اردو ادب کا شاید ہی کوئی قاری یا طالب علم ایسا ہو جوصادق کی شخصیت اور کارناموں سے متعارف نہ ہو۔میرے ایم۔اے کی نصابی کتابوں میں مرتبین نے کئی جگہ ان کے حوالے اور اقتباسات دیے تھے جو ان سے میری غائبانہ ادبی شناسائی کے رشتے کو استوار کرگیا۔جب میں حصولِ علم کی خاطردہلی آیا تو حسنِ اتفاق سے اسی یونیوسٹی میں داخلہ پایا جہاںموصوف برسوں تک اپنی تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد سبکدوش ہوچکے تھے۔اس طرح جوں جوں راقم ان کی علمی و ادبی ذکاوت، زبان دانی،سخن فہمی اوروسیع النظری سے واقف ہوتا چلا گیا اتنی ہی میری حیرت و استعجاب کی انتہا بھی بڑھتی گئی اور پھر آہستہ آہستہ یہی چیزمجھے ان کی صلاحیت و لیاقت کا قائل بنا گئی۔پروفیسر صادق کئی معنوں میں متنوع صفات کی حامل شخصیت ہیں۔وہ بیک وقت اردو اور ہندی کے مقبول شاعر ،نقاد اور مزاح نگارہیں۔اس کے علاوہ ڈراما نویسی اورفنِ مصوری میں بھی انھیں کمال کا جوہر حاصل ہے۔صادق کو زبان،علم،فن،ادب اور آرٹ پر کامل عبور ہے۔اتنا ہی نہیں موصوف برسوں تک ملک کی کئی بڑی تعلیمی دانش گاہوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں جس میں دہلی یونیورسٹی بھی قابل ذکر ہے۔انھوں نے جس طرح ایک قلم کار کی حیثیت سے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اپنی قابلیت اور فنی جوہر کے گہرے نقوش چھوڑے ہیںاسی طرح ایک استاد کے بطوربھی انھوں نے اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھائے ہیں۔پرفیسر صادق کی پیدائش اجین میں ہوئی۔عنفوانِ شباب کا کچھ وقت مہاراشٹرا میں گزارا لیکن جب دہلی آئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے۔اگر اس وقت دبستانِ دہلی میں اردو زبان کے دو چار بڑے نام لیے جائیںجواس کے چار مضبوط ستون قرار دیے جا سکتے ہیں توان میں ایک نام صادق کا بھی آجاتا ہے۔ان کے علاوہ بھی دہلی میں کئی قلم کار اردو زبان کو صحیح سمت و رفتار عطا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں تاہم مذکورہ شخصیات کے کارناموں اور خدمات کی فہرست لمبی چوڑی ہے جو انھیں سرفہرست رکھنے کا جواز پیدا کرتی ہے۔ صادق کی اردو میں اب تک پچیس کے قریب کتابیں شائع ہو چکی ہیںجو مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔اردوکا کوئی اہم موضوع ان سے اچھوتا نہیں رہا۔انھوں نے شاعری(غزل،نظم)،پیروڈی،مزاح،تحقیق،تنقید ،ڈراما اور افسانہ وغیرہ میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔علاوہ ازیں پرفیسر موصوف اردو زبان کے تعلق سے کئی ڈاکومینٹری فلمیں بھی بنا چکے ہیں۔اردو،ہندی،فارسی ،مراٹھی،سنسکرت،سندھی،پنجابی اور سرائیکی زبانوں کے سیمیناروں میں انھوں نے کئی لیکچر دیے ہیں۔ان کے بعض لیکچرز سے میں بھی فیض یاب ہوچکا ہوں۔صادق مذکورہ زبانوں کے اد ب سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیںجس کی جھلک ان کی تخلیقات میں بھی صاف نظر آتی ہے۔خصوصاً ہندی ،فارسی اور سنسکرت الفاظ کی آویزش و آمیزش سے ان کی تحریریں معنی آفرینی سے لبریز ہیں۔اعزازات و انعامات کی کبھی انھوں نے پرواہ کی اور نہ ہی کبھی اس کی چاہ رکھی بلکہ ہمیشہ ہمہ تن مخلصی کے ساتھ اردو ادب کی خدمت کرتے رہے۔مجموعی طور پر صادق کی ادبی خدمات قابل ِ قدر ہیں جس پر جتنی خامہ فرسائی کی جائے کم ہے۔
افسانوی مجموعہ’’ایک لفظ کی موت‘‘پروفیسر صادق کے ساٹھ اور ستّر کی دہائی کے درمیان لکھے گئے بارہ میں سے سات دستیاب شدہ افسانوں کا انتخاب ہے۔جو ڈاکٹر عشرت ناہید کی محنت اور تلاش و جستجو کاثمرہ کہے جا سکتے ہیں۔صادق کی افسانہ نگاری کے بارے میں بہت کم لوگ واقف ہوں گے اور کوئی شک نہیں کہ یہ افسانے اردو دنیا میں چونکا دینے والے ثابت ہوں گے۔صادق نے اس کتاب کے بیشترافسانے اردو کے بلند پایہ افسانہ نگاروں کرشن چند،خواجہ احمد عباس،جوگندر پال،سلمیٰ صدیقی اور کملیشور کے ساتھ اسٹیج پر بھی پڑھے ہیں۔جوایک مخصوص دور اورنہایت مختصر مدت میں لکھے گئے ان افسانوں کی دلالت کرتے ہیں۔عشرت ناہید کا صادق کی کہانیوں کو’’صادق کی تجرباتی کہانیاں ‘‘کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ اسے مرتبہ کی مطالعاتی بصیرت اور تجزیاتی عنصر کا پہلو واضح ہوتا ہے۔’لایعنی‘،’ایک لفظ کی موت‘،’معنی کی پیاس‘،’زنگ‘،’ایک اور موت‘،’پاش پاش‘اور’کھلنایک‘جیسے افسانے پروفیسرصادق کی افسانوی جہات کو بے حد خوبی سے نمایاں کرتے ہیں۔ یہ افسانے بین الاقوامی شہرت یافتہ رسائل ’شب خون‘،’اوراق،اور’کتاب‘میں چھپے ہیں اور ناقدین سے دادِ تحسین بھی پا چکے ہیں۔
