میرے ایک مسودے میں ”اسکول“ کے الف کو انہوں نے کاٹ کر ”سکول“ کردیا۔ میں اُن کا احترام بھی کرتا ہوں ، اور اُن سے ربط و ضبط بھی۔ مگر میں اُن کی بات سے تلملایا بہت ، شاید میں نہ تلملاتا ، اگر وہ اپنے کئے پر پیہم اصرار نہ کرتیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ مضمون چھپ گیا لیکن ”اسکول“ کے الف کا تنازعہ ہمارے مابین اب بھی باقی ہے۔ دیکھئے آگے چل کر کیا ہو؟ فی الحال تو انہیں ایک بڑی مشکل میں مبتلا کررہا ہوں کہ اس بحث میں ، وہ کسی طور بھی میرے اسکول کی املاءکو اپنے نقطہ نظر کے مطابق نہ کرپائیں گی۔
سن 2003 تقریباً وہی احوال تھا ، جو پہلی ملاقات میں علامہ اقبال سے رشید احمد صدیقی کا تھا۔ بات صرف اتنی ہے ہم جو اصنام خیال تراشتے ہیں ، وہ دراصل ہمارے ذہن کے بت خاتوں میں ، ہمارے اپنے ہی تراشے ہوئے پیکر ہوتے ہیں۔ سچ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ حقیقت وہی ہوتی ہے جسے ہم دیکھتے اور برتتے ہیں۔ میں نے سمجھا تھا ، ایک کلفت گردن ، کوئی پھوں پھاں شخصیت ہوگی۔ مصنوعی لب و لہجے سے مزین ، تیز و طرار …. یہ سب میرے خیالات اس لئے بھی تھے کہ میں خودثُمَّ لاہوری ہونے کے سبب ، چوہدری برکت علی اور ان کے تمام خاندان کے اعزاز و اکرام کو اچھی طرح جانتا تھا ، اور مجھے معلوم تھا کہ عہد اورنگزیب کے بعد پنجاب کی سکھ حکومتوں کے ادوار میں بھی یہ لوگ بڑے باوقار ہوکر رہے تھے لیکن سچ یہ ہے ، صدیقہ بیگم سے اس پہلی ملاقات میں ، مجھ پر کھلا۔ ادبی دنیا میں ایسے اچھے انسان بھی ہوتے ہیں۔ شفاف ذہن ، سادہ اطوار اور بے ریا …. ہر طرح کے تعصبات سے دور …. دیکھو تو سرسوں کی دھانی جیسے خوش نما ، ملو اور پاس بیٹھو تو لگے سکھ چین کا کوئی سایہ ہو۔
میں ،2005 ءمیں ، لاہور ڈیفنس کلب میں ، سید بابرعلی شاہ کے مہمان کی حیثیت سے ایک پورا عشرہ قیام پذیر رہا ،میرے وہاں قیام کا سبب کچھ ایسا ہرگز نہ تھا کہ وہ وہاں مجھ سے اور ماہ طلعت سے بار بار ملنے آسکتیں۔ پھر بھی ازراہِ کرم کئی بار آیا کیں۔ نہ صرف خود بلکہ اپنی دانش ور اور سکالر دوست بشریٰ وحید اور ساجدہ ہمایوں کو بھی ہمراہ لاتیں۔ حالانکہ میرا وہاں یہ قیام ، خالصتہً ایک غیر ادبی حوالے سے تھا۔ جتنی دیر بیٹھتیں ، ادب اور تاریخ لاہورپر گفتگو ہوتی رہتی۔ میں نے اس دوران ان کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی دیکھا ، وہ صاف گو ہونے کے ساتھ ساتھ ، حفظ مراتب کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ ہم نے بہت سے اہل ادب کو دیکھا ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں ، اُن کے ذراسا قریب ہوجائیے ، وہ پورے پاﺅں پسار لیتے ہیں۔ کیا آپ نے اپنے اس عہد کی اُن دانش ور خصوصاً قلم نگار خواتین کو نہیں دیکھا ، جو کانفرنسوں ، مشاعروں اور مذاکروں کے اجتماع میں ذرا سی دیر میں حال سے بے حال ہوجاتی ہیں ، میں نے صدیقہ بیگم کو ، ہر مجلس میں ، باوقار خاتون کے روپ میں دیکھا ہے۔ اُن کا ہر وقت کا اٹھنا بیٹھنا مَردوں کے ساتھ ہے …. کنوارے ، دوہاجے ، بیاہے ، لڑکے بابے ، اچھے برے ، اونچی نیچی عمر والے ، سب کے درمیان اُن کا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا ہے۔ مجھ جیسے ’باون تولے پاﺅ رتی‘ نپی تلی زبان بولنے والے کا بھی اُن سے مکالمہ رہتا ہے اور منو بھائی جیسے کھلے ڈُلے آزاد گفتاروں سے بھی۔ انہوں نے گوارہ یا ناگوارہ کب اور کیا کہا ، وہ خود ہی بتلائیں گی ، لیکن ہنس ہنس کر ایک جملہ منو بھائی کا انہوں نے سب کو بتلایا ہے۔
کہتیں تھیں …. ایک بار میں نے کچھ دوستوں کو دعوت پر بلایا ، اوپر کی منزل تھی۔ زینے پر چڑھتے ہوئے منو بھائی بولے: صدیقہ ہن تے توں بھی کوٹھے والی ہوگئی ہے۔“
لاہوری ادیبوں کا ، وہ صحافی ہوں ۔ شاعر یا نقاد ، صدیقہ بیگم کے سجائے ہوئے دسترخوان پر آنا جانا عموماً لگا ہی رہتا ہے۔ یوں تو تمام لاہور کھانے پینے کا متوالا ہے۔ رات کو ، جو فٹ پاتھ ، پیدل چلنے والوں کی گہما گہمی سے بچ جاتے ہیں ، انہیں راتوں کے وقت یہ فوڈ اسٹریٹ بنالیتے ہیں۔ ان پامال روشوں پر بھی یہ لاہور کے چٹورے ، اپنی کڑھائیاں ، چولہے سیخیں ، گرما گرم ذائقوں سے لا سجاتے ہیں۔ آخر صدیقہ بیگم بھی تو اصلی تے وڈی ، لاہوری ہیں ، اندرون شہر ، پانی والا تالاب سے لے کر ، مستی ، یکی ، موچی ، بھاٹی ، بازار حکیماں تک پھیلی ہوئی دنیا میں اُن کا بچپن گزرا ہے ، وہ مرغ چھولوں ، نہاری ، پائے ، پراٹھے ، ہریسہ کلچر سے کیوں کر باغی ہوسکتی ہیں۔ ان کے دوستوں کا ، یہ قافلہ پندرہ بیس دن بعد صدیقہ بیگم کا اشارہ پاکر کہیں نہ کہیں ضرور آملتا ہے ، مگر میں ، اور ماہ طلعت زاہدی دونوں حلفاً کہتے ہیں ، ہم اس لذت گناہ سے اب تک محروم چلے آتے ہیں اور یہ گناہ ، ثواب کا جھنجھٹ بھی ہم نے ایک فوڈ بائبل ، Food that harms , food that heals پڑھ کر خود ہی پالا ہے ، نہ ہم بار بار انگلستان جاتے ، نہ یہ ‘عذاب“ اپنے ساتھ لاتے …. صدیقہ بیگم کے دسترخوان کا لطف اٹھایا کرتے۔
