ سے قطع نظر جن لکھنے والوں کے ماخذات معتبر نہیں ہیں ان کی تحریروں میں بہت سی غلط اور من گھڑت معلومات پر مشتمل مواد بھی شامل ہے۔ لکھنے والوں میں سے کچھ کا تعلق تحقیق ، تصنیف اور تنقید سے بھی ہے۔ ہمارے لیے انتہائی قابل احترام ایک بہت اچھی شاعرہ ، ادیبہ اور ڈاکٹریٹ ڈگری یافتہ خاتون نے صدیقہ بیگم پاکستانی کے حوالے سے اپنی تحریر میں مکتبۂ ادب لطیف اور دیگر اشاعتی و تعلیمی اداروں اور ماہنامہ ادب لطیف لاہور کے بانی سر سید لاہور اور محسن ادب جناب چوہدری برکت علی کی تاریخ وفات انیس سو اسی یا اکیاسی درج کرکے وضاحت فرمائی کہ چوہدری برکت علی کے انتقال کے بعد انکی بیٹی صدیقہ بیگم نے ادب لطیف کی مدیراعلی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ہم نے محترمہ کو فیس بک میسنجر پر پیغام بھیجا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے میسنجر بلاک کر رکھا ہے۔ پھر ہم نے کو مینٹس میں گزارش کی اس تحریر کے حوالے سے ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں تو جواب ملا کہ تحریر پر کومینٹس بوکس میں ہی فرمادیجے ۔ ہم نے بصد احترام کومینٹس بوکس میں گزارش کی کہ حضرت چوہدری برکت علی کا وصال انیس سو باون میں ہوا تھا لہذا آپ اپنی تحریر میں درست تاریخ وفات درج فرما دیں۔ موصوفہ نے جوابا فرمایا کہ ہماری معلومات کے مطابق چوہدری برکت علی کی یہی تاریخ وفات ہے۔ آپ فکرمند نہ ہوں۔۔۔۔ اس واقعے کے بعد پروفیسرجناب غلام شبیر رانا صاحب کا مضمون صدیقہ بیگم : وہ جو چپ چاپ بھری بزم سے اٹھ کر چل دیں۔ شائع ہوا ۔ اس مضمون میں صدیقہ بیگم کا سال ولادت انیس سو پچیس بتایا گیا ہے۔ جو کہ غلط ہے۔ چند دیگر معلومات پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس نوعیت کے اور بھی متعدد قابل توجہ معاملات ہیں کہ جن میں سدھار لانے کی اشد ضرورت ہے۔
مدیراعلی ماہنامہ ادب لطیف محترمہ صدیقہ بیگم کا ذکر خیر آتے ہی اللہ جانے کیوں مجھے آنس معین کی نظم ترکہ یاد آگئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کو آنس معین کا جو کلام حد درجہ پسند تھا ، یہ نظم بھی اس میں شامل تھی۔ صدیقہ بیگم کے حوالے سے مذید کچھ پڑھنے سے پہلے ملاحظہ فرمائیے یہ شاہکار نظم۔
نظم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترکہ
نظم نگار : ۔۔۔۔۔ آنس معین
زندگی کے طویل صحرا میں
اک شجر سایہ دار آیا تھا
جس کے نزدیک سے گزرتے ہوئے
ایک لمحے کو رک گیا تھا میں
پھر یہ لمحہ ، جو ایک نقطہ تھا
جانے کیسے دراز ہونے لگا
کتنے موسم سمٹ گئے اس میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھی بدن کو سکون کی خواہش
لیکن اندر جو کوئی رہتا ہے
وہ جو لمبے سفر پہ نکلا تھا
اس نے بے چین کر دیا آخر
یہ تو ممکن نہ تھا کسی صورت
وہ شجر ساتھ چل سکے میرے
اس کی شاخوں کے ریشمی بازو
میرے قدموں کی بیڑیاں بن کر
مجھ کو آگے نہ بڑھنے دیتے تھے
اور اب تو یہ ہو چلا تھا یقیں
میرے اندر کا آدی بھی کبھی
اس کے بازو جھٹک نہ پائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اچانک
نہ جانے کیسے نظر
آگئے چند پاؤوں کے نقوش
جن کو دیکھا تو یہ خیال آیا
اس سے پہلے بھی ان گنت راہی
اسی رستے سے ہوکے گزرے ہیں
اسی سائے سے فیض یاب ہوئے
میں چلا جاؤں گا
تو میرے بعد
اور بھٹکا ہوا کوئی راہی
لمحہ بھر کو سکوں کا متلاشی !