اس کتاب کا اوّلین افسانہ’’لایعنی‘‘ ہے۔’’لایعنی‘‘افسانہ ہے دم توڑتی،سِسکتی،بے اطمینانی،غیر یقینی،احساسِ کمتری سے بھری زندگی اور اس کی ناقدری کا۔اس افسانے میں انسانی زندگی کو ایک سلگتے سگریٹ سے اٹھتے دھوئیں کی مانند دکھایا گیاہے جس کا وجود ہَوا میں بکھر کر فنا ہوجاتا ہے۔اس کا مرکزی کردار واحد متکلم پوری طرح احساسِ زیاں میں مبتلا نظر آتا ہے۔انسان کے وجود اور کائنات کی حقیقت پر سوال اٹھاکر دراصل وہ اپنی بے بضاعتی اورتنگ دلی کا ثبوت دے رہا ہے۔ لایعنیت کو اپنے رگ و ریشہ میں بسا کر وہ زندگی کی معنوی حقیقت کو سمجھنے سے عاری نظر آتا ہے۔ورنہ اس میں فہم و فراست ہے،محبت کا احساس ہے،خوب و زشت میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہے،انسان کے فطری حسن کی پرکھ ہے اور تو اوراس کی شخصیت کئی جہتوں سے مزین بھی ہے۔اصل میں اس کی’’ غیر حالتی حالت‘‘ کا ذمہ دار ہمارا معاشرہ ہے جو اس کی بے چینی اور زندگی سے نفرت کا سبب بن جاتا ہے۔بعض لوگ بداخلاق ہوتے ہیں کہ احسان کرنے پر شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ،یہاں تک کہ حاجت روائی کے بعد حق مارنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔دراصل معصوم اور بھلے لوگوں کا فائدہ اٹھانے والا یہ معاشر ہ ہی ہے جو ان کے خیالات اور احساسات کی پامالی اور ان میں منفی اثرات مرتب کرنے کا ضامن بن رہا ہے۔اس افسانے میں بھی واحد متکلم کو کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔جن سے تنگ آکر وہ خودکشی کرنے کی کبھی خاطرروڑ رولر کے سامنے لیٹ جاتا ہے ،توکبھی پتھر سے سر پھوڑنا چاہتا ہے،کبھی اتھاہ سمندر میں کود پڑتا ہے ،تو کبھی ٹرین کے نیچے آکر اپنی زندگی کا خاتمہ کر نا چاہتاہے۔ اس کے بعد وہ پھر اپنی صحیح و سالم حالت میں آجاتا ہے۔ایسا تو ممکن نہیں کہ انسان خود کشی کی غرض سے سمندر میں کود جائے تو وہاں سے بچ کر نکل آئے یا ٹرین کے نیچے آکربھی بچ جائے ،ایسا اتفاق ایک بار ہو سکتا ہے بار بار نہیں۔یہاں افسانہ نگار کے افسانوی تجربے کا پہلوخوب نکھر کر نظر آتا ہے کہ کس طرح انھوں نے تجریدی اور علامتی فن کا مظاہرہ کرکے افسانے میں معنوی تہہ داری پیدا کر دی ہے۔جب اس کہانی کا مرکزی کردار واحد متکلم ٹرین کے نیچے آکر مر جاتا ہے تو پھر وہ دوبارہ صحیح و سالم حالت میں کیسے آسکتا ہے یہی اس کہانی کے مرکزی تھیم کا پتہ چل جاتا ہے۔دراصل افسانہ نگار نے مذکورہ افسانے میں علامت کے پس پردہ یہ سمجھانے کی سعی کی ہے کہ زندگی اور موت کا سلسلہ وقت ِآدم علیہ سلام سے ہی چلتا آیا ہے جو قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔اس لئے زندگی اور موت کی درمیانی مدت میں اسے آسائشوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گویا اسے زندگی جینے کا سلیقہ کسی بھی صورت میں آنا ہی چاہیے۔اگر دنیا میں ہر انسان انفرادی طور پر مثبت اور حیات بخش سوچ رکھتا تو کیا کائنات کے ہر شخص کی زندگی گل و گلزار نہ بن جاتی۔نیز وہ انسان ہی کیا جوزندگی کی مشکلات اور کٹھن مراحل کا مردانہ وار مقابلہ نہ کر سکے یا جو اس نوعیت کے حالات سے ابھرا نہ ہویا دوسرے معنوں میں ان سے نبرد آزما نہ ہوا ہو۔بصورتِ دیگر خلوت پسند،تنہائی ،کمزوری اور پریشانی کا لبادہ اوڑھا ہوا انسان سماج ، معاشرے اور اپنے آس پاس کے پورے ماحول کے لیے انتشار،تشکیک اورتذبذب کا مرتکب ٹھہرایا جا سکتا ہے۔جو ان حالات سے نہ ڈھل جاتا ہے اور نہ ہی ابھر پاتا ہے چنانچہ زندگی کی اسی ڈگر پر چلتے چلتے وہ اس کی معنوی قدر کو لایعنی عمل میں گذار کر بے معنی اور بے کار بنا دیتا ہے۔وہ سوچوں کا پیچھا کرتا ہے اور سوچیں اس کا،اس طرح وہ زندگی کا یہ عمل موت تک دوہراتا رہتا ہے۔ واحد متکلم شروع سے آخر تک زندگی کو ایک صحیح سمت دینے کی کوشش میں حیران و پریشان رہتا ہے۔تشنگی اور مایوسی آخر تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔وہ نجات پانا چاہتا ہے لیکن اس کو کہیں نجات نہیں ملتی اوروہ آخر تک اسی حالت میں سرگرداں رہتا ہے۔اس کہانی کا خلاصہ یہی ہے کہ انسان زندگی میں مسائل و مصائب سے نجات نہیں پاسکتا۔جن کا سامنا اسے بہر صورت کرنا ہے۔
’’ایک لفظ کی موت‘‘میں زندگی کی قدروقیمت اور اہمیت سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔اس میں جہاں معاشرے کے منفی کردار اجاگر کیے گئے ہیں، وہیں انسان کا دنیاوی مسائل سے تنگ آکراور زندگی سے بیزار ہوکر اسے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانے کے بعد والے نتائج سے بھی آگہی دلائی گئی ہے۔یہاں انسانی زندگی کو بامعنی بتایا گیا ہے لیکن اس کہانی کے مرکزی کردارصادق کے مطابق موت کو گلے لگا کر’وہ ‘زندگی کو بے معنی بنا دیتاہے۔یہی موت انسان کو اس کی ہستی اور وجود کا سبق یاد دلادیتی ہے۔چونکہ اس کو زندگی پیاری ہے اس لئے وہ الیکٹرک وائر کے بجائے نیند کی گولیاں کھا کر آرام سے موت کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔دراصل سختیوں کا سامنا کرنے میں ہی حقیقی زندگی کا راز مضمر ہے۔ا س سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ، وہی زندگی کو بامعنی بنا دیتے ہیں۔