ہم نے ، ان سات آٹھ برسوں میں صدیقہ بیگم سے کئی ملاقاتیں کیں ، دو بار ہاں فقط دو بار وہ ہمارے گھر ملتان بھی آئیں ، اپنے ہمراہ ، میری استاد زادی عطیہ سید کو بھی لائیں۔ دو چار دن ، ان ملاقاتوں میں اچھے گزرے ، صدیقہ ایک شاندار شخصیت کی مالک ہیں۔ ان کا طرز زندگی ، ہماری اشرافیہ کی بلند ترین سطح سے ہم آہنگ ہے ، وہ بڑے سائز کی پروقار گاڑیاں ، اپنے زیر استعمال رکھتی ہیں۔ شوفر ، ڈرائیور ، خان ساماں ، کمرے کے درواز سے ہمہ دم لگے، حاضر باش ، مامائیں ، نرسیں ، اردگرد اُن کے یہ سب کچھ نظر آتا ہے۔ اُن کے گھر جاﺅ تو اُن تک پہنچنے کے لئے ، کئی دالانوں ، راہداریوں اور دروازوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سب شان و شوکت کے باوجود ، تعلقات میں ، اخلاص مندی کا یہ عالم ہے کہ اپنے دوستوں کو، اگر بستر پر بیٹھی ہوں تو وہاں اندر بلالیتی ہیں ، ڈرائنگ ، روم سٹنگ کے مصنوعی طرز عمل سے وہ عموماً آزاد رہتی ہیں۔ لاہور کی پرانی حویلیوں کے طرز زندگی نے انہیں اس قدر مضبوط بنادیا ہے کہ نئی دنیا کے تکلفات اُن کا ، ان کے تہذیبی سرمائے سے ایک شمہ تک اڑا نہیں سکتے۔
لاہور کااپنا ایک تہذیبی پس منظر ہے جو مغل عہد سے متواتر چلا آتا ہے۔ خاص طور پر یہ پہچان ، اُن خاندانوں میں زیادہ ہے جو اندرون شہر حویلیوں کے رہنے والے ہیں ، خواہ وہ اب کہیں بھی بستے ہوں۔ تواضع ، مہمان نوازی ، مہمان کے آگے بچھائے گئے دسترخوان کی وسعت ، صبح کی لسی ، دہی کلچے اور رات کو سادہ خشک چاول کا ، اور گوشت کے بغیر کھانے کو ہاتھ نہ لگانا ، ان لوگوں کا خاصہ ہے۔
سن 1962 ءمیں بچوں کے ادب پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا چاہ رہا تھا۔ میاں ایم اسلم سے ملنے گیا ، مجھے اُن کی قلعہ لاہور سے ملحق علاقوں میں واقع حویلی میں جانے کا اتفاق ہوا ، اُن کے ہاں یہ سب منظر مجھے مصور نظر آئے ، وہ اپنے گلے میں ایک دوربینی کیمرہ ڈالے ، بیٹھے تھے۔ بچوں کے لئے لکھی گئی اپنی کہانیوں کے بارے میں تفصیل سے بتلاتے رہے ، اور فرمایا کئے یہ سب بچے ہماری انہی حویلیوں کے پروردہ کردار ہیں جنہیں آپ میری کہانیوں میں متواضع ، خلیق ، انسان دوست اور ادب شناس پیکر میں جگہ جگہ پائیں گے۔ اب میں سوچتا ہوں ، انہی مغل طرز کی قدیم حویلیوں سے ایک یہ بچی بھی ، برکت علی چوہدری مرحوم کے دامن تربیت سے فیض پاکر اٹھی ہوگی ، جو اب خیر سے سترے بہترے کے قریب آپہنچی ہے۔* خدا اس کو صحت و سلامتی سے سرفراز کرے تاکہ وہ اپنے بزرگوں کی ادبی میراث کی حفاظت کرتی رہے۔
چوہدری برکت علی مرحوم بھی فی الاصل ادیب نہ تھے لیکن ادب و تہذیب کا ایسا چسکا انہیں تھا کہ انہوں نے اپنے وسائل کو ہمیشہ ادب و تہذیب کے فروغ کے لئے صرف کیا ، یہ ”ادب لطیف“ بھی اُنہی کی اک بنائے خیر سے ہے ۔آج جسے صدیقہ بیگم ، باوجود ادیب و انشاءپرداز نہ ہونے کے برسوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ زمانے کی تند و تیز لہریں ، اس بحر کے کئی سفینوں کو اپنی تہہ میں لے ڈوبیں ، نیرنگ خیال ، ہمایوں ، ادبی دنیا ، تشکیل ، افکار، فنون ، لیل و نہار ، نیا دور ، یہی سب ہمارے سامنے کی باتیں ہیں ، کہانیاں ہوگئیں۔ ادب لطیف کو خدا نظر بد سے بچائے ، یہ نظر بند کسی ٹونے ٹوٹکے سے دُور نہیں ہوئی ہے، ادب لطیف کی بقاءکا راز صدیقہ بیگم کا اپنے ارادوں میں راسخ ہونا بھی ہے اور یہی عزم راسخ انہیں ، بنت بطوطہ ، بنائے پھرتا ہے۔ کبھی وہ Benelux ویزہ پر ہوتی ہیں ، کبھی شنگوئین پر ، برطانیہ ، فرانس اور ترکیہ آنا جانا تو انہیں شاید بازار حکیماں سے گرین ایکڑ تک کے سفر سے زیادہ نہ لگتا ہو۔ بینالکس میں بہت سی باتیں ، اُن میں اپنی جیسی ڈھونڈتا ہوں تو اس سفر دوستی میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے۔ ہرچند کہ اس قدر مشترک کے معاملے پر ایک مرتبہ ہم میں اور اُن میں مجادلہ ان سطور کی اب اشاعت ،مارچ2019 ءتک یہ مدت اور بڑھا دیکھئے ،اولاً یہ مضمون پانچ سال پہلے چھپا تھا۔
ہوتے ہوتے رہ گیا ، وہ بولیں ، ماہ طلعت تساں ساڈے نال ترکیہ کیوں نہیں جاندے ہو؟ میں نے ماہ طلعت کی ترجمانی میں کہا: صدیقہ بیگم آپ کا تو قول ہے ، ”میں تے مزنگ چونگی نا جانواں بغیر سامان دے نال“ ، آپ ہم جیسے سادہ بار لوگوں کے ساتھ کیا سفر کریں گی ، جن کے ہاتھوں میں لٹکا ہوا صرف ایک سفری تھیلا ہوتا ہے اور نکل پڑتے ہیں۔ پھر ہم کہ سستے سے سستے ہوٹل کی تلاش میں اجنبی ملکوں کے نامانوس شہروں میں ، گھنٹوں گھنٹوں بِتا دیتے ہیں ، اور آپ کہ پہلے سے انٹرنیٹ کے ذریعے ، چار پانچ ستاروں ، سوئمنگ پول والے ہوٹلوں میں ، گھر بیٹھے ہی ، نکلنے سے پہلے ، اپنی رہائش کا بندوبست کرلیتی ہیں۔ اس جواب پر وہ یقینا ناآسودہ سی ہوئیں ، ہم نے پھر انہیں حیل و حجت کے ساتھ آخر مناہی لیا۔
جو شخص صاف گو ہو ، باطن اُس کا دھلا دھلایا ، نکھرا ہوا سا رہتا ہے ، اس طرز عمل سے اُس کی روحانی بالیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ میں نے ان گزشتہ کئی برس کی ملاقاتوں میں محسوس کیا ، وہ روح کے براہ راست مطالعے کی طرف مائل ہوتی جاتی ہیں۔ خوابوں کے اسباب جاننے اور ان کی تعبیر معلوم کرنے کا میلان بھی ان میں بڑھا ہے۔ وہ تنہائی کے لمحوں میں ، اپنے باغ کے کسی گوشے میں ، درختوں کی خاموشی اورپتوں کے سکوت میں ، ایک گیان کی سی حالت میں محو ہوجاتی ہیں۔ یہ سب باتیں انہوں نے کبھی نہیں بتلائیں مگر اُن سے کئے گئے اکثر مکالموں کے دوران مجھے محسوس ہوا ، وہ تحلیل نفسی کی سچائی پر یقین کرنے لگی ہیں۔ ممکن ہے اپنے آپ کو جاننے اور سمجھنے کی اس راہ میں انہوں نے وہ سب کچھ پالیا ہو جسے بہت سے لوگ ایک بڑی مدت عمر کے باوجود بھی نہ پاسکے ہوں۔ روحانین شرق و غرب کے صوفیانہ افکار پر ، ان کے مکالمات سے مجھے اندازہ ہوا ، وہ موجود سے ، غیر موجود کی تلاش کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ان سے اپنے بعض مکالمات کے درمیان مجھے محسوس ہوا ، وہ یونانی ادب کی دیوی سیفو کی طرح رعنائی وجود کے اقرار کی بھی قائل ہیں ، یہ اِدراک انسان کو انفرادیت خیال کی طرف لے جاتا ہے۔ ادب لطیف کے ٹائٹل پر ، بعض دفعہ وہ ایسے چونکا دینے والے ، اچھے خیالات اٹھاکر لارکھتی ہیں جو فنون لطیفہ میں رنگ کاری و معجزات قلم کی تاثیر پر دلالت کرتے ہیں بلکہ خود ادب لطیف کے الفاظ کی نوع بہ نوع ترقیم بھی ان کے ماورائے نظر حسن کی تلاش کا سلیقہ معلوم ہوتی ہے چونکہ صدیقہ بیگم نے انگریزی کے قدیم و جدید ادب ، فنون لطیفہ ، رقص ، مصوری اور موسیقی کے تمام تر تاثراتی عمل سے اکتساب فیض کیا ہے اور وہ ان علوم و فنون کے ذریعے یہاں آنے والی فلسفیانہ جہت نفس مدرکہ کی طاقت کو بہ دل و جاں تسلیم کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے ، حنیف رامے کے انگریزی ناول جیسی نئی کائنات کی تشکیل اور تجدید عوالم کے نظریے کی طرف بھی ان کا رجحان بڑھتا جاتا ہے۔ اسی خود آگہی کا نتیجہ ہے وہ الحمراءمیں علی الاعلان اپنی سترویں سالگرہ کا جشن مناتی ہیں اور بانو قدسیہ کا اشارہ پاکر ان کی اَسّی ویں سالگرہ کا کیک بنواتی ہیں* ، موم بتیاں روشن کرتی ہیں۔ حالانکہ ہمارے اس بیمار معاشرے کی عورت ایسی فراخ دلی کا ثبوت کم ہی دے پاتی ہے۔ بیگم حجاب امتیاز علی کے انٹرویز میں نے دیکھے ہیں ، ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کئے گئے سوالات کا جواب ہمیشہ یوں ملتا …. ”یہ سوال نہ کیجئے تو بہتر ہے“ …. مگر اُن کی وفات حسرت آیات کے بعد سارے عالم کو معلوم ہوا کہ ان کا سنہ ولادت کیا تھا؟ برخلاف اس کے کشور ناہید نے جسم النساءمیں وقف مطلق کے حوالے سے ایک نظم لکھ کر اپنی عمر کے تعین پر تفاخرانہ اظہار کیا۔ میں سمجھتا ہوں ، صدیقہ نے اپنا یہ جشن ولادت لاہور کارپوریشن کے رجسٹر پیدائش کے مطابق ہی کیا ہوگا ، لیکن کبھی کبھی پرچیاں غلطی سے بدل بھی جاتی ہیں۔کسی کا اندراج کسی کے خانے میں جاپڑتا ہے۔ یہ وسوسہ مجھے اس لئے محسوس ہوا کہ صدیقہ بیگم ، اپنی ساٹھ کاٹھ ، اپنے رنگ ترنگ اور قدو قامت کی عمدہ ترتیب کے ظاہری پیکر میں ، اتنی مِسُن نہیں لگتیں۔ شاید کہ صحافتی ادب میں، اپنا ادارتی امتیاز قائم کرنے کے لئے انہوں نے ایسا کیا ہو ، ممکن ہے جب ”ادب لطیف“ کی پچھترویں سالگرہ منائی جارہی ہو ، کوئی نقاد ادب ،یا ہمارا دوست اُن کا دیرینہ رفیق ناصر زیدی ان کے اس امتیاز کو بھی زیر بحث لے آئے۔