نامور افسانہ نگار صدیقہ بیگم سیوہاروی ہندوستانی کی انیس سو پچیس میں لکھنؤ میں ولادت ہوئی اور ستمبر دوہزار بارہ کو علی گڑھ میں وفات پائی۔ انہوں نے اپنی زندگی بجنور ، الہ آباد اور علیگڑھ سمیت مختلف شہروں میں گزاری۔ ان کا تعلق بھی ترقی پسند مصنفین سے تھا۔ ادب لطیف ، نقوش ، شاہرہ اور دیگر رسائل و جرائد میں ان کے افسانے تواتر سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ محترمہ صدیقہ بیگم سیوہاروی ہندوستانی کے افسانوں کے مجموعے ہچکیاں ، دودھ اور خون ، پلکوں میں آنسو ، ٹھیکرے اور رقص بسمل قابل ذکر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے اس حوالے سے مذید اظہار خیال سے قبل ہم صدیقہ بیگم پاکستانی لاہوری کے سوانحی خاکے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔صدیقہ بیگم کا سوانحی خاکہ
——
نام ۔ صدیقہ بیگم
گھریلو نام ۔ رانی
مقام و تاریخ ولادت ۔ یکم جنوری 1938
والد کا نام ۔ چوہدری برکت علی (المعروف سرسید لاہور)
(1902.ولادت..1952.وفات)
والدہ کا نام ۔ عنایت بیگم
(1915.ولادت…1992.وفات)
چوہدری برکت علی اور
عنایت بیگم کی اولادیں
سعیدہ بیگم
(1932 تا 2015)
چوہدری افتخار علی
(1933 تا 2019)
چوہدری ظفر علی
(1936. ولادت ۔ 2021 .وفات)
چوہدری خالد علی
(1938 ولادت)
صدیقہ بیگم
(1938 تا 2019 )
چوہدری اکبر علی
(1942)
پروین عرف ناہید
1944
صدیقہ بیگم نے 1954 میں مدرسہ البنٌات۔نذد چوبرجی لاہور سے میڑک کی سند حاصل کی انٹر میڈیٹ۔ اسلامیہ گرلز کالج کوپر روڈ سے 1956 میں کیا۔
صدیقہ بیگم کی شادی معروف بینکار جاوید طارق خان صاحب سے 1958 (کراچی) میں ہوئی۔
——
صدیقہ بیگم اور جاوید طارق خان کے گلشن میں تین پھول کھلے
ثویلہ زوجہ انیس احمدخان
توصیف احمد خان
بیاء زوجہ آغا بابر خان
——
ادبی اولاد
——
صدیقہ بیگم کے بڑے داماد (فرزند اشفاق احمد خان صاحب اور بانو قدسیہ صاحبہ) انیس احمد خان صاحب فرمایا کرتے تھے ظفر معین بلے اور آمنہ معین بلے امّی (صدیقہ بیگم) کی ادبی اولاد ہیں۔
مدیر اعلی :۔
بحثیت مدیرِ اعلی
ماہنامہ”ادب لطیف“ لاہور
مسلسل چالیس برس تک خدمات انجام دیں
مشاغل :۔ صدیقہ بیگم کی زندگی میں دو شوق خاص اہمیت کے حامل تھے
ایک اردو اور انگریزی ادب کی کتب کا مطالعہ ادبی کتب میں بھی شاعری کی نسبت فکشنن پر زیادہ توجہ رہی۔ بے شک ان کی نظر میں مطالعہ کتب بھی سانس لینے سے کم اہم نہیں تھا۔
دوسرا، سیر و سیاحت :۔
سیر وسیاحت کے حوالے سے دیکھیں تو انہوں نے کم و بیش 30 یا 35 ممالک کے دورے کیے ہونگے جو کہ خالصتا“ علمی و ادبی نوعیت کےتھے۔ اور صرف سیر وسیاحت کی غرض سے کم و بیش 15 ممالک شمار کیے جاسکتے ہیں۔
صدیقہ بیگم کا جنون :۔
صدیقہ بیگم کی زندگی میں بلا کی تحمل مزاج اور بردباری تھی اور حد درجہ صبر و قناعت بھی لیکن ان کو ایک جنون بھی تھا اور اس جنون کا نام تھا ماہنامہ ادب لطیف ۔ لاہور کہ جس کے بانی صدیقہ بیگم کے والد حضرت چوہدری برکت علی تھے اور صدیقہ بیگم خود جس کی کئی دہائیوں تک مدیراعلی بھی رہیں۔ صدیقہ بیگم کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور بلا شبہ دنیا بھر میں ان کے مداح و ادبی دوست اور ادب لطیف کے قارئین موجود تھے کہ جن سے ان کے روابط تھے۔