اس افسانے میں مختلف جگہوں پر جو گیپ چھوڑا گیا ہے جس کو کسی ناقد نے افسانے کی جدت سے تعبیر کیا تو کسی نے اسے افسانے کی تھیم کی اٹھان کا معنوی عمل قرار دیااور کسی نے اُس زمانے کی طرزِ تقلید۔لیکن اس کے پیچھے اس جملے کی معنوی گہرائی کی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے جو انسان کی باطنی کیفیت کو جنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جس دور میں افسانہ نگار نے یہ افسانے لکھے ہیں وہ ساٹھ اور ستّر کی دہائی کا دور ہے۔جب ترقی پسند تحریک دم توڑ چکی تھی اور جدیدتحریک یا رجحان کا آغاز ہورہا تھا۔جس میں ایسے افسانہ نگار بھی موجود تھے جو اپنی مستقل شناخت قائم کر چکے تھے ،بعض زندگی کے آخری پڑاؤ پر تھے اور بعض جدیدیت کے رجحان سے وابستہ ہوگئے تھے۔اس لیے ادب میں پیر جماتے اور پَر پھیلاتے اس رجحان میں ہر تخلیق کار اپنے آپ کو منفرد ثابت کرنے کی کوشش میں نت نئے تجربے کرنے لگا تھاجس میں کچھ کامیاب ہوئے اور بعض ناکام ۔بہرحال اس تجربے نے ادیبوں کے لیے تخلیقی راہیں ہمورا کیں۔ اس کتاب میں شامل سبھی افسانے اسی دور کے ہیںجن میں جدید ہونے کے واضح نشانات نظر آتے ہیں۔مزید برآں جدیدیت کے علمبردار رسالہ’’شب خون‘‘میں بعض کی اشاعت ان کے جدید ہونے کی معتبرسند ہے۔ افسانہ’’ایک لفظ کی موت‘‘صادق کے ہم عصر افسانہ نگاروں کے افسانوں سے بہت حد تک منفرد ہے اور کامیاب بھی۔جس میں ان کے معتبر افسانہ نگارکہلانے کے واضح اشارات ملتے ہیں۔
’’معنی کی پیاس‘‘کی ابتدا’’اے لوگو:سنو! ‘‘سے ہوتی ہے ۔اس طرح ابتدائی لفظوں سے ہی اس بات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ افسانہ نگار کوئی واقعہ سنانا چاہتا ہے کسی اہم حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہے اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔اس کہانی میں افسانہ نگار نے فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ماضی اور مستقبل کی صورت حال کو علامتی انداز میں بیان کیا ہے۔ صادق(واحد متکلم) اس کہانی کابنیادی کردار ہے۔جو ماضی میں جھانک کرکرونا،یسوع،گوتم بدھ جیسے کرداروں کو یاد کرکے کہانی کو تقویت پہنچاتا ہے۔دراصل کہانی میں ایساماحول پیدا ہوتا ہے کہ واحد متکلم کے ذہن میںان کرداروں کی زندگی کی تصویریں آنکھوں میں رقص کرتی ہیں۔ رات کا سماں ،کھلا آسماں،خاموش اور شانت ماحول میں اسے ایک کتے کے رونے کی کریہہ آوازیں سنائی دیتی ہیںجو اس کے کانوں اور احساس سے ٹکرا کراسے تکلیف پہنچاتی ہیں۔یکایک اس کے تصور میں گوتم بدھ آتا ہے۔ظاہر ہے گوتم بدھ کو یاد کریں گے تو اس کا فلسفۂ حیات یاد آجاتا ہے۔وہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ’’دنیا مصائب و تکالیف کا گھر ہے….بیماری،ضعیفی اور موت کا گھر‘‘۔مذکورہ جملے سے اس کہانی کے تھیم کو سمجھنے میں بہت حد تک آسانی ہوتی ہے۔اس کو کرونا یاد آتی ہے،اس کی تکلیف،درد ،اذیت اور چیخیں یاد آجاتی ہیں۔وہ وقت اس کے ذہن پرحاوی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔وہ ان یادوں سے نکلنا چاہتا ہے لیکن نکل نہیں پاتا۔صادق کی باتوں سے لگتا ہے کہ ارونا سے اس کا کوئی رشتہ رہا ہے۔شاید ہمدردی کا یا شاید وہ اس کی محبوبہ رہی ہے یا اس رشتے سے بڑھ کرشاید اس کی شریک حیات ۔ارونا کی یادیں اس کا آخر تک پیچھا کرتی ہیں ۔وہ اسے یہ بھی کہتی ہے صادق ’’مجھے بچا لو …صادق مجھے بچا لو…۔‘‘کرونا صادق کوبھکشوؤں کی شیش اور شیریں آوازوں’’بدھم شرنم گچھامی،سنگھم شرنم گچھامی،دھرمم شرنم گچھامی‘‘سے بچانے کو کہتی ہے۔لیکن تیز ہوتی ہوئی بھکشوؤں کی آوازیں ایک جانی پیچانی نحیف سی آواز کو دبا دیتی ہیں۔ پھر یہ آوازیں صادق کو اپنے گرفت میں لینا چاہتی ہیں لیکن وہ ان سے یہ کہہ کر منحرف ہوتا ہے :
’’مجھے نہیں چاہیے تمہاری شرن ….تمہاری سنگھ کی لاش مردہ خور گدھوں کی خوراک بن چکی ہے اور دھرم میںدن بہ دن پھیلتے ہوئے تعفن سے میری کرونا کو متلی ہونے لگی ہے۔
گو آؤٹ۔۔۔بھگوان۔
…. پلیز گو آؤٹ۔‘‘
یہاں افسانے کا مرکزی کردار صادق مذہب سے کیا بھگوان سے بھی ناراض دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ کرونا کی اذیت ناک زندگی میںکہیں نہ کہیں اس کے مذہب کا ہاتھ ہے جو صادق ا سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے۔کرونا کی حالت دیکھ کر وہ اس کی ہست ریکھائیں دیکھتا ہے تاکہ اس کی تقدیر کا اندازہ کر سکے۔ ایسی اذیت ناک تقدیر اس کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔وہ اس کی تکلیف اور درد کو یسوع مسیح کے صلیب پر کیلوں سے ٹھونکے گئے جسم سے مناسبت دیکھتا ہے جو صلیب پر لٹکی سوکھی،بے جان،سمٹی اور زردجسم کے مترداف ہے۔یہاں افسانہ نگاری کی منظرکشی سراہنے کے لائق ہیں۔جس میں انھوں نے یسوع مسیح کو صلیب پر کیلوں سے ٹھونکنے اور پھر اس کے سسکتے،تڑپتے اور سمٹتے جسم تک کے عمل کو کرونا کی حالت سے مماثلت دیکھی ہے۔گویا کرونا کی حالت یسوع مسیح کے اس کرب ناک منظر سے کچھ مختلف نہیں تھی۔یہاں افسانہ نگار بدھ مت مذہب سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔
واحد متکلم کی باتوں میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت صاف نظر آتی ہے۔اس کیفیت کو چھپانے کے لیے وہ دیوار پنڈولم کی ٹک ٹک کی آواز اور حالت کا سہارا لے رہا ہے۔کیونکہ گھڑی بھی ایک علامتی چیز ہے ۔جس کو افسانہ نگار نے افسانے میں استعمال کرکے معنی خیز ی پیدا کی ہے۔اس افسانے میںگھڑی کل،آج اور کل کا استعارہ ہے۔ارونا اس کہانی کی کوئی خاص کردار نہیں ہے بلکہ افسانہ نگار نے اسے محض پلاٹ کو آگے بڑھانے کے لیے تراشا ہے۔اگر چہ پوری کہانی ارونا کی زندگی پر ہی مبنی ہے تاہم واحد متکلم کے ذریعے سے ہی کہانی کا ر کو کہانی بننے کا موقع ملا ہے اس کے علاوہ وہ آج اور کل کے تمام حالات بیان کر رہا ہے اور مزید آنے والے کل کی پیشن گوئی کر رہاہے۔یہ کہانی جہاںانسان کی گٹھن،خوف،دہشت،بدحالی اوربے سروسامانی کا المیہ ہے ، وہیں اس میں انسان کی وحشت ناکی،درندگی،فریب کاری،دھوکا دہی،قتل وخوں،ظلم و تشدد ،ہوس کاری اور جنسی کج روی کا پہلو اجاگر ہوا ہے جس کے باعث زمین تو زمین عرش پر بھی اس کا کردارداغدار نظر آتا ہے۔اب کہیں کوئی جگہ پرسکون اور انسانی اعمال سے صاف و پاک نہیں۔غرض انسانی اعمال سے زمین تو نالاں ہے ہی ،اس کے ساتھ ساتھ جب وہ عرش معلی پر جاتا ہے تو وہاں بھی اس کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ اس کے ہاتھ سرگرانی کے سوا کچھ نہیں آتا۔اس کہانی کے آخر میں واحد متکلم اسی تشکیک و تذبذب میں مبتلا ہوکر لوگوں سے سوالیہ انداز میںمخاطب ہوتا ہے کہ ’’جب زندگی میرا بوسیدہ جسم چھوڑ دے گی تو مجھے مٹی تلے دبا دو گے نا‘‘۔چونکہ وہ خود انسان کے شرمناک کارناموں کے باعث محوِ حیرت ہے اور شش و پنج میں مبتلا بھی ۔اس لیے اس کو بے روح و بے جان جسم بھی محفوظ معلوم نہیں ہوتا۔اتنا ہی نہیں اب وہ دوزخ کی آگ کی لپٹوں سے بھی خوف کھانے لگا ہے جس سے اس کا چہرہ پژمردہ اور روح مضحمل ہوگئی ہے۔جب وہ تصور میں ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے جس کے آگے کوئی آسمان نہیں۔جہاں کا فرش گندہ تھا،دیواریں داغدار تھیں،جہاں تخت معلی دھول سے اٹا پڑا تھا۔وہ رومال نکال تخت معلی سے دھول جھاڑ دیتا ہے۔اس کے اندر اس پر بیٹھنے کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔لیکن بیٹھتے بیٹھتے اس کے قدموں کو کوئی مقناطیسی طاقت روک لیتی ہے۔اس کے بعددو بڑے بڑے سوال اس کی کنپٹی توڑ کر دماغ میں درآتے ہیں۔ بیٹھ جاؤں؟۔۔یا لوٹ جاؤں؟۔اس کے بعد دماغ میں یہ کیفیت طاری ہوتی ہے:
’’گنہگارز میں زاد۔۔۔یہ تخت تیرا مقام نہیں … تجھے تو مہمل زندگی کے بے کنار ریگ زار میںگھونٹ بھر معنی کی پیاس میں تڑپ تڑپ کر اپنے انجام کو پہنچنا ہے۔۔۔گھونٹ بھر معنی کی پیاس میں…تڑپ تڑپ کر….‘‘
اس اقتباس میں طنز اور حقارت صاف جھلکتی ہے۔اس میں طاقت ہی نہیں ہے کہ تخت معلی پر بیٹھے ۔جس میں نہ اس کا ضمیر ساتھ دیتا ہے نہ اس کے اعمال۔جن کے باعث زمین پر رہ کر محو پریشان رہتاہے۔ساتویں آسمان پر اس کو تخت معلی پر بیٹھنے سے یہ کہہ کر منع کیا جاتا ہے کہ تخت تیرا مقام نہیں۔افسانہ نگار نے’’معنی کی پیاس‘‘میں تصوراتی دنیا بسا کر حقیقت کے قریب لے جانے اور اسے شناساکرنے میںہماری رہنمائی کی ہے۔جو عہد حاضر کے انسان کے حالات و مسائل سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ’’معنی کی پیاس‘‘میں فینٹسی کا خوبصوت امتزاج ملتا ہے۔
’’زنگ‘‘ایک سیدھی سادی کہانی ہے۔جس میں ایک نچلے متوسط گھرانے کے ایک فرد کے مسائل کو بڑی عمدگی سے اجاگر کیا گیا ہے۔اس کہانی میں ازدواجی رشتے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ایک عام ملازم جس کی پوری تنخواہ گھر کے اخراجات میں ختم ہوجاتی ہے نیزجومحض ایک جوڑا کپڑے پر ہی قناعت کررہا ہوتا ہے۔ایک دن پارٹی میں جانے کی غرض سے وہ اپنی بیوی نیلوفر سے کپڑے واش کرنے کو کہتا ہے۔نیلوفرگھر کے دیگر کامو ں اورمہمانوں کی وجہ سے کپڑوں کو سکھانا بھول جاتی ہے۔ کپڑے رات بھر بالٹی میں پڑے رہتے ہیںجس کی وجہ سے ان میں زنگ لگ جاتا ہے۔ جو بہت تگ و دو کے بعد ایسڈ سے نکل جاتا ہے لیکن بالآخر ایسڈ بھی اپنا اثر کرکے کپڑوں میں سوراخ کا سبب بن جاتا ہے۔یہی پر کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔جو تجسس کی علامت پیدا کرتا ہے۔نیلوفر کے شوہر کے پاس محض ایک ہی اچھا جوڑا ہے ،جس پر نیلوفر کی بے توجہی کے باعث زنگ لگ جاتاہے،اتفاق سے اس کے شوہر کی اسی دن ایک پروگرام میںدعوت ہوتی ہے۔کپڑوں میں زنگ لگنے کی وجہ سے اس کا شوہرپریشان ضرور ہوتا ہے مگراس پریشانی میں بھی وہ اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے۔یہاں دونوں کے مضبوط ازدواجی رشتے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ کہانی اصل موڑ تب لے لیتی ہے جب کپڑوں میں سوراخ ہوجاتے ہیں۔مگر چونکہ دونوں کی ابتدائی صورت حال سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مزید بات بگڑنے کی گنجائش نہیں تھی۔چنانچہ افسانہ نگار نے جو تجسس کی کیفیت پیدا کرکے کہانی کو ختم کیا وہ کمال کی فن کاری کا ثبوت ہے۔یہی ایک عنصر اس پوری کہانی کا سب سے بڑا حسن ہے۔مجموعی طور پر’’زنگ‘‘کو ایک حقیقت پسندانہ افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
’’ایک اور موت‘‘کی کہانی بھی علامتی ہے اس کہانی کا پلاٹ جس قدر سپاٹ ہے اسی قدر مبہم بھی ہے۔اس کی وضاحت قاری اور نقاد دونوں کے لیے صبر آزما اور مشکل ترین کام ہے۔اگر یوں کہیں کہ یہ کہانی ریاضی کے کسی خشک ترین سوال کا حل تلاش کرنے برابر ہے تو بے جا نہ ہوگا،اور اس طرح حل نکالنے پر اس کی خوشی دیکھنے لائق ہوگی۔یہ کہانی ایک قاری اور نقاد کے اس لیے بھی پر کشش ثابت ہوتی ہے۔کیونکہ علامتی کہانی کے ابہام سے پردہ ہٹانا تجسس آمیز بھی ہوتا ہے اور دلچسپ بھی۔’’رات کی لاش جل چکی تھی‘‘یہ اس کہانی کا علامتی حسن ہے جس کے پسِ پردہ کئی معنی پوشیدہ ہیں۔نہ یہ ایک انسان کی لاش ہے اور نہ کسی جانور کی۔کیونکہ یہاں ’’اس کی لاش‘‘نہیں کہا گیا ہے بلکہ’’رات کی لاش‘‘کہا گیا ہے۔مگر جو سین اس کے بعد کہانی میں پیش کیے گئے ہیں اس سے وحشت اور حیوانیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔’’ایک اور موت‘‘کی کہانی کا یہ ابتدائی مکالمہ پیش کیے گئے بغیر قاری یقینا تردد میں نظر آسکتا ہے :
’’رات کی لاش تقریباً جل چکی تھی
دشاؤں میں بکھری جلتے ہوئے گوشت کی چراندھ، ہڈیوں کے تڑخنے کی آواز اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے پرے گاڑھے گاڑھے دھوئیں کا ایک اڑتا ہوا اژدہا ملائم کرنوں میں چمکنے لگا تھا۔ ٹھیک اسی وقت ایک فطری غنودگی اور جانی انجانی کیفیت میں (وہ) بھاگتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ میں چھوڑ دیا گیا تھا اور تبھی سے ایک مٹ میلی کھال میں تھوڑا سا گوشت اور ہڈیاں لپیٹے اسی بھیڑ کے ساتھ مسلسل بھاگ رہا ہے۔‘‘
’’رات کی لاش تقریباً جل چکی تھی‘‘دراصل یہاںرات کی لاش سے مراد انسان کی ذات کی لاش سے ہے جو رات کے اندھیرے کرب سے گز رہی ہے اور اندر ہی اندر اس کی ذات کو آگ میںجُھلسا رہی ہے۔رات جہاں آرام کی علامت ہے وہیں اس کا اندھیرابھی خوف کی علامت کہا جا سکتا ہے۔مذکورہ بالا اقتباس سے ایک توانسان کی ذات اور خوف کا اندازہ ہوتا ہے دوسرا اس کو انسان کی حیوانیت اور بربریت کے نوحے سے بھی تعبیر کریں تو مبالغہ نہ ہوگا۔اس کہانی میںانسان کو احساسِ تشنگی ہے جو اس کے گوش پوست کو نوچ نوچ کر کھائے جا رہا ہے۔کہانی کار نے اس کیفیت کی وضاحت و صراحت کے لیے بیان میں طوالت اختیار کی ہے۔ذات کی بے قراری اور بے چینی کا سبب موجودہ حالات بھی قرار دیے جا سکتے ہیں،جہاں انسان کے جان و مال کی قدر نہیں ہے،جہاں انسانیت کا خون ہورہاہے اوردرندگی کا ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ روحیں بھی چیخ اُٹھتی ہیں۔جہاںانسانیت کی قدریں پامال ہورہی ہیں اور پناہ لینے کے لیے کوئی محفوظ جگہ تک نہیں۔جہاں ہر ایک اپنے آپ میں گُم ہے،کوئی کسی کے لیے فکر مند نہیں،ہر انسان اپنی ذات میں محصور ہوچکا ہے۔ محرومیت اور تنہائی نے اس کے احساسات کو جکڑ کر رکھا ہے۔آج کا انسان دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں کھو چکا ہے،اس کے اخلاق و عادات بگڑ چکے ہیں،اس میں کڑواہٹ آچکی ہے۔وہ قدروں کو نہیں سمجھتا،وہ اپنائیت سے محروم ہے، وہ فائدے دیکھتا ہے اور نتائج میں یقین رکھتا ہے ۔اس میں ذات کی محزونیت اور کرب کی یہی ایک وجہ ہے۔وہ انہی چیزوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور اس طرح یہ سوچیں آخر تک اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔
افسانہ نگار نے یہاں ایک اچھے پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے کہ سوچوں کا کبھی کوئی انت نہیں ہوتا۔ان کے مطابق:’’کئی اندھیرے اجالے سوچتے رہنے کے باجودکبھی اپنی کسی سوچ کو انت تک نہیں لے جا سکا۔کیوں کہ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ کہیں کسی چیز کا انت نہیں ہوا کرتا۔اپنے انت کے قریب پہنچ کر ہر چیز پھر کسی نئی چیز کا آغاز بن جایا کرتی ہے۔‘‘ان کا کہنا بالکل صحیح ہے کہ ذات کے خلفشار ،تنہائیوں اور محرومیوں سے انسان اپنا دامن کبھی نہیں چھڑا سکتا ،ان کا سامنا ہر حالت میں اسے کرنا ہے۔واحد متکلم کے مطابق وہ کنکنی سوچوں میں محوبھیڑ میں بھاگنے والوں کو دھتکار رہا ہے کہ یہ پرکرتی کی ناجائز اولادیںہیں۔چنانچہ جب دنیا میں آئے ہیں تو سوچوں ،پریشانیوں اور مشکلات سے بھاگنا کیوں؟ ان کے ایسے اعمال اور کارناموں سے ان کاخالق تک شرمسار ہے۔جبکہ قابل ذکر امریہ ہے پیدا ئش اور موت دونوں اتفاقی حادثے ہیں اور ان کے درمیانی وقفے کو زندگی کہا جاتا ہے۔ اس مختصر سی مدت کو ذلالت،دکھ،مایوسی اور لایعنیت میں گذار دینا بے وقوفوں کی علامت کہلاتی ہے۔ان چیزوں کو معنی دینے کی کوشش میںانسان اپنی زندگی کو بے معنی بنا دیتا ہے۔واحد متکلم کے ذریعے اس کہانی کے پلاٹ کو بہت خو ب صورت انداز میں ربط و ضبط کے ساتھ آگے بڑھایا گیا ہے۔ انسان قدروں اور نجات کی عبث تلاش میں زندگی گزار دیتا ہے ۔دراصل ان چیزوں سے چھٹکارا ہی اصل نجات ہے۔چونکہ زندگی خود ایک قدر ہے اس لیے اسے بے کار کی سوچوں میں گنوا دینا انسان کی ذات اور روح کے لیے باعثِ مضر ہے۔اس افسانے میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان زندگی میں اپنی ذمہ داریوں،تہذیبی،اخلاقی اور معاشرتی قدروں سے مسلسل بھاگنے کی کوشش میں رہتا ہے۔اس بھاگنے کی کوشش میں وہ بھیڑ میں کھونے کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت بھی کھو دیتا ہے۔اس کائنات میں صدیوں سے ایساہی ہوتا چلا آیا ہے ابھی تک اس میںکچھ بدلا ہوا نظر نہیں آیابلکہ اس میں تو روز افزوں اضافہ ہوتارہا ہے۔دنیا میں جو فسادبرپاہوئے ہیں،انتشار اور خوف وہراس کی جو کیفیت پیدا ہورہی ہے،بے اطمیانی اور بدگمانی کی جس قدر جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں اورچہارسمت جو کہرام مچا ہوا ہے اس کا ذمہ دار بنیادی طور ایک انسان ہی ہے۔حالانکہ افسانہ نگار نے یہ افسانے پچاس برس قبل تخلیق کیے ہیں لیکن حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں سدھرے نہیںبلکہ وہ تو مسلسل بگڑ رہے ہیں۔افسانہ نگار نے حالات کی عکاسی کے لیے کمال کی جزئیات نگاری سے کام لیا ہے جسے ان کے بیان میں قوت اورفنی تاثیر پیدا ہوئی ہے۔انھوں نے افسانے میں اس چیز کی جھلک دکھائی ہے کہ انسان اپنے ہی کرموں سے بھاگ رہا ہے اور یہ کرم وہ صدیوں سے کرتا رہا ہے جس کے لیے وہ ایک دوسرے کا سہارا لیتے رہے ہیں۔جیسا کہ قول ہے’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘کے مترادف اس کا صلہ بھگتنا پڑتا ہے۔وہ پناہ مانگتا ہے تو اس کو کہیں پناہ نہیں ملتی، وہ متواتر بھاگتا رہتا ہے اور اس بھاگ دوڑ میں وہ زمین سے عرش معلی تک کا سفر کرتا ہے۔مگر اس کے برے افعال و اعمال سے عرش معلی بھی خود کو بربادی سے نہ بچا سکا۔جہاں فرشتے بھی بے گناہ مارے گئے اورجو لولے لنگڑے بچ گئے ان میں بھی جھگڑا پیدا کیا۔عرش معلی کی افراتفری کے سبب وہ وہاں سے بھی بھاگنے پر مجبور ہوا اور اس طرح وہ اب بھی مسلسل بھاگ ہی رہا ہے۔اس کے بعد افسانہ نگار نے سوالات قائم اٹھائے ہیں جو ان کے فلسفی ذہن کی اختراع کہے جا سکتے ہیں۔افسانہ ’’ایک لفظ کی موت‘‘اور’’ایک اور موت‘‘خیالات اور احساسات کی سطح پر مجھے کہیں کہیں انتظا ر حسین کے افسانہ’’آخری آدمی‘‘سے مماثلت رکھتا نظر آیا۔
انتظار حسین نے’’آخری آدمی‘‘کے آغاز میں ہی بندروں کا ذکر کے حیوانی حرکات و سکنات کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔جو کسانوں کی سال بھر کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں اور ان کی فصلوں کو تباہ و برباد کر کے نابود ہوجاتے ہیں۔انسان کو خدا نے زبان،دماغ،عقل،شعوراور فہم جیسی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے،اچھے برے کی تمیز سکھائی ہے اورہلال اور حرام میں فرق بتایا ہے۔یہ سب چیزیں انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں اور وقار بھی عطا کرتی ہیں۔لیکن جب اس کے برعکس ہو کہ انسان بھی جانوروں جیسی حرکتیں کرنے لگیں تو اس کے نتائج بھی منفی آنے کے پورے پورے امکانات ہوتے ہیں۔چونکہ افسانہ ’’آخری آدمی ‘‘میں بندر کسانوں کی فصلیں تباہ کر دیتے ہیں۔ اس لیے ہر طرف بندر بندر کی ہاہاکار مچ جاتی ہے۔ ان میں وہ شخص جو انھیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا،کہتا ہے کہ بندر تو تم لوگوں کے درمیان موجودہیں۔مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ جس پر لوگ اس کا برامان جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے؟ پھر وہ ردِ عمل میں کہتا ہے کہ ٹھٹھا تو تم لوگوں نے خداکے ساتھ کیا ہے جس نے تمہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ اب وہ ٹھٹھا تم لوگوں سے کرنے والا ہے۔علامت کے پردے میں انتظار حسین نے کتنی شگفتگی کے ساتھ اس حکایت کو سمجھانے کی سعی کی ہے کہ غفلت کی نیند میں پڑا انسان کس قدر خدا کے فرمان کی تکمیل کرنے سے قا صر رہتا ہے اور جبکہ اٹل حقیقت ہے کہ جن چیزوں سے خدا نے ممانعت کی ہے اگر اس میں غفلت برتی جائے تو کوئی شک نہیں کہ انجام برے سے برا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ لوگ خدا کے حکم پر عمل پیرا نہیں ہوتے توان پر قہر نازل کیا جاتا ہے اورایک ایک کرکے سب بندر کی شکل میں ڈھل جاتے ہیں ۔