اس این و آں سے ہٹ کر کہتا ہوں ، صدیقہ بیگم کے جوہر کردار کے کچھ اور زاویے بھی ہیں جو انہیں اپنے معاصرین سے ممتاز کرتے ہیں۔ وہ بہت پرامید شخصیت ہیں ، اعتماد ذات سے ہمہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت ،بانوباجی بھی مرحوم ہوئیں۔
وقت مسلح ، بے تدبیری ان کے عمل اور بے یقینی ان کے لہجے سے کبھی ظہور میں نہیں آتی ، وہ پراعتمادی کے ساتھ مردانہ معاشرے میں گھل مل جاتی ہیں۔ اگر میں غلطی پر نہ ہوں تو کہوں ، عورتوں سے کہیں زیادہ وہ مَردوں کے لئے قابل احترام شخصیت ہیں۔ ادبی و علمی گھرانے سے ، وجہ نسبت ، صحافت ، ادب اور اندرون لاہور کی تہذیبی وراثت کے طفیل صدیقہ بیگم کے حلقہ احباب میں ، مرد اہل قلم بھی اُسی طرح شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ، جس قدر کہ عورتیں ، ممکن ہے یہ عورتیں کم اوربہت کم ہوں اورمَرد زیادہ اوربہت زیادہ ہوں؟
صدیقہ بیگم کا یہ طرز عمل انہیں بھی آسودہ قلب رکھتا ہے ، ادب لطیف کو بھی تازہ تنفس کے جھونکے دیتا رہتا ہے۔ مجھے یقین ہے ، ادب لطیف کی یہ حیات پذیر حالت ، اُسے بہت عرصے تک زندہ رکھ سکے گی۔ یہ بات تب کی ہے ، جب میں ناصر زیدی کو ان کی فرمائش پر ”اثراتِ انیس“ کے عنوان سے ادب لطیف کی اشاعت کے لئے ، اپنا مقالہ حوالے کرنے گیا تھا۔ مجھ سے 1972ءمیں، انہوں نے یہ کہا تھا۔ ممکن ہے انہیں نہ یاد ہو ، انہوں نے یہ کہا تھا۔
”ادب لطیف“ کو چوہدری برکت علی کا گھرانہ دم آخر تک قائم رکھے گا ، وہ ادب اور آرٹ کے دیوانے لوگ ہیں۔ یہ کوئی38 برس پہلے کی بات ہے۔* جب 51۔سرکلر روڈ پر ، اوپر سیڑھیاں چڑھ کر ، اِس دفتر کو راستہ جاتا تھا ، میرے دوست ناصر زیدی اُس وقت بطور مدیر ادب لطیف کے آئندہ شمارے سالنامہ 1973ءکی تدوین میں مصروف تھے ، وہ تن من دھن سے ادب کے ساتھ برسوں سے وابستہ چلے آتے ہیں ، صدیقہ بیگم برا نہ مانیں تو کہوں ، ادب لطیف کو اب بھی ناصر زیدی وارفتہ ادب جیسے لوگوں سے کچھ کام لینا چاہئے۔
تمام ادبی صحیفوں کی صحت و سلامتی کے خواہاں ، ہم سب لوگ ، دل و جان سے چاہتے ہیں کہ صدیقہ بیگم اور ادب لطیف کا یہ زوج تادیر سلامت رہے اور مہر معجل کے مانند ہمارا تازہ اور نوخریدہ ادب اسی طرح فروغ پائے۔ اس فراغت کا یقینی مظہر ، ادب لطیف کا وہ نصب العین ہوگا جو اسے اپنے مضبوط حصار میں اب تک لئے چلا آتا ہے۔
*اس کتاب کی اشاعت۹۱۰۲ءتک یہ مدت اور بڑھالیجئےصدیقہ نے بغیر کسی جانب داری ، خانہ بندی و حلقہ پسندی کے ہر چھوٹے بڑے نام کو اپنے رسالے میں جگہ دی۔ بہت کم مسودے ایسے ہوں گے جنہیں انہوں نے ناقابل اشاعت کہہ کرواپس کیا ہو ، یا کسی کو شخصی اختلاف کے سبب رد کردیا ہو۔۔۔۔ یا شخصی اختلافات کے مذاکروں کی اشاعت سے لطف اٹھایا ہو۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...