محترمہ صدیقہ بیگم پاکستانی لاہوری اکثر سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی یہ غزل گنگناتی تھیں۔ اس شاندار اور شاہکار غزل کے چند اشعار نظر قارئین ہیں۔
غزل ……………….. سید فخرالدین بَلّے
خداسے روزِ ازل کس نے اختلاف کیا
وہ آدمی تو نہ تھا، جس نے انحراف کیا
میں کیا بتاؤں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرہ ءشبنم میں جب شگاف کیا
وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے
خود اپنے ربّ سے فرشتوں نے اختلاف کیا
اسی کے رحم و کرم پر ہے عاقبت میری
نہ جس نے پہلی خطا کو مری معاف کیا
ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
خدا گواہ کہ میں نے خود آگہی کے لئے
سمجھ کے خود کو حرم عمر بھر طواف کیا
رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل
جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا
صدیقہ بیگم کو سانس اور دمے کی تکلیف کے باعث بہت احتیاط کرنی پڑتی تھی۔ موسم سرما کے آغاز سے پہلے ہی ان کی احتیاطی تدابیر کا آغاز ہوجاتا تھا،ان سے زیادہ ان کے بچے اس کا خیال رکھتے۔ ایک دن وہ اپنے گھر سے ہماری طرف آنے کے لیے روانہ ہوئیں تو ٹھیک تھیں،لیکن اللہ جانے راستے میں کہاں اور کیسے انہیں الرجی کا اٹیک ہوا اور ہمارے غریب خانے تک پہنچتے پہنچتے ان کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگی۔ انہوں نے آتے کے ساتھ ہی ہماری والدہ سے کہا مہرافروز میں تو اس وقت آپ کے ہاتھ کی چائے پینے آئی ہوں۔ ماما نے کہا ضرور صرف پانچ منٹ میں۔ چائے پی کر ان کی طبیعت بس تھوڑی ہی دیر کیلیے سنبھلی اور پھر انہوں نے کہا ظفر ثویلہ کی مجھ سے بات کروادو۔ میں نے فون ملاکرانہیں دے دیا۔انہوں نے ثویلہ باجی سے کہا کہ شاید میں آج رات یہیں رکوں گی۔میڈیسن لے آئی تھی۔ کام کی نوعیت پر منحصر ہے کہ کل کس وقت واپسی ہو۔محترمہ صدیقہ بیگم اپنی ہرہر بات اپنے بچوں سے شیئر کرتی تھیں اور ان سے مشورے بھی لیا کرتی تھیں۔ یقیناوہ ایک اچھی ماں تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہت اچھی اور ہمدرد دوست اور مشیر بھی تھیں۔………………..۔
جناب میرزا ادیب ، مرتضی برلاس ، بیدار سرمدی ، شاہد واسطی ، انتظار حسین ، پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، ڈاکٹر انور سدید ، سائرہ ہاشمی ، اسلم کولسری ، ابصار عبدالعلی ، سیماء پیروز ، قاضی پیروز بخت ، ڈاکٹر اصغر ندیم سید ، ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ، اشرف سلیم ، نوید مرزا ، ناصر بشیر ، نجمی نگینوی ، اسرار زیدی ، تسلیم احمد تصور ، سعید بدر ، سرفراز سید ، اظہر جاوید اور محترم ڈاکٹر ظفر علی راجا بھی ادبی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ کے مستقل شرکاء تھے۔ محترم ڈاکٹر ظفر علی راجا کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ جناب شاہد واسطی کو لینے کے بعد جناب میرزا ادیب صاحب کو بھی اپنے ہمراہ قافلہ کے پڑاؤ میں شرکت کے لیے لایا کرتے۔ جناب میرزا ادیب کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر ادبی تنظیم قافلہ کے بانی جناب سید فخرالدین بلے نے متعدد بار قافلہ کے خصوصی پڑاؤ بھی ڈالے اور جناب میرزا ادیب کی شاندار انداز میں سالگرہ منانے کا اہتمام بھی کیا اور بھرپور انداز میں شرکائے قافلہ پڑاؤ نے جناب میرزا ادیب کی ادبی خدمات کو خراج پیش کیا۔ ایک مرتبہ مدیر اعلی ہفت روزہ آواز جرس لاہور اور قافلہ سالار جناب سید فخرالدین بلے نے میرزا ادیب کے اعزاز میں قافلے کے پڑاؤ میں اعلان فرمایا کہ ان شاء اللہ آپ تمام تر شرکاء اور دیگر تمام تر قارئین آواز جرس آئندہ ماہ کے قافلہ پڑاؤ میں جناب میرزا ادیب کے ساتھ ایک مفصل مکالمہ ملاحظہ فرما سکیں گے۔ ماہنامہ ادب لطیف کی مدیراعلی محترمہ صدیقہ بیگم نے سید فخرالدین بلے سے گزارش کی کہ میری خواہش ہے کہ اس تاریخی اور یادگار انٹرویو کے پینل میں میری بھی شرکت اور شمولیت ہو اور پھر یہ مکالمہ یہ انٹرویو ہفت روزہ آواز جرس لاہور کے ساتھ ساتھ ماہنامہ ادب لطیف لاہور میں بھی شائع کیا جائے۔ بلاشبہ یہ ایک قابل قبول اور قابل عمل تجویز تھی اور سید فخرالدین بلے صاحب نے محترمہ سے کہا کہ آپ آواز جرس اور ادب لطیف کے لیے جناب میرزا ادیب کے خصوصی مکالمے اور انٹرویو کے پینل میں اپنے نام کے ساتھ ساتھ جن کی شمولیت ناگزیر سمجھتی ہیں ہمیں کل رات تک ضرور مطلع فرمادیں کیونکہ پرسوں ہفتہ وار تعطیل ہے اور ہم نے جناب میرزا ادیب کو ایوان آواز جرس میں صبح دس بجے مدعو کر رکھا ہے۔ ایوان آواز جرس میں ساڑھے دس بجے سے دوپہر ڈیڑھ بجے تک مکالمہ جاری رہے گا اور ڈیڑھ سے ڈھائی بجے تک نماز اور ظہرانے کا وقفہ ہوگا۔ ڈھائی بجے سے ساڑھے چھ ، سات بجے تک مکالمہ جاری رہے گا اور اگر ضرور محسوس کی گئی تو اگلے روز دوپہر تین بجے سے سات بجے تک کا ایک اور سیشن بھی ہوسکتا ہے۔ قصہ مختصر محترمہ صدیقہ بیگم نے جناب سید فخرالدین بلے کی خواہش پر جو پینل تشکیل دیا وہ یہ تھا۔ سید فخرالدین بلے (مدیراعلی آوازجرس) ، صدیقہ بیگم (مدیراعلی ادب لطیف) ، ظفر معین بلے (مدیر ادب لطیف اور آواز جرس) ، افتخار ایلی (آوازجرس) اور ڈاکٹر ظفر علی راجا۔ جناب میرزا ادیب صاحب سے انتہائی بھرپور اور جاندار مکالمہ ہوا اور یہ مکالمہ ہفت روزہ آواز جرس لاہور کے میرزا ادیب نمبر کے ساتھ ساتھ ماہنامہ ادب لطیف لاہور کی بھی زینت بنا۔
محترمہ صدیقہ بیگم کے دورۂ کراچی کے دوران ہی کہیں پھوپی اماں محترمہ ادا جعفری صاحبہ نے صدیقہ بیگم کو لاہور ان کے گھر کے نمبر پر فون کیا تو فرزند جناب اشفاق احمد و بانو قدسیہ صاحبہ جناب انیس احمد خان سے بات ہوپائی اور انہی کے توسط سے محترمہ ادا جعفری صاحبہ کو معلوم ہوا کہ صدیقہ بیگم تو انہی کے شہر کراچی آئی ہوئی ہیں اور رابطے کے لیے برادر محترم انیس احمد خان صاحب نے میرا اور صدیقہ بیگم کا موبائل نمبر بھی فراہم کردیا۔ میرے پاس محترمہ ادا جعفری صاحبہ کا فون آیا اور انہوں نے اپنے مخصوص انداز پہلے تو میری خبر لی اور اس کے بعد دریافت فرمایا کہ بلے میاں کیسے ہیں اور مہر افروز کا کیا حال ہے اور سب بہن بھائی انجم ، عارف ، عذرا ، اسماء ، ناز اور آمنہ کے احوال سناؤ۔ ایک مرتبہ پھر اسم شماری کے ساتھ اپنی دعاؤں سے نوازا اور مجھ سے کہا کہ میری صدیقہ بیگم سے بات کروا دو ابھی یا جب بھی تمہارے لیے ممکن ہو۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ ابھی تو میں کالج میں ہوں شام پانچ بجے کے بعد گھر پہنچ کر آپ کی بات کرواؤں گا ۔ محترمہ صدیقہ بیگم کے دورۂ کراچی کے دوران ہی کہیں پھوپی اماں محترمہ ادا جعفری صاحبہ نے صدیقہ بیگم کو لاہور ان کے گھر کے نمبر پر فون کیا تو فرزند جناب اشفاق احمد و بانو قدسیہ صاحبہ جناب انیس احمد خان سے بات ہوپائی اور انہی کے توسط سے محترمہ ادا جعفری صاحبہ کو معلوم ہوا کہ صدیقہ بیگم تو انہی کے شہر کراچی آئی ہوئی ہیں اور رابطے کے لیے برادر محترم انیس احمد خان صاحب نے میرا اور صدیقہ بیگم کا موبائل نمبر بھی فراہم کردیا۔ میرے پاس محترمہ ادا جعفری صاحبہ کا فون آیا اور انہوں نے اپنے مخصوص انداز پہلے تو میری خبر لی اور اس کے بعد دریافت فرمایا کہ بلے میاں کیسے ہیں اور مہر افروز کا کیا حال ہے اور سب بہن بھائی انجم ، عارف ، عذرا ، اسماء ، ناز اور آمنہ کے احوال سناؤ۔ ایک مرتبہ پھر اسم شماری کے ساتھ اپنی دعاؤں سے نوازا اور مجھ سے کہا کہ میری صدیقہ بیگم سے بات کروا دو ابھی یا جب بھی تمہارے لیے ممکن ہو۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ ابھی تو میں کالج میں ہوں شام پانچ بجے کے بعد گھر پہنچ کر آپ کی بات کرواؤں گا ۔قصہ مختصر شام چھ ساڑھے بجے میں جب محترمہ صدیقہ بیگم کے پاس پہنچا تو انہیں تمام ماجرا سنایا اور ان سے پوچھا کہ اگر آپ ان ہیلر لے چکی ہیں اور بات کرسکتی ہیں تو میں پھوپی اماں کا فون نمبر ملاؤں ۔ صدیقہ بیگم نے کہا ملا دو ، میں بات کرنے کو تو تیار ہوں لیکن وہ مجھے میری کوتاہی اور نااہلی پر ڈانٹیں گی ضرور اور تمہارے لہجے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ تمہیں بھی خوراک مل چکی ہے۔ صدیقہ بیگم سے محترمہ ادا جعفری صاحبہ کی تفصیلی بات ہوئی اور اور انہوں نے اپنی طبیعت کے بارے میں بھی بتایا ۔ ملاقات کے لیے اگلے روز کا شام کا وقت طے پاگیا ۔ محترمہ صدیقہ بیگم ، محترمہ فردوس حیدر اور میں ہم تینوں نے محترمہ ادا جعفری صاحبہ کے ساتھ دو تین کا وقت بہت اچھی طرح گزارا ۔ محترمہ ادا جعفری نے صدیقہ بیگم صاحبہ کی اس خواہش کے احترام کہ جب بھی لاہور آنا ہوگا تو انہی کی اقامت گاہ پر کم از کم دو تین روز کا قیام ضرور ہوگا۔ محترمہ ادا جعفری صاحبہ نے اشفاق احمد خاں صاحب ، سید فخرالدین بلے اور حنیف رامے اور احمد ندیم قاسمی صاحب کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا ، لاہور میں اپنے قیام کے دوران ان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے قصے بیان کیے اور ان سب کے لیے دعا فرمائی۔ مجھ ہماری والدہ مہر افروز بلے صاحبہ کی اور صدیقہ بیگم سے محترمہ بانو قدسیہ صاحبہ کی خیریت دریافت کی۔ میری صدیقہ بیگم کی فرمائش پر محترمہ ادا جعفری صاحبہ نے اپنا کلام بھی عطا فرمایا۔