اس افسانے میں انسان کو انسان سے بندر بننے تک کے عمل میں جس کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے اسی عنصر کا احساس ہمیں پروفیسر صادق کے افسانوں’’لایعنی‘‘،’’ایک لفظ کی موت‘‘اور’’ایک اور موت‘‘ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔جس میںانسان مایوس،لاچار،بے بس،بے چین،وسوسے،انتشار،غم ، غصہ،تذبذب،تشکیک،وہم،خوف،نفرت،بیزار،حقیر،ناکام،تشنہ اور بدظن نظر آتا ہے۔جن میں ایک فرد ذات کی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔جہاں وہ لفظ کو معنی دینے سے قاصر ہے جیسے معلوم سے نامعلوم کی طرف بڑھنا،جان کر ناانجان بننا،حقیقت سے منہ پھیرنا ،قدر کو ناقدری میں تبدیل کرناوغیرہ۔اب افسانہ’’آخری آدمی‘‘کا جائزہ لیں جس میں الیاسف اپنے ہم جنسوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں پرلڑتے جگڑتے،لہولہان اور ایک دوسرے پر غم و غصہ کرتے دیکھ کرخود کو ناجنس جان کر ان سے بے تعلق ہوجاتا ہے۔یہاں ایک انسان دوسرے انسانوں سے محض اس کی حیوانی عادات و اطوارجیسی خصلت اختیار کرنے پر اپناتعلق منقطع کرنے مجبور ہوجاتا ہے۔اس کے بعد الیاسف ’’لفظ سے محروم ہونے‘‘،’’لفظ کے مرنے‘‘اور’’لفظ کی موت‘‘کا نوحہ کرکے خاموشی اختیار کرتا ہے۔دراصل یہاں’’لفظ‘‘سے مراد زندگی کی اصل،حقیقت اور معنی سے ہیں۔اس کے بعد الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔باوجود اس کے کہ وہ آخر تک اس متذبذب حالت سے خود کو باہر نہیں نکال پاتا۔اسی طرح صادق کے افسانوں کے کردار بھی متجسس،متحیراور تلاش و تشویش جیسی کیفیت کے ابتدا سے آخرتک شکارنظر آتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہی مذکور ہوچکا ہے کہ ان افسانوں کے موضوعات میںعلامت کے درپردہ عصری انسانی حالات اور درپیش مشکلات اور مختلف النوع چلینجزسمٹ آئے ہیں۔چونکہ مصنف ایک بہترین مصور بھی ہیں اور نقاشی کرتے وقت ایک مصورکے دماغ ،سوچ اور فکر پرآس پاس کے ماحول کا بڑا اثرا پڑتا ہے۔جسے وہ ہمیشہ کے لیے اپنے فن پارے میں قید کرلیتا ہے۔تصویری فن کو سمجھنا آسان بھی نہیں ہوتا ،کبھی کبھی تو مصورکینوس پر نقش ہائے رنگ رنگ کے جلوے بکھیر دیتا ہے۔جس کے معنی تک رسائی انسان کو بعض اوقات شش وپنج میں ڈال دیتی ہے ۔اس لیے صادق کے افسانوں میں علامتی نظام کو سمجھنے کے لیے مصور سازکی عینک سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ٓ ’’پاس پاش‘‘پروفیسر صادق کا اس کتاب میں شامل ایک اہم افسانہ ہے۔جو نہ محض تجربے کے اعتبار سے اہم ہے بلکہ موضوع،اسلوب و تکنیک اور زبان و بیان کی سطح پر بھی کامیاب ہے۔اس قسم کے تجربے جدیدیوں کی دین ہے ۔اس کے علاوہ اُس زمانے میں اِس نوعیت کے افسانے تخلیق کرنے کاایک عام رجحان پیدا ہوا تھا۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صادق نے افسانے کی اِس طرز میں باقی تخلیق کاروں کی تقلید کی بلکہ انھوں نے افسانوں میں جدت و حدت پیدا کرکے اِنہیں منفرد بنا دیا۔افسانہ’’پاش پاش‘‘ایک دلدوز فرقہ وارارنہ فساد کے پسِ منظر میںلکھا گیا ہے۔یہ فرقہ وارارنہ فسادجون 1968میں حیدر آباد میں پیش آیا تھا۔جس کی طرف افسانے میں واضح اشارات ملتے ہیںاور اس واقعے کے ایک اہم کرادر بانو کا بھی افسانے میں ذکر ملتا ہے جس کے ساتھ فسادیوں نے اس قدر جبر کی انتہا تھی جس سے نہ صرف انسانیت شرمسار ہوتی ہے بلکہ روح کوبھی جاں فرسا حالت سے گزرنا پڑتا ہے۔اس واقعے کی افسانہ نگار نے بہت ہی خوب صورت منظر کشی کی ہے ۔ان اقتباسات کو پڑھ کر ایسامحسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے افسانہ نگار اس پرسوزاور دل دہلانے والے حادثے کے چشم دید گواہ ہوں۔افسانے کی کچھ سطریں سامنے رکھ کرشاید قاری اس دل خراش واقعے کی اصل کیفیت اورحقیقت تک پہنچ سکیں:
’’بانو کو سیریس حالت میں اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔وہ بے ہوش تھی اس کے جسم پر جگہ جگہ جلتی ہوئی سگرٹیں داغی جانے کے نشانات ہیں۔اس کے ساتھ دس گیارہ آدمیوں نے یکے بعد دیگرے ریپ بھی کیا ہے…..ہم سوچ رہے ہیں جب اسے ہوش آئے گا اور اس کی آنکھوں میں اپنے نوجوان شوہر کے قتل والا منظر جاگ اٹھے گا تو…تو … تو کیا ہوگا؟…‘‘
افسانہ ’’پاش پاش‘‘ میں اس واقعے کو افسانہ نگار نے کس طرح پُر اثر طریقے سے بیان کیا ہے اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے بخوبی لگا سکتے ہیں:
’’ میں سوچتا ہوںبانو ہوش میں آنے سے پہلے ہی مرجائے اور سارے اور مقتولوں کی لاشیںنوآبادقبروں کے پلسترادھیڑ کراپنے قاتلوں کی آنکھوں میں تیز اجالوںکی طرح چبھ جائیںلیکن وہ لاشیں۔۔۔زندہ جسموں سے اس منزل تک آتے آتے اس قابل ہی کہاں رہ گئی تھیں کہ اپنی روحوں سے چھوٹ جانے کے عوض قبریں ہی حاصل کر سکی ہوتیں۔‘‘