جب اشفاق احمد خاں صاحب ، سید فخرالدین بلے اور حنیف رامے کے اس جہان فانی سے کوچ کرجانے کا موضوع چھڑا تو محترمہ صدیقہ بیگم پاکستانی نے آنس معین کے چند اشعار پڑھے ، ان میں سے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرما لیجے ۔
نہ تھی زمین میں وسعت ، مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج ، مجھے دیا لکھنا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنس معین کے ذکر اور ایسے کرب سے لبریز اشعار کے بعد ماحول پر افسردگی چھا گئی ۔
محترمہ صدیقہ بیگم سیوہاروی لکھنوی ہندوستانی کا آبائی وطن تو سیوہارہ ضلع بجنور ہے۔ ان کی ولادت انیس سو پچیس میں لکھنؤ میں ہوئی ۔ ان کے والد بابو شفیع احمد وارثی ایک مال دار اور خوشحال زمیندار تھے۔ ابھی صدیقہ بیگم سیوہاروی لکھنوی ہندوستانی کمسن اور شیر خوار ہی تھیں کہ ان کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ انہیں اپنے بھائی اخلاق احمد وارثی سے بے حد لگاؤ تھا۔ محترمہ صدیقہ بیگم سیوہاروی ، لکھنوی ، ہندوستانی صاحبہ الہ آباد میں قیام کے دوران کچھ عرصہ اردو جریدے فسانہ ، الہ آباد کی مجلس ادارت میں بھی شامل رہیں جبکہ آواز نسواں ، نیا راگ کے نام سے رسالہ بھی جاری کیے جو زیادہ عرصے تک نہ جاری رہ سکے جبکہ نورس کے نام سے جو جریدہ جاری کیا اس کے محض دو شمارے ہی منظر عام پر آسکے ۔ لہذا ان کی ادارت کا دورانیہ مختصر بھی ہے اور کسی طرح سے بھی یا کسی انفرادیت کے باعث قابل ذکر بھی نہیں البتہ تاریخی حقائق پر مبنی ضرور ہے, صدیقہ بیگم ہندوستانی کی شادی تقسیم ہند یا قیام پاکستان کے ایک ماہ بعد جناب اطہر پرویز سے ہوئی ۔ ان کے شوہر نے اپنی زوجہ محترمہ کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ گویا کہ پہلے بھائی اور بعدازاں شوہر کی جانب سے راہنمائی کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رہا۔ جناب اطہر پرویز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر تھے۔ دیگر نامور ادبی شخصیات کی طرح پروفیسر ڈاکٹر اسعد بدایونی اور ڈاکٹر فوق کریمی علیگ سے بھی محترمہ صدیقہ بیگم ہندوستانی اور جناب اطہر پرویز کے بہت اچھے مراسم رہے۔ انیس سو چوراسی مارچ کی دس تاریخ کو جناب اطہر پرویز کی وفات ہوگئی۔ محترمہ صدیقہ بیگم سیوہاروی لکھنوی ہندوستانی کے لیے اپنے شوہر کی وفات کا صدمہ ناقابل برداشت تھا لہذا محترمہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج اور لاچار ہوگئی تھیں۔ زندگی کے آخری چند برس میں تو محترمہ صدیقہ بیگم سیوہاروی لکھنوی ہندوستانی کی یادداشت بری طرح متاثر ہوچکی تھی۔ ستمبر ، سن دو ہزار بارہ کی انتیس تاریخ کو علیگڑھ میں سکونت پذیر محترمہ صدیقہ بیگم لکھنوی ہندوستانی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئیں
صدیقہ بیگم پاکستانی اور صدیقہ بیگم ہندوستانی
تحریر: ظفر معین بلے جعفری