اگر ایساممکن ہو سکا ہوتا تو زمین سے اٹھنے والی بد دعائیں گھڑ گھڑاہٹ کی زبان میں ایک دن اپنا مدعا قاتلوں کے چہروں پر تھوک کر کلبلاتی ہوئی سچائیوںکے اوراقی اجنتا میں الفاظ کی صورت نقش کر دیتے۔‘‘
محولا بالا اقتباسات میں فرقہ وارانہ فساد کے اُس پُرسوز المیے کی زد میں آئی ایک بے گناہ ،لاچار اور مظلوم عورت ’بانو ‘کے حالات سے نہایت مؤثر انداز میں واقف کرایا گیا ہے۔افسانہ نگار نے نہ محض بانو بلکہ انسانی دل ودماغ،ذہن،احساس،خیال اور روح کو پاش پاش کردینے والے فساد میں مارے گئے بے شمار بے گناہوں کی دردناک واقعے کی جو جاذب منظر کشی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔پروفیسر صادق کا مذکورہ افسانہ کسی رپوتاژ نگار کی سطحی رپورٹ نہیں ہے جس پر وہ خوش ہو لیتا ہے ۔بلکہ یہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگارکی حقیقت پر مبنی کہانی ہے، جس کو بیان کرتے ہوئے ان کی ذہنی کوفت اور افسردہ طبیعت کا احساس ہوتا ہے۔یہ کہانی حقیقت بیانی کی ایک عمدہ مثال ہے۔آزادی کے بعد فسادات کے موضوع پر بے شمار اور مقبول افسانے لکھے گئے ہیں ۔چنانچہ یہ اس دور کی کہانی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی مخصوص فرقے کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے تاہم جیسا عموماً ہوتا آیا ہے کہ ملک دشمن عناصر ہی ان فرقہ وارانہ فسادات کے بنیادی وجوہ ہوتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز مصنف نے’’ہم سب ہمسائے تھے‘‘ جیسے جملے سے کیا ہے جو پہلے ہمیں ماضی کی طرف لے جاتا ہے یعنی ہم کسی زمانے میں یا کسی وقت تک ہمسائے تھے۔اس کے بعد اسے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہم ہمسائے نہیں رہے۔جس کو رشتوں میں دراڑ کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔افسانہ نگار نے لکھا ہے کہ جب تک فساد شروع نہیںہوا تھا اُس وقت تک وہ ہمسائے ہی تھے یعنی فساد کے دن کی دوپہر کی تازہ دمی تک وہ ہمسائے رہے۔اس کے بعد قوم ،انسانیت اور امن دشمن لوگوں نے بے وجہ فساد برپا کیا جو ہماری رشتوں میں دراڑ کاسبب بنا۔غلط فہمیوں کو لے کر بنائی گئی مقصدی دشمنی کی یہ جنگ حق و صداقت کے مقام پر لاحقی اور جھوٹ کے لیے لڑی جا رہی تھی اور لڑنے والوں کے اندرون میںشجاعت اور مردانگی کے بجائے بزدلی اور مکاری چھپی تھی۔اس فساد کے سبب جتنی انسانی جانیں تلف ہوئیں ان سب کے درد ناک موت کی دلخراش اندازمیں منظر نگاری کی گئی ہے۔بے آواز چیخیں،مظلومیت کی لہو پیتی زمین،درد و عذاب کے کشمکش میں جسم سے الگ ہوتی روحیں اور دم توڑتی جانیںایسے جاں گداز مناظر کی عکاسی کررہی تھی کہ جس سے روح پاش پاش ہوجاتی۔ایسی روح فرسا آوازیں جو اگر پہاڑ سے ٹکراتی تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوکر زمین دوز ہوجاتا۔یہ افسانہ فساد یوں اور شرپسندوں کی بربریت سے پُرایک مثال ہے۔اس کے علاوہ یہ افسانہ ان شرپسندوںکو پناہ دینے، حمایت اور دفاع کرنے والے سیاسی مکاروں کی نقاب کشائی بھی نظر آتا ہے۔جو سیاست کی آڑ میں ملک کی سالمیت اور تحفظ میں رخنے ڈالنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ہمسائے کا لفظ اس افسانے کامرکزی محور ہے۔افسانہ نگار نے یہ کہنے کی بھی سعی کی ہے کہ ابھی تک جو بے حد وفا شعاری کے ساتھ ہمسائیگی کے فرائض نبھا رہے تھے تو وہ یک لخت کیسے ایک دوسرے کی جان لینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔اس پہلو پر بہت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔موت کا جوگھناؤنا کھیل ان دھنگوںمیں کھیلا گیا اسے انسان کی طبیعت کو کراہت ہوتی ہے۔ مذہب،ذات پات،نسل،رنگ اور چھوا چھوت کے بھید بھاؤ جیسے سلوک کی بنیاد پر نفرت کی دیواریں کھڑی کیے جانے کا جومنظر افسانہ نگار نے پچاس برس قبل دیکھا ہے اس کی جھلکیاں عہدِحاضر میں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ صاد ق کا افسانہ’’پاش پاش‘‘فرقہ وارانہ فساد کے پس پشت انسانی زیاں کی جاندار عکاسی کرنے میں بہت کامیاب ہوا ہے۔
’’کھلنایک‘‘افسانہ میں واحد متکلم کی کھلنایکی کا عمدہ مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ افسانہ واحد متکلم کی بیانیہ تکنیک میں لکھا گیا ہے۔اس افسانے کے پلاٹ کو آگے بڑھانے میں جو کردارخاص رول ادا کر رہے ہیں ۔ اس میں سوا ئے پریا کے باقی کسی کردار کے نام کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے برعکس ان کے پیشے بتلائے گئے ہیں جو کہانی میں قصّے پن کی دلچسپی کا ضامن بنتا ہے۔یوںبھی کہا جاسکتا ہے کہ اس افسانے میں فلمی طریقہ کار برتا گیا ہے اور فلمی تکنیک اس افسانے کومزید دلچسپ بنا دیتی ہے۔یہاں صادق کی افسانوی فن کاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ ’’کھلنایک‘‘افسانے کا جائزہ لینے کے بعد ایک قاری کے ذہن و دل پر بیک وقت کئی چیزیں مرتسم ہوجاتی ہیں